بطورِ نفسیاتی معالج میں نجانے کتنے ایسے مشرقی اور مغربی مردوں سے مل چکا ہوں جو یا تو نامردی کا شکار ہو چکے تھے اور یا نامرد ہونے کے خوف نے ان کی راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ انہیں اپنی نامردی کی اتنی فکر تھی کہ وہ لفظ ’نامرد‘ کو سب سے بڑی گالی سمجھتے تھے۔
جب میں نے ان مردوں سے تفصیلی گفتگو کی تو پتہ چلا کہ ان میں سے اکثر ایسے خاندان اور معاشرے میں پلے بڑھے تھے جہاں جنس کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ذہن میں جنس کا تعلق عورت سے پیار‘ محبت اور دوستی سے کم اور احساسِ گناہ سے زیادہ تھا۔ نوجوانی سے جب ان کے ذہن میں جنس کے بارے میں خیالات آتے تو وہ احساسِ گناہ کا شکار ہو جاتے اور وہ جتنا ان جذبات کو دبانے کی کوشش کرتے وہ اتنی ہی شدت سے دوبارہ ابھرتے۔ ایک پاکستانی نے مجھے بتایا کہ جوانی میں جب وہ دیواروں پر حکیموں کے بچپن کی غلط کاریوں اور مردانہ کمزوری کے اشتہار دیکھتا تو بہت پریشان ہوتا۔
میں بہت سے ایسے مردوں سے ملا ہوں جو MASTURBATION کو نہ صرف گناہ سمجھتے ہیں بلکہ ڈرتے بھی ہیں کہ وہ ماسٹربیشن سے جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ طبی طور پر ماسٹربیشن ایک فطری عمل ہے تو وہ بہت حیران ہوئے۔
مردوں کے عارضی یا مستقل طور پر نامردی کا شکار ہونے میں نفسیاتی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے مردوں کی اکثریت PERFORMANCE ANXIETY کا شکار ہوتی ہے۔ انہیں فکر ہوتی ہے کہ وہ سرعتِ انزال کا شکار ہو جائیں گے اور اپنی بیوی کی رومانوی اور جنسی تسکین نہیں کر سکیں گے۔ ایسے مرد اکثر احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ بظاہرMACHO بنتے ہیں لیکن درپردہ عورت کی طاقت سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر صحتمند انسان کو کسی دوسرے انسان پر بالادستی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ برابری کے سلوک کی عزت اور احترام کرتا ہےْ۔
مشہور اور متنازعہ فیہ ماہرِ نفسیاتTHOMAS SZASZ نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام SEX BY PRESCRIPTION ہے۔ اس کتاب کی تحقیق کے دوران انہوں نے امریکہ کے SEX CLINICS میں بہت سے ڈاکٹروں اور مریضوں کے انٹرویو لیے۔ انہیں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ مردوں کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ انہیں ORGASM دیر سے آئے اور عورتوں کی اکثریت اس لیے علاج کروا رہی تھی کہ انہیں اورگیزم جلدی آئے۔ مردوں کو سرعتِ انزال کی اور عورتوں کو تاخیرِ انزال کی شکایت تھی۔ تھامس ساز کا کہنا ہے کہ نجانے کتنے جوڑے ایک دوسری کی قربت اور محبت سے محظوظ ہونے کی بجائے MYTH OF MUTUAL ORGASM کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نفسیاتی طور پر صحتمند جوڑے اپنے رشتے میں محبت اور پیار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور جنسی اورگیزم کو کم۔ وہ ایک دوسرے سے محبت بھری باتوں سے اتنا ہی محظوظ ہوتے ہیں جتنا کہ مباشرت سے۔ وہ FOREPLAY کے راز سے واقف ہوتے ہیں۔ میری ایک مختصر نظم ہے
کیا خیال ہے؟
وصل کی لذتوں کا مزا چھوڑ کر
آئو کچھ دیر کو آج باتیں کریں
ایک اور امریکی ماہرِ نفسیات ABRAHAM MASLOW نے ان لوگوں کے انٹرویو کیے جو اپنی زندگی میں بہت کامیاب و کامران تھے۔ ان میں ادیب اور شاعر بھی شامل تھے اور سائنسدان اور دانشور بھی۔ ماسلو کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی زندگی میں ان کے محبت بھرے رشتے اور تخیلیقی کام زیادہ اہم تھے اور جنس کی خواہش کم۔
مردوں کی نامردی میں نفسیاتی مسائل اتنے اہم ہیں کہ ژاں پال سارتر نے ان مردوں کا ذکر کرتے ہوئے جو اپنے دلوں کی گہرائیوں میں یہودیوں سے تعصب رکھتے ہیں ایک ایسے مرد کا واقعہ لکھا ہے جو ایک طوائف کے پاس جاتا ہے اور جب مباشرت کے لیے تیار ہوتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ طوائف یہودی ہے تو وہ عارضی طور پر نامردی کا شکار ہو جاتا ہے۔
جو شوہر اپنی بیویوں کا تہہِ دل سے احترام نہیں کرتے وہ بھی نامردی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ نے چند ایسے مردوں کی نامردی کا ذکر کیا ہے جو MADONNA-WHORE COMPLEX کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے مرد لاشعوری طور پر عورتوں کو دوخانوں میں بانٹتے ہیں۔ جن کی عزت کرتے ہیں انہیں میڈاونا اور جن سے جنسی مباشرت کرتے ہیں انہیں طوائف سمجھتے ہیں۔ فرائڈ کا نفسیاتی تجزیہ تھا کہ ایسے مردوں میں’ جہاں جنسی خواہش ہوتی ہے وہاں عزت نہیں ہوتی اور جہاں عزت ہوتی ہے وہاں جنسی خواہش نہیں ہوتی‘۔ ایسے مردوں کو سائیکو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنے نفسیاتی مسائل اور تضادات کا حل تلاش کر کے ایک صحتمند رومانوی زندگی گزار سکیں۔
ہم سب کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ نامردی کے شکار مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنا جسمانی اور ذہنی معائنہ کروائیں اور اگر انہیں علاج کی ضرورت ہے تو علاج کروائیں تا کہ ان کی زندگی میں عورت کی محبت کا چاند طلوع ہو اور وہ خود اعتمادی سے اپنی شریکِ حیات کو محبت کا تحفہ پیش کر سکیں۔