خودی کا سفر



درد ایک ایسی کیفیت ہے جس کی شدت کوئی نہیں سمجھ سکتا جب کسی کو پانے کی تڑپ بڑھ جاے تو درد بے اختیار ہو کے اپنی حدوں کو توڑتا ہوا آنکھوں کے ذریعے بہنے لگتا ہے
کیا کوئی کسی کا درد محسوس کر سکتا ہے؟ کسی کے دل کا حال جان سکتا ہے، اس کے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ کو سن سکتا ہے، جو روز اپنی ذات کی دیواروں سے ٹکرا کے بکھرتا ہے اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے۔ دنیا کے سامنے منافقت کے خول میں خود کو چھپاتا رہتا ہے کیونکہ انسان کو اپنی بقا کے لئے خود کو جھوٹا دلاسا دینا پڑتا ہے کہ کتنی ہی توڑ پھوڑ کیوں نہ ہو رہی ہو دنیا کے سامنے خوش ہو کے دکھانا ہے مضبوط چٹان بن کے کھڑے رہنا ہے چاہے تمہارے اندر سے اجڑ جانے کی صدائیں آتی رہیں منافقت کا لبادہ اوڑھے رکھنا ہے
تب انسان ایسی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے ناخوش رہتا ہے اسے اپنے اندر ایک کمی ایک خلا محسوس ہوتا ہے، لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی محسوس کرتا ہے اور ایسی کمی سے شاید وہ خود بھی واقف نہیں ہوتا کہ اسے کیا چاہیے؟ کیوں وہ اس کیفیت کا شکار ہے؟ وہ ایسی جگہ گم ہو جانا چاہتا ہے جہاں اسے خود کے وجود کا علم بھی نا ہو۔ مگر وہ بے بسی کے اس کنارے پر ہوتا ہے جہاں اسے اس کا دل جنجھوڑ رہا ہوتا ہے اور آنکھ اشک بار ہو رہی ہوتی ہے جسے صرف اللہ سن سکتا ہے، دیکھ سکتا ہے۔ دنیا کے سامنے جتنا منافقت سے کام لے لے اپنے رب کے سامنے ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ بے شک رب کی ذات اسے سمیٹ کر جوڑنے کی قدرت رکھتی ہے۔ وہ انسان خاموش رہنے کو تر جیح دیتا ہے، کہتے ہیں جب تکلیف روح تک پہنچ جاے تو الفاظ اس کا مداوا نہیں کر سکتے
کسی بھی یقین کے ٹوٹ جانے پر انسان کے احساس مردہ ہو جاتے ہیں اور وہ اسی مردہ احساسات کے ساتھ ختم ہوتا جاتا ہے جس چیز کے بارے میں انسان اتنے بڑے دعوے کرتا ہے اس کا رب اسی بات پر آزماتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے بندے کو کمزور بنانا چاہتا ہے یا اسے تنہا چھوڑنا چاہتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے بندے کو مضبوط بنانا چاہتا ہے اسے اپنے قرب میں لانا چاہتا ہے، دنیاوی محبت اور خواہشات کو ختم کر کے اپنی محبت کی جگہ بنانا چاہتا ہے۔ انسان کو آزمائش میں ڈال کر اس کے اندر مخفی راز سے آگاہ کرتا ہے جس سے وہ خود نا واقف ہوتا ہے اور اپنے نفس کی خود فریبی میں مگن ہوتا ہے۔
جب وہ انسان کو اپنے آپ کو پہچاننے کا موقع دیتا ہے تو وہ سب کو اس سے دور کر دیتا ہے وہ انسان پر لا الہ الاللہ کا راز عیاں کرتا ہے وہ آزمائش اور تکلیف کی سختیوں میں صبر دے کر اپنی محبت کی مہربانیاں اور عنائتیں نوازتا ہے۔ اس لئے کے وہ اس دل کو خود کے لئے چن لیتا ہے، اس ساری کیفیت میں خود کو اللہ کے سپرد کر دینے میں بھلائی ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات انسان خود سے مل کر اپنے رب سے مل پاتا ہے۔
یہ راز اندر کا سفر ہے، خودی کا سفر ہے اور تنہائی میں ملتا ہے اور ملنے کے بعد خاموش کر دیتا ہے۔
میں کون ہوں یہ جان کر میں کیا ہوں؟ میں رو پڑا
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔