کہتے ہیں لوگ اپنی جنم بھومی کی محبت ساری عمر دل سے لگائے رکھتے ہیں۔ کہیں بھی عمر بتائیں، ان گلیوں کی یاد بے چین رکھتی ہے جہاں بچپن کےسنہرے دن بیتے۔ ایک تڑپ من کو سلگائے جاتی ہے کہ پھر سے ان راستوں سے گزرا جائے۔ کیا وہاں زندگی ویسے ہی سانس لیتی ہے جیسی آنکھوں میں بسی ہے۔
ہمیں بھی ایسی ہی محبت ہوئی لیکن حیران کن طور پہ جنم بھومی سے نہیں، بلکہ اس جگہ سے جس نے ہمیں اٹھارہ سال کی عمر میں گلے لگایا۔ وہ جو ملکہ نورجہاں کی تڑپ تھی وہ ہمارا بھی نصیب بن گئی۔
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جان دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یا پھر وہ جو ناصر کاظمی نے کہا تھا
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور جانا رہتا تھا لیکن لاہور سے اصل تعارف کبھی نہ ہوا۔ محبت کے یہ مرحلے تب طے ہوئے جب ہم میڈیکل کالج کےہوسٹل میں آ بسے اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پہچاننا شروع کیا آہستہ آہستہ۔
گرمیوں کی لمبی دوپہروں کے بعد جب دھوپ ڈھلنےلگتی تو ہم سب دوست لارنس گارڈن کو پیدل چل پٍڑتے۔ راستہ خوش گپیوں میں کٹ جاتا۔ شام میں جاتی دھوپ میں درختوں کے لمبے ہوتے سائے، گھونسلوں کو واپس لوٹتے پنچھیوں کی چہچہاہٹ، خوشگوار پروا اور خوش ہوتے پتوں کی بانسری اور گاہے گاہے بارش کی بوندوں کی کن من ایک سماں باندھ دیتی اور اس منظر کو ہماری بلاوجہ کی ہنسی مکمل کر دیتی۔ ہم دوست ادھرادھر ٹہلتے، کبھی جھولوں پہ جا بیٹھتے، کبھی کسی درخت پہ چڑھنے کی کوشش کرتے۔ چائے اور پکوڑوں سے لذت کام و دہن ہوتی اور رات کی تاریکی سے پہلے واپسی کی راہ لیتے۔ یہ ایک ایسی یاد ہے جس کا نقش بہت گہرا ہے۔
باغوں سے تعلق صرف لارنس گارڈن تک ہی محدود نہ رہا۔ ہمارے تمام چھٹی کے دن گلشن اقبال پارک، ریس کورس پارک اور نواز شریف پارک میں گزرنے لگے۔ پورے ہفتے کی مشکل پڑھائی کے بعد چڑیوں کی طرح باغ میں بھاگنا، پانی میں پیڈل والی کشتیاں چلانا، فواروں میں بھیگنا، بھٹے کھانا اور پھر شام ڈھلے ویگن میں بیٹھ کر واپس ہوسٹل پہنچنا ہمیں اگلے ہفتے تک فرحت و انبساط سے ہم کنار رکھتا تھا۔
سینما جا کے فلم دیکھنا بھی اسی دور کی کہانی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارا اناٹومی کا پہلا ٹیسٹ تھا اور ہم ٹھنڈے بے جان لاشوں کی ہڈیاں پڑھ پڑھ کے تقریباً دیوانے ہو چکے تھے۔ دیوانگی سے واپس فرزانگی تک کا سفر متقاضی تھا کہ ٹیسٹ سے فارغ ہونے کے بعد کچھ کیا جائے۔ کچھ لوگ سر جوڑ کے بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ فلم دیکھی جائے۔ اسمبلی ہال کے سامنے فاطمہ جناح روڈ پہ الفلاح سینما ہوا کرتا تھا اور اس دن وہاں پہ فلم تھی جان ریمبو کی ” فرسٹ بلڈ “۔ سو چشم فلک نے دو تانگوں پہ سوار نیند سے بے حال بارہ لڑکیوں کو الفلاح کی طرف جاتے دیکھا۔ یہپہلا انتہائی کامیاب تجربہ تھا اور پھر چل سو چل۔ اداکارہ نیلی کی ساری فلمیں اسی دور میں دیکھی گئیں۔
اور پھر یہ شوق کلاسیک فلموں تک پہنچ گیا۔
امریکن سنٹر اور ہمارے کالج کی درمیانی دیوار مشترک تھی۔ فلموں اور کتابوں کے شوق میں ہم سب دوست امریکن سنٹر کے ممبر بنے اور ہم سب کے لئےفلم ایوننگ ایک بہت بڑا ایونٹ ہوتی۔ شام میں ہم سب تیار ہوتے اور پیدل امریکن سنٹر کو چل پڑتے۔
یہاں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا!
” گون ود دی ونڈ ، جولیا، پریٹی وومن، بیک ٹو فیوچر ” ۔ اس دور کی محبت دل میں ایک ایسی خوشی کی لہر دوڑاتی ہے کہ دل کچھ لمحوں کے لئے دھڑکنا بھول جاتا ہے۔
تاریخ سے انسیت پہلے بھی تھی لیکن لاہور نے اسے عشق میں تبدیل کر دیا۔ وہ صبحیں، وہ شامیں، جو کبھی شالامار باغ میں گزریں اور کبھی مقبرہ جہانگیر میں، نہیں بھولتیں۔ کبھی ہم عاشق لاہور، مقبرہ نور جہاں تک پہنچ جاتے اور کبھی راوی کی لہروں سے کھیلتے ہوئے کامران کی بارہ دری تک۔ کبھی شاہی مسجد میں حاضری دیتے تو کبھی شاہی قلعے میں گھومتے پھرتے اپنے آپ کو شہزادی تصورکرتے۔
اندرون شہر کی گلیاں اور ان گلیوں کے فسانے ہمارے لئے طلسم ہوشربا سےکم نہ تھے۔ کئی صدیوں پہلے کے دور میں جھانکنا سرخوشی کا سبب بنتا تھا اورلاہور کی محبت گہری ہوتی جاتی۔
کالج میں گزارے ایک کھٹن دن کے بعد دوپہر سو کے جاگتے تو بھوک جاگ اٹھتی۔ اب ریگل چوک کے نزدیک ٹھکانہ ہو اور وہاں کے دہی بھلے اور چمن آئس کریم نہ کھائی جائے تو یہ تو ظلم ہوا نا۔ عموما کلاس ٹیسٹ کی وجہ سے سب کا جانا ممکن نہ ہوتا تو کسی ایک کو لانے کی ذمہ داری سونپی جاتی اور وہ کوئی ایک ہمیشہ ہم ہوتے۔ رکشہ یا ویگن میں اکیلے جانا اور آنا ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
رات کا بدمزہ کھانا کھانے کے بعد میٹھا کھانے کی اشتہا بیدار ہوتی اور ہم سب دوست مزنگ چونگی پہ واقع شیزان بیکری کی طرف چل پڑتے جہاں کے لیمن ٹارٹس کی حلاوت آج بھی نہیں بھولتی۔ کسی کسی دن بےنظیر قلفہ کی بھی باری آ جاتی۔ رات کے اندھیرے میں پیدل جانا اور آنا کبھی خوف کا باعث نہ بنتا۔
اسی کی دہائی کے وسط میں مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ” سالٹ اینڈ پیپر ” کی پہلی برانچ مال روڈ پہ زیدی فوٹوگرافر والی بلڈنگ میں کھلی اور ہمارا دل لوٹ لیا۔ سو جان لیجیے کہ سالٹ اینڈ پیپر اور ہم نوعمری کے ساتھی ہیں۔ ہمارا پسندیدہ کھانا اسپائسی چکن پاکٹ سینڈوچ تھا جس کی قیمت تو مناسب تھی لیکن جب ہماری جیب میں کچھ کمی ہوتی تو دو لوگ مل کے ایک سینڈوچ کھاتے۔ بارہا لڑکیاں جب وہاں پہنچتیں تو چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں رنگ بکھر جاتے۔ سب سٹاف ہم سے واقف اور اگر کبھی کچھ دن نہیں جاتے تو سبب دریافت کیا جاتا۔ سلاد اور فرنچ فرائز کچھ زیادہ ہی دیے جاتے، آخر ہم مستقل گاہک تھے۔ اب تک کی عمر میں دنیا بھر میں گھوم کے انواح و طرح کے کھانوں کا ذائقہ چکھ چکے ہیں مگر کیا کریں کہ منہ میں پانی اس وقت کی یاد سے ہی آتا ہے۔
لاہور میں رہے ہوں اور بسنت کا ذکر نہ کریں یہ کیسے ممکن ہے ؟
وہی بسنت جو یادوں کے دریچوں سے جھانکتی ہے اور ہمیں لاہور میں گزرے ماضی کی خوشبو میں جکڑ لیتی ہے۔ جاڑا جا رہا ہوتا، موسم خوشگوار اعتدال کی طرف مائل ہوتا اور روشن آسمان مختلف رنگوں کی آزاد پتنگوں سے سج جاتا۔ ہم کالج سے واپس آتے، ہوسٹل کی چھت پہ چڑھ جاتے، ایک طرف کینوؤں کی ٹوکری ہوتی، دوسری طرف ٹیپ ریکارڈر پہ نازیہ اور زہیب کی آوازیں گونج رہی ہوتیں اور ہم اپنی پتنگوں کو اڑانے کی تیاری کر رہے ہوتے۔ یہ ہنر ہم نے لاہور قیام کے دوران ہی سیکھا۔ وہ پتنگوں کا فضا میں لہرانا، انہیں اوپر اور اوپر لے جانےکی تمنا رگوں میں خون کی گردش تیز کرتی۔ کبھی محسوس ہوتا کاش ہم بھی پتنگ ہوتے اور آکاش پہ ڈولتے پھرتے بغیر کسی غم کے اور کسی فکر کے بنا۔
بہار کی آمد کے ساتھ ہی لارنس گارڈن کا اوپن ائیر تھیٹر آباد ہو جاتا اور ہم اپناچھٹی کا دن اس چہل پہل میں گزارتے۔ کیا کیا فنکار دیکھے اور سنے۔ اب تو دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن!
لاہور کی ایک اور یاد کتابوں کا ذکر کئے بغیر نا مکمل ہے۔ مال روڈ پہ فیروز سنز اور وین گارڈ جانا ہمارے محبوب ترین مشاغل میں شامل تھا۔ ہم جاتے اور پہروں ورق گردانی کرتے اور سیلز مین کبھی کچھ نہ کہتے کہ ہماری باقاعدگی سے خوب واقف تھے۔ کسی اتوار کو انارکلی جانے کا پروگرام بن جاتا جہاں فٹ پاتھ پہ پرانی کتابوں کے ڈھیر میں سے گوہر نایاب ڈھونڈنا ہمیں بہت بھاتا اور وقت کی گھڑیاں کیسے گزر جاتی ہیں، سمجھ ہی نہ آتا۔
لاہور میں گزرے ان چھ برسوں کی چھاپ اتنی گہری ہوئی کہ جس نے ہمیں ہماری بچپن کی گلیوں کو کہین پیچھے دھکیل دیا۔ یہ چھ برس اب ایسی متاع حیات ہیں جو ہم کہیں بھی رہیں، کچھ بھی کر رہے ہوں ہمارے ساتھ جیتے ہیں اور ہمارے ساتھ سانس لیتے ہیں۔
کبھی کبھی جب گردش روز ایام طبعیت کو مضمحل کرتی ہے تو بے اختیار ایک احساس روح میں مچل جاتا ہے۔ کاش کچھ ایسا ہو کہ زندگی ایک اور موقع بخش دے، وہی دن رات ہوں، وہی ہم جولیاں ہوں اور وہی لاہور ہو!
اور کیا خوب کہا ہے سلیم الرحمن صاحب نے!
ہر شے بدلتی ہے یہاں
لمحہ بہ لمحہ، خود به خود
مجھ میں بدلتا ہے کوئی
میں خود تغیر کی ہوں رو
پانی میں بہتی صورتیں
بے نام، کچی صورتیں
اور پھر بھی سچی صورتیں
اپنی پرائی صورتیں
آب رواں، تھم جا یہاں، لیکن کہاں…..
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔