چین میں لی فین نامی ایک طالب علم نے ویلنٹائن کے فوراً بعد مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم وائیبو پر ایک مختصر پیغام پوسٹ کرنے کے بعد خود کشی کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے لکھا ’میں مزید نہیں چل سکتا۔ میں اب اسے چھوڑنا چاہتا ہوں۔‘
اس کے بعد وہ جلد ہی بے ہوش ہو گئے۔
لی فین مقروض تھے اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔
لی فین کی پوسٹ کا نائیجنگ میں واقع ان کی یونیورسٹی سے تقریباً 8,000 کلومیڑ دور ایمسٹرڈیم میں ایک کمپیوٹر پر چلنے والے ایک پروگرام کے ذریعے پتہ چلا۔
لی فین کا پیغام چین کے مختلف حصوں میں رہنے والے رضاکاروں کے لیے تحریک کا باعث بن گیا۔
یہ بھی پڑھیے
جب رضا گار لی فین کو ہوش میں لانے میں ناکام رہے تو انھوں نے مقامی پولیس کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا جنھوں نے آخر کار انھیں بچا لیا۔
یہ غیر معمولی لگ سکتا ہے تاہم یہ ریسکیو ٹیم کے لیے ایسی بہت سی کامیابیوں میں سے ایک تھی۔
اس اقدام کے بانی ہوانگ ژشینگ ہیں جو فری یونیورسٹی ایمسٹرڈیم میں مصنوعی ذہانت کے سینیئر محقق ہیں۔
گذشتہ 18 مہینوں کے دوران ہوانگ ژشینگ کے پروگرام کو چین بھر میں 600 رضاکاروں نے استعمال کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے 700 کے قریب لوگوں کی زندگی بچائی ہے۔
ہوانگ نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’اگر آپ ایک سکینڈ کے لیے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں تو بہت سی جانیں ضائع ہو جائیں گی۔‘
’ہم ہر ہفتے لگ بھگ 10 افراد کی زندگی بچا سکتے ہیں۔‘
پہلا ریسکیو آپریشن 29 اپریل 2018 کو ہوا تھا۔
چین کے شمالی صوبے شیڈونگ میں کالچ کی 22 سالہ طالبہ تائو یو نے وائیبو پر لکھا کہ انھوں نے دو دن بعد خودکشی کرنے کا منصوبہ بنایا۔
چین اکیڈمی آف سائنسز کی رضاکار پینگ لنگ اور کئی دیگر افراد نے اس پر ردعمل ظاہر کیا۔
پینگ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں تاؤ یو کی سابقہ پوسٹ کے ذریعے ان کے کسی دوست کا ایک فون نمبر ملا تھا اور انھوں نے اس معلومات کو کالج تک پہنچا دیا۔
ان کا کہنا تھا ’میں نے سونے سے پہلے انھیں پیغام دینے کی کوشش کی اور بتایا کہ میں انھیں پک کر سکتی ہوں۔‘
’انھوں نے مجھے [چینی ایپ] وی چیٹ میں دوست کی حیثیت سے شامل کیا اور آہستہ آہستہ پرسکون ہو گئی۔‘
’اس کے بعد سے میں نے ان کی جانچ پڑتال جاری رکھی ہے کہ آیا وہ کھا رہی ہیں یا نہیں۔ ہم ہفتہ میں ایک بار انٹرنیٹ کے ذریعے انھیں پھولوں کا گلدستہ بھی خرید کر دیتے ہیں۔‘
اس کامیابی کے بعد اس ٹیم نے ایک آدمی کو بچایا جنھوں نے پل سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی تھی اور ایک خاتون کو بھی بچایا جنھوں نے جنسی استحصال کے بعد خود کشی کرنے کی کوشش کی۔
بیجنگ کی ماہر نفسیات لی ہانگ کا کہنا ہے ’بچاؤ کے لیے تقدیر اور تجربہ دونوں کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے یاد کیا کہ کس طرح ان کے ساتھیوں نے چینگڈو کے آٹھ ہوٹلوں کا دورہ کیا تھا تاکہ خود کشی پر آمادہ خاتون کے بارے میں پتہ کیا جا سکے جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ انھوں نے شہر میں ایک کمرہ بک کروایا تھا۔
لی ہانگ نے کہا ’تمام استقبالیوں نے کہا کہ وہ اس خاتون کو نہیں جانتے۔‘
’لیکن ان میں سے ایک ریسیپشنسٹ ایک لمحے کے لیے ہچکچایا۔ ہم نے سمجھا کہ یہ ہوٹل ہی ہونا چاہیے اور وہی تھا۔‘
سسٹم کس طرح کام کرتا ہے؟
جاوا پروگرامنگ لینگویج میں بنا پروگرام ویبو پر متعدد ’ٹری ہول‘ پر نظر رکھتا ہے اور وہاں پوسٹ کردہ پیغامات کا تجزیہ کرتا ہے۔
’ٹری ہول‘ انٹرنیٹ پر ایسی جگہوں کا چینی نام ہے جہاں لوگ دوسروں کے رازوں کو پڑھنے کے لیے شائع کرتے ہیں۔
یہ ایک آئرش کہانی سے ماخوذ ہے جس میں ایک آدمی ایک درخت کو اپنا راز بتاتا ہے۔
اس کی ایک مثال چین کی 23 سالہ طالب علم زوفین کی ایک پوسٹ ہے جنھوں نے سنہ 2012 میں خود کو مارنے سے پہلے وائیبو پر پیغام لکھا تھا۔
ان کی موت کے بعد ہزاروں دوسرے صارفین نے ان کی پوسٹ پر تبصرے کیے، اپنی پریشانیوں کے بارے میں لکھا اور اس طرح اصل پیغام کو ’ٹری ہول‘ میں تبدیل کر دیا۔
مصنوعی ذہانت کا پروگرام خود بخود ایک سے 10 تک شائع ہونے والی پوسٹوں کو شامل کرتا ہے۔
نو پوسٹوں کا مطلب ہے کہ اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جلد ہی خود کشی کی کوشش کی جائے گی۔ 10 کا مطلب ہے کہ یہ کوشش پہلے سے جاری ہے۔
ان معاملات میں رضا کار پولیس کو براہ راست کال کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس میں ملوث شخص کے لواحقین اور دوستوں سے رابطہ کرتے ہیں۔
لیکن اگر درجہ بندی چھ سے کم ہے، مطلب صرف منفی الفاظ ہی پکڑے گئے ہیں تو رضا کار عام طور پر مداخلت نہیں کرتے ہیں۔
ٹیم کو عموماً جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سب سے بڑا پرانے رشتہ داروں کا یہ عقیدہ ہے کہ دباؤ کوئی ’بڑی بات‘ نہیں ہے۔
لی نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’مجھے معلوم تھا کہ جب میں ہائی سکول میں تھا تو مجھے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن میری والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ بالکل نا ممکن تھا۔ اس کے بارے میں مزید نہیں سوچنا۔‘
مصنوعی ذہانت کے پروگرام میں ایک نوجوان خاتون کی ایک پوسٹ بھی ملی جس میں کہا گیا تھا ’میں نیا سال آنے پر خود کو مار ڈالوں گی۔‘
لیکن جب رضاکاروں نے ان خاتون کی والدہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس نے مذاق کیا ہے اور کہا “میری بیٹی ابھی بہت خوش تھی۔ آپ کو یہ کہنے کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ خودکشی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔‘
جب رضاکاروں نے اس خاتون کو ان کی بیٹی کے ذہنی دباؤ کا ثبوت دیا تو بھی انھوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
لمبا سفر
اپنی کامیابیوں کے باوجود ہوانگ نے اپنے منصوبے کی حدود کو تسلیم کیا ہے۔
انھوں نے کہا ’کیونکہ وائیبو ویب کرالروں کے استعمال کو محدود کرتی ہے لہٰذا ہم ہر روز صرف 3,000 اندراجات جمع کرسکتے ہیں۔‘
’لہٰذا ہم اوسطاً ایک یا دو دن کی بچت کر سکتے ہیں اور ہم انتہائی ضروری معاملے پر توجہ دینے کا انتخاب کرتے ہیں۔‘
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بازیاب ہونے والوں میں سے کچھ کو طویل مدتی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
لی نے کہا ’میری زیادہ تر زندگی اب انھی بچائے ہوئے لوگوں کے قبضہ میں ہے۔‘
’میں کبھی کبھی بہت تھک جاتی ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس وقت وہ آٹھ افراد سے رابطے میں تھیں جنھیں بچا لیا گیا تھا۔
لی نے کہا ’جب وہ مجھے میسج کریں گے تو مجھے انھیں فوراً جواب دینا ہے۔‘
ٹیم کے کچھ ارکان آف لائن مدد فراہم کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
پینگ نے ایک ایسی نوجوان لڑکی کی مثال دی جنھوں نے بچائے جانے کے بعد ’ہر روز بہتر نظر آنے‘ کے باوجود خود کو ہلاک کر لیا۔
انھوں نے مزید کہا ’وہ مجھ سے جمعے کو نیا فوٹو پورٹریٹ حاصل کرنے کے بارے میں بات کر رہی تھی لیکن دو دن بعد وہ ہلاک ہوگئی تھیں۔
’یہ میرے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے کہ ایک شخص جن کے ساتھ آپ طویل عرصے تک رہے، وہ اچانک وہاں نہ ہوں۔‘
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔