علی بن حمزہ کسائی ( امام کسائی) عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے صاحبزادگان مامون الرشید اور امین الرشید کے اتالیق تھے۔ ایک دفعہ امام کسائی مجلس سے اٹھے تو دونوں شہزادگان استاد کے نعلین اٹھانے دوڑے اور اس بات پہ تکرار کرنے لگے کون استاد کے جوتے اٹھائے گا۔ بلآخر دونوں جوتے کا ایک ایک پاؤں لے کر استاد کے پاس پہنچے۔ خلیفہ ہارون الرشید یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اگلے دن اس نے اپنے مصاحبین وزراء اور درباریوں سے پوچھا بتاؤ اس سلطنت میں کون سب سے زیادہ خوش قسمت ہے۔
سب بیک زبان بولے جہاں پناہ بھلا آپ سے زیادہ خوش قسمت کون ہوگا جس کی بادشاہی کا ڈنکا چارسو بجتا ہے۔ جس کے اشارۂ ابرو پر قوموں کی زندگیاں منحصر ہیں۔ جس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ جس کی سلطنت روز نئی وسعتوں کو چھورہی ہے۔ روئے زمین پہ کوئی بادشاہ، شہنشاہ آپ کے مقابل نہیں ٹھہرتا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا میری سلطنت میں سب سے خوش قسمت امام کسائی ہے جس کی جوتیاں بھی بادشاہ کے بیٹے اٹھاتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں علم اور اساتذہ کی یہ قدرومنزلت تھی جس کی وجہ سے شرق و غرب کے شہنشاہ اس کے آگے سرنگوں تھے۔ عباسی خلفاء تو اور بھی بہت سے گزرے لیکن خلیفہ ہارون الرشید کی بات اور ہے۔
آپ حضرت محمدﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو جو پہلا لفظ تھا وہ تھا ”اقرا“۔ یعنی پڑھ پوری آیت یوں ہے ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ“۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے مجھے ﷺ معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسری حدیث کا مفہوم ہے میں ﷺ علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ اللہ اپنے سب سے پیارے محبوب ترین رسولﷺ اور آخری نبیﷺ سے کلام کر رہا ہے اور پہلا ہی لفظ ہے ”اقرا“۔
نبی کریمﷺ کی محبوب دُعاؤں میں سے ایک دعا ہے ”رب زدنی علما“۔ جس ہستیﷺ کو معلم بنا کر بھیجا گیا جو خودﷺ شہرعلم ہے وہ رہبر کاملﷺ، انسان کاملﷺ، محسن انسانیتﷺ، خیر البشرﷺ، ہادئی برحقﷺ بے مثال لازوال ہستیﷺ دعا گو ہے مولا میرے علم میں اضافہ فرما۔ وہ ذات اعلیٰﷺ جس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا وہ نبئﷺ برحق وجہ تلیخق کائناتﷺ فخر عرب وعجمﷺ فخر آدم و بنی آدم اللہ سے علم میں اضافہ کی دعائیں کرتا ہے۔ تو بس سمجھ لو علم کی اہمیت کیا ہے۔
علم وہ شاہ کلید ہے جس آگے کوئی عقد لا ینحل، لا ینحل نہیں رہتا۔ علم وہ اسم اعظم ہے جس نے اس کو دہرایا با مراد ہوا۔ مسلمان قوم بھی جب تک علم دوست رہی بلا شرکت غیرے دنیا پہ حکمران رہی۔ شرق و غرب میں مسلمانوں کا ڈنکا بجتا رہا۔ سب قیصر وکسریٰ ان کے آگے خاک ہوئے بلکہ نہاں گرد ہوئے۔ کامیابیاں علم کی بائی پراڈکٹ ہیں۔ جب مسلمانوں میں علم کی شمع روشن رہی تو مدرسوں سے قلندرانہ شان و درویشانہ طریق لے کر وہ ہستیاں اٹھیں جنہوں نے زمانے کا رخ بدل دیا۔
امام جعفر صادق، امام اعظم ابو حنیفہ، ابن خلدون، امام غزالی، جابر بن حیان، الفارابی، یعقوب الکندی، ابن سینا، الخوارزمی، ابن الہیثم، طبری، الرازی، الزہراوی، البیرونی، عمر خیام، نصیر الدین طوسی، ابن خلدون۔ جیسا کے پہلے گوش گزار کیا ہے کامیابیاں علم کی بائی پراڈکٹ ہیں۔ جب میدان علم میں مندرجہ بالا ہیرے رونق افروز تھے تب میدان ضرب و حرب میں بھی وہ لوگ ابھرے جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ خالید بن ولید، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، سلطان محمد فاتح، عمر بن عبد العزیز، یوسف بن تاشفین، موسیٰ بن نصیر، محمود غزنوی ظہیرالدین بابر۔
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں دنیا میں جس بھی قوم نے ترقی کی ہے علم کے سر پر کی۔ آج ہندوستان ہم سے اس لیے بھی آگے کہ ان کی شرح خواندگی اور نظام تعلیم ہم سے بہت بہتر ہے۔ اور جس ملک و قوم نے علم سے منہ موڑا پھر زمانے نے اس کو آگے لگا لیا سلطنت روم جیسی بے بدل سلطنت کے زوال کی وجہ تعلیم غلاموں کو سپردگی اور علمی انحطاظ ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی تعلیمی قابلیت کا بانیان پاکستان سے موازنہ کور نظری بلکہ بدذوقی ہوگی کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔
قائد اعظم و علامہ اقبال کی تو بات ہی کیا۔ سردار عبدالرب نشتر، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، قائد ملت لیاقت علی خان، مولانا ظفر علی خان۔ وہ ایسے صاحب علم و دانش تھے کے وہ تاج برطانیہ جس کا کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ان کے آگے ان کے آفتاب و مہتاب گہنا گئے۔ اور عصر حاضر کے حکمران۔ موجودہ مقتدر ٹولے کے سرخیل وسیم اکرم پلس۔
پنجاب کی تعلیمی قابلیت و شرح خواندگی تسلی بخش ہرگز نہیں لیکن باقی صوبوں سے بہت بہتر ضرور ہے۔ بس یوں سمجھو اندھوں میں کانا راج۔ کوئی دن جاتا ہے پنجاب کی ایک سڑک کا بجٹ 260 ارب تھا جبکہ تعلیمی بجٹ 40 ارب۔ جب سکولوں کی بجائے سڑک پہ سرمایہ کاری ہوگی تو سڑک چھاپ ہی پیدا ہوں گے۔ تعلیم اور نظام تعلیم ضخیم موضوع ہے ایک نشست میں اس کا سمیٹنا کار محال جانیے۔ اس موضوع پر کسی اور نشست میں بات ہوگی بشرط زندگی و توفیق۔
چینی دانشور کنفیوشش کا ایک قول ہے ”اگر آپ کا ایک سال کا منصوبہ ہے تو چاول اگائیں۔ اگر دس سال کا منصوبہ ہے تو درخت لگائیں اور اگر سوسالہ منصوبہ ہے تو بچوں کو تعلیم دیں“۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔