بچپن میں مجھے اسکول کے بیت الخلاء سے بہت چڑ ہوتی تھی۔ میں اپنے اسکول میں بہ مشکل 10 یا 12 بار ہی بیت الخلاء گیا ہوں گا۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں صرف ان جگہوں کی غلاظت تھی۔ وہ بیت الخلاء انسانی حسیات اور جمالیات کے لئے ایک بڑا ناگوار تجربہ ہوتے مگر انسان تو آخر مجبور ہے۔ اس کو اگر جینا ہے تو ان برے تجربات کی عادت ڈالنی ہی پڑتی ہے۔
بیت الخلاء واقعی انسان کا بڑا اہم مسئلہ ہے۔ یہ اسٹیٹس سمبل بھی ہے۔ ترکی میں ازمر کے قریب واقع دو ڈھائی ہزار سال قدیم ایفیوسس کے کھنڈرات میں جدید ٹوائلٹ سے مشابہ دور قدیم کے چند ٹوائلٹ موجود ہیں جو عوامی تھے اور شہر کے رؤسا کے لیے مخصوص تھے۔ دور قدم کے حمام بھی رئیسوں کے لئے مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اکشے کمار کی فلم ”ٹوائلٹ“ میں تو ان کی طلاق ٹوائلٹ نہ ہونے پر ہونے کو تھی۔ یادش بخیر اس فلم کی توصیف میں تو نیو یارک ٹائمز میں بڑے لمبے چوڑے مضامین شائع ہوئے تھے کہ ”بدتہذیب“ تیسری دنیا کے لوگ بھی اب جینے کا سلیقہ سیکھتے جا رہے ہیں۔
خیر گھر کے بیت الخلاء تو ایک علیحدہ معاملہ ہیں مگر عوامی بیت الخلاء میں ایک چیز بڑی دلچسپ ہوتی ہے، اس کی دیوارں پر ہوئی تحریریں اور تصاویر۔ یہ تحریریں انسانی نفسیاتی مطالعے میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان تحریروں میں چند مستقل موضوعات پائے جاتے ہیں۔ سب سے اہم موضوع ہے جنسیات۔ لوگوں کو جنسی دعوت کے ساتھ فون نمبر درج ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ نمبر دل جلے عاشقوں نے اپنی سنگ دل محبوباؤں کو سبق سکھانے کے لئے درج کیے ہوتے ہیں، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے تو کم نہ ہو گا۔
بعض افراد خود اپنا ذاتی اشتہار یوں درج کرتے ہیں۔ پھر دوسرا مستقل موضوع ہے کسی کو گالی بکنا۔ آپ کو بیت الخلاء کی دیواروں پر لوگوں کے لئے، گروہوں کے لئے کفر کے فتوے لکھے ملیں گے اور دیگر مذاہب یا مسالک کی مقدس ہستیوں کے لئے دشنام ان دیواروں پر تحریر ملیں گی۔ اسی طرح لسانی اور قومی نفرتیں بھی دوسرے گروہوں کو گالی بک کر ان دیواروں پر نکالی جاتی ہیں۔ بعض لوگ جنسی اظہار اور گالی بازی کے خلاف کچھ اخلاقی نصیحتیں بھی جواب میں لکھ دیتے ہیں۔ جیسے ایک مرتبہ ایک عوامی بیت الخلاء کی دیواروں پر میں نے یہ نصیحت ایک گالی بھرے جملے کے نیچے لکھی دیکھی تھی کہ ”جس نے بھی یہ گالی لکھی، جب تک یہ گالی پڑھی جائے گی، وہ گناہ گار ہو گا۔ “ تیسرا اہم موضوع یہی نصیحتیں ہیں۔
خیر اوپر موجود تینوں ہی موضوعات (یعنی جنسی اشتہار، گالی، نصیحت) نثر یا بعض اوقات نظم کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں مگر ہمارے مصور بیت الخلاء کی دیواروں پر اپنے فن کا اظہار نہ فرمائیں تو عوامی بیت الخلاء کا جمالیاتی تجربہ مکمل کیسے ہو؟ اس لئے یہ افراد پنسل، قلم یا کسی چابی سے دیوار کھود کھود کر اپنے عظیم ٹیلنٹ کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔ یہ تصاویر عموماً جنسیات کی گائیڈ بک کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ فن پارے ہر بیت الخلاء میں ہی کسی آرٹ گیلری کی طرح بکھرے ملتے ہیں۔
اگر سنجیدگی سے انسانی نفسیات کے اس مظہر پر تحقیق کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بیت الخلاء کی دیواریں ان ناگوار تحریروں اور تصاویر سے رنگین اس لئے ہی ہوتی ہیں کیونکہ عام سماجی زندگی میں لوگ اپنی فطرت کے ان زاویوں کو دنیا سے چھپاتے ہیں۔ ان کی ذات کے یہ رخ بھی اپنے اظہار کے راستے تلاش کرتے ہیں مگر سماجی ضابطے اور اصول ان کو اس سے روک دیتے ہیں تو جب وہ اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھ کر ان چیزوں کا اظہار کر سکیں تو وہ فوراً ان موقعوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ سب لکھنے والے لوگ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ان کی شناخت کسی کو معلوم ہو۔ یہ ان کی ایک خفیہ زندگی ہے جس کو کہ وہ خود جانتے ہیں اور دوسروں سے راز رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یوں بیت الخلاء کی دیوار پر لکھے جملے کی طرح کسی کو جنسی دعوت دینے کی جرات نہیں رکھتے نہ ہی ان میں کسی فرد، مذہب یا گروہ کو کھل کر گالی بکنے کی جرات ہوتی ہے۔ نہ ہی وہ اپنے آرٹ کو ہی دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
سماجی میڈیا کا بھی ایک بہت بڑا حصہ بیت الخلاء کی دیوار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ لوگ نام بدل بدل کر، شناخت چھپا کر اپنے سے مختلف مذاہب، مسالک، لسانی اور قومی گروہوں کو گالیوں بکتے ہیں۔ لوگ اپنی شناخت کو چھپا کر ایک خفیہ سماجی میڈیا کی جنسی زندگی جیتے ہیں۔ ہر وہ کام جو اپنی شناخت کے اظہار کے ساتھ کرنا ناممکن ہو وہ باآسانی سماجی میڈیا پر شناخت چھپا کر ہوتا ہے اور یوں سماجی میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ دراصل بیت الخلاء کی دیوار ہی تو بن گیا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو عام سماجی حالات میں گزاری نہیں جا سکتی۔ یہ وہ ناآسودہ جذبات ہیں جو عام حالات میں پورے نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ ہزاروں خواہشیں ہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ان سماجی میڈیا کے خفیہ زندگی جینے والوں کے سامنے وہ بیت الخلاء کے فنکار تو دودھ پیتے بچے ہیں۔ یہاں تو وہ وہ چھپے رستم موجود ہیں جن کا تو تخمینہ لگانا ہی بڑا مشکل ہے۔
سماجی میڈیا کے خالقین اس کو انسانی آزادیوں کی کوئی روشن مشعل کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر اپنی شناخت چھپانے کی آزادی اگر بیت الخلاء سے ہزار گنا زیادہ سماجی میڈیا دے اور ممکنہ ناظرین بھی سماجی میڈیا کے موازنے میں ہزار گنا زیادہ ہوں اور دنیا میں شناخت چھپانا اور گفتگو بھی ممکن ہو تو ظاہر ہے کہ یہ آزادی دراصل سماجی اصول و ضوابط اور بنیادی انسانی جمالیات سے بے حد فروتر اظہار جنم دیتی ہے۔ انسان کے خام جذبات اگر اپنی اصل صورت میں ہی ظاہر ہوں تو وہ کوئی بہت حسین نظارہ نہیں ہوتے۔
سماجی بندشوں سے انسان کے جذبات اور جبلتیں بہتر اور اعلیٰ اظہار کی اہلیت پاتی ہیں۔ فرائیڈ اس کو sublimation قرار دیتا ہے اور اس کے نظریے کے مطابق انسان کی تمام تہذیب اور اس کے سارے ہی مظاہر دراصل انسان کی موت کی جبلت اور زندگی کی جبلت (یعنی جنسی جبلت) کو سماجی طور پر قابل قبول شکلوں میں ڈھالنے سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ فرائیڈ کے نزدیک اس روز انسان نے بہت بڑی تہذیبی جست لگائی تھی جب اس نے پہلی بار غصے میں پتھر مارنے کے بجائے گالی بکی تھی۔
فرائیڈ کی بات کو مزید آگے بڑھائیے تو کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے اس روز بڑی تہذیبی جست لگائی تھی جب گالی بکنے کے بجائے طنز کیا تھا۔ جب جانور کی طرح اپنی مخالف جنس پر جھپٹنے کے بجائے اسے آنکھ ماری تھی۔ تہذہب کا جمال لطیف اظہار سے ہی جنم لیتا ہے اور لطیف اظہار پیدا ہی اس قدغن سے ہوتا ہے جسے عرف عام میں سماجی ضابطے اور اصول کہا جاتا ہے اور جسے توڑنے کے لئے بیت الخلاء کی چار دیواری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ٹیکنالوجی کی کرامات سارے ہی سماج کو بیت الخلاء کی دیوار بنا دیں گی تو انسان کی لطیف اظہار کی اہلیت ہی اس سے چھن جائے گی۔ پھر انسان گالی تو بک سکے گا مگر طنز نہیں کر سکے گا، پھر انسان برہنہ تصاویر تو لگا سکے گا مگر محبوب کے فراق میں شعر نہیں کہہ سکے گا، رباعی، غزل اور نظم نہیں کہہ سکے گا۔ پورا سماج ہی ناگوار بیت الخلاء کی دیوار میں تبدیل ہو جائے گا اور آپ اس دیوار پر لکھی تحریریں کسی چونے سے چھپا نہیں سکیں گے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔