جس بات کو ہمارا دماغ نہ جانتا ہو، اس بات کو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ جن لوگوں نے میڈیکل کالج میں ریڈیالوجی کی کلاس لی ہوئی ہے یا میرج آف آرنلفینی کی مشہور پینٹنگ دیکھ رکھی ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں پیتھالوجی ایکس رے یا سی ٹی اسکین یا ایم آر آئی میں تبھی دکھائی دے گی جب ہم اسے سیکھ لیں گے۔ پینٹنگ بھی آپ خود دیکھیں اور سیکھیں کہ اس کو کیسے دیکھنا ہے۔ یعنی سامنے ہوتے ہوئے بھی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ کچھ دماغی یا جسمانی باتیں ایسی ہیں جو انتہائی کم افراد کو لاحق ہیں اور جب تک دنیا کی آبادی اتنی نہیں بڑھ گئی تھی اور وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو نہیں جانتے تھے وہ خود بھی یہی یقین کرتے تھے کہ یقیناً باقی دنیا ہی صحیح ہے اور وہ خود غلط ہیں۔
ہم سب کے فیس بک پیج پر ایک صاحب نے جینڈر ڈسفوریا کے مریضوں سے ہمدردی کے بجائے ان کو شائزوفرینیا کے مریض سے تشبیہ دی۔ ٹرانس جینڈر اور شائزوفرینیا دو مختلف حالتیں ہیں۔ جس طرح شائزوفرینیا کے مریض کو دوا دے کر اس کی دماغی حالت کا علاج کر کے ہم اس کی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا فعال رکن بن جائے بالکل اسی طرح جینڈر ڈسفوریا کے مریضوں کا علاج یہی ہے کہ ان کی جنس تبدیل کر دی جائے تاکہ وہ بھی ڈپریشن اور بے چینی کا شکار بن کر خود کشی کرنے پر مجبور نہ ہوں بلکہ ایک مہذب معاشرے کا رکن بن سکیں۔ ٹرانس جینڈر افراد امریکہ میں ڈینٹسٹ ہیں، فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، کالج میں پڑھاتے ہیں، بس چلاتے ہیں، پوسٹل ورکر ہیں۔ سوچئے کہ یہ سارے معاشرے سے باہر پھینکے ہوئے لوگ نہیں بلکہ امریکہ کو طاقتور بنانے میں حصہ دار ہیں۔ جو انسانی معاشرہ اپنے اراکین کو برابر کا انسان سمجھے گا، ان کی حفاظت کرے گا اور ان کو ترقی کے مواقع دے گا، وہی دنیا میں آگے بڑھے گا۔
ٹرانس جینڈر کیا ہے؟ ٹرانس جینڈر وہ افراد ہیں جو بالکل نارمل میل یا فیمیل پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کی پہلی دہائی میں ہر انسان میں جنس کی شناخت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ٹرانس جینڈر افراد زندگی کی پہلی دہائی میں ہی سمجھ جاتے ہیں کہ وہ غلط جسم میں ہیں۔ آج تک تقریباً تمام ٹرانس جینڈر افراد نے یہی ہسٹری دی ہے۔ یعنی بالکل الگ، دور پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لوگ بالکل ایک ہی الفاظ اور احساسات کے ساتھ اپنی کہانی بیان کرتے ہیں۔ سوچئے کہ مائگرین سر کا درد، گردے میں پتھری یا معدے میں تیزابیت کے مریض بھی خاص علامات بتاتے ہیں جن کی مدد سے ان کی تشخیص کی جاتی ہے۔ چاہے ہمیں خود سر میں درد ہو یا نہ ہو، ان کی بات پر اعتبار کر کے ہی دوا دیں گے یا مزید ٹیسٹ کریں گے۔
وہ لوگ انتہائی غلطی کر رہے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ دنیا کو دیکھ رہے ہیں ویسے ہی ساری دنیا بھی دیکھے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اب کسی ڈپلوپیا کے مریض کو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں تو ایک ہی کرسی نظر آرہی ہے آپ کو دو کیسے نظر آرہی ہیں، یقیناً آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ جب آنکھ اور دماغ کی فزیالوجی اور پیتھالوجی سمجھیں گے تو خود ہی پتا چل جائے گا کہ دو کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ یا خود کو آگے چل کر یہی بیماری ہوجائے گی تو ہی سمجھ میں آئے گا کہ وہ بے چارے کیا کہہ رہے تھے۔ جو لوگ ریت میں سر دبا کر رکھتے ہیں اور اپنی معلومات میں اضافہ نہیں کرتے وہ ایسی ہی باتیں کرتے رہیں گے، اسی لئے تعلیم اور شعور بڑھانا ضروری ہے۔
اوکلاہوما میں بوڑھے اینڈوکرنالوجسٹ ریٹائر ہونا شروع ہوئے تو ایسے مریض جو ان کو کافی سالوں سے دیکھ رہے تھے نئے ڈاکٹر تلاش کرنے لگے۔ ان مریضوں کا ڈاکٹر کے آفس میں علاج کیوں کیا جائے؟ صاف ستھرے کلینک اور لیبارٹری میں ٹرانس جینڈر مریضوں کا علاج کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اس طرح وہ معیاری دوائیں لے سکتے ہیں اور چیک اپ کروانے سے اس بات پر نظر رکھی جاسکتی ہے کہ ہارمون نارمل دائرے میں رہیں اور ان کے جسم کو ان دواؤں سے نقصان پہنچے تو بروقت معلوم کیا جاسکے۔ جن ٹرانس جینڈر افراد کی ڈاکٹر تک رسائی نہیں ہوتی وہ سڑک یا پھر انٹرنیٹ سے دوائیں خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔
جہاں تک پہلے سے جنس تبدیل کئے افراد کا سوال تھا ان کی کئیر پک اپ کرنے میں کچھ خاص مشکل نہیں ہوئی۔ یہ لوگ زیادہ عمر کے تھے، کئی کی سرجریاں بھی ہوچکی تھیں اور وہ معاشرے میں سیٹ تھے۔ ان مریضوں کا سال میں ایک یا دو مرتبہ خون کے ٹیسٹ کرکے ہارمون کی پرسکرپشن لکھنی ہوتی تھی اور بس۔ ایک بڑا ایتھیکل سوال میرے سامنے اس وقت کھڑا ہوا جب ایک 18 سال کی میل ٹو فیمیل ٹرانس جینڈر اپنا علاج شروع کرانے آئی۔ بائیولوجیکلی بالکل ایک نارمل لڑکا اور کہتی ہے کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ اس کیس پر کافی سوچ بچار کرنی پڑی، وہ اس کی کم عمری کی وجہ سے۔ میرے ذہن میں جو سوال کھڑے ہوئے ان میں کچھ یہ ہیں۔ کیا اس کو اندازہ ہے کہ یہ ایک انسان کی تمام زندگی بدل دینے والا فیصلہ ہے، کیا معلوم کچھ سال میں اس کو افسوس ہو۔ اس فیصلے کے اس فرد پر، اس کے خاندان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کے بچے ہونے کا چانس کم ہوجائے گا، اس کی تعلیم، سیکیورٹی، ملازمت ہر چیز متاثر ہوگی۔ ٹرانس جینڈر افراد کے علاج سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ انتہائی ذہین افراد ہیں، اپنے بارے میں اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں وہ دیگر افراد سے بہت بہتر جانتے ہیں۔ اس 18 سالہ ٹرانس جینڈر سے میں نے کہا کہ تمہیں انفرٹیلٹی ہو سکتی ہے تو کہتی ہے کہ آپ اس کی فکر نہ کریں میں نے اپنے اسپرم فریز کروا لئے ہیں۔ آگے چل کر کبھی مجھے بچے چاہئے ہوں تو وہ کام آئیں گے۔ ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ جینڈر ڈسفوریا کے مریض جو خود کو غلط جسم میں سمجھتے ہیں، ان میں جنس تبدیل کروانے کے بعد خود کشی کی شرح کم ہوجاتی ہے۔
کچھ ٹرانس جینڈر ہیں جن کے باپ دادا بھی ٹرانس جینڈر تھے جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شائد یہ حالت جینز سے منتقل ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ایسے بھی مریض دیکھے کہ سو فیصد ہو بہو جڑواں ہیں اور ایک ٹرانس جینڈر ہے جبکہ دوسری نہیں۔ ماحولیات کا اثر کس طرح ثابت کریں گے جبکہ وہ ایک ہی گھر میں اور ایک ہی ماحول میں بڑی ہوئیں۔ اس موضوع پر مزید ریسرچ جاری ہے۔ اب بھی کئی سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک نہیں ملے ہیں۔
دنیا ایک حیرت کدہ ہے۔ ہم سب انسان انفرادی طور پر دنیا کو صرف اپنی آنکھوں سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کے احساسات، جذبات اور مسائل کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا ہے۔ پھر اگر یہ انسان کسی اور وقتوں کے ہوں یا ہمارے ماحول سے کٹے ہوئے ہوں تو پھر ہمیں ان کو سمجھنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ زبان سیکھنے سے، لکھنے اور پڑھنے سے اور کہانیاں، موسیقی اور گیتوں سے انسان ایک دوسرے کے حال کو جاننے لگے، پھر آج کے دور کی ایجاد انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لائق بنے جس کی وجہ سے ایمپتھی یعنی دوسرے انسانوں پر بیتی کو سمجھنے میں مدد ملی۔
اپنی فیلوشپ کے دوران وی اے ہسپتال میںکام کیا جہاں ہم لوگ ہفتے میں دو کلینک کرتے تھے ایک ذیابیطس کا اور دوسرا جنرل اینڈوکرنالوجی کا۔ ایک دن مریض دیکھ رہی تھی تو ایک خاتون آئیں۔ وہ بوڑھی تھیں، نہایت شائستہ، اچھے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، بال سلیقے سے بنے ہوئے اور بغل میں پرس دبایا ہوا تھا۔ جب میں نے ان کا چارٹ کمپیوٹر میں کھول کر دیکھا تو مجھے یہ پڑھ کر ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ ہمیشہ سے ایک خاتون نہیں تھیں بلکہ انہوں نے بہت سالوں پہلے 18 سال کی عمر میں اپنی جنس مرد سے خاتون کروالی تھی اور اپنی تمام زندگی ایک خاتون کی طرح گذاری۔ اگر ان کو سڑک پر دیکھا ہوتا تو میں ان کے بارے میں یہ بات ہرگز نہیں جان پاتی۔ اپنی حیرت کو ان پر ظاہر ہونے نہیں دیا اور پروفیشنل طریقے سے ہی ان کی ہسٹری لی، ایگزام کیا اور دوا کا ری فل ان کو دیا۔ یہ پہلا واقعہ تھا جب ایسے کسی انسان کو کتابوں سے باہر دیکھا ہو۔
ان خاتون کے لئے اپنے دل میں نہ ہی نفرت محسوس کی اور نہ ہی ان پر کسی طرح کا تشدد کرنے کے لئے سوچا اور نہ ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں خود کسی بھی لحاظ سے ان سے بہتر انسان ہوں۔ یہ کون لوگ ہیں جو انسانوں کو دو سادہ سے ڈبوں میں ڈال کر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ ان کو پتھر مار کر خود کو طاقتور محسوس کرتے ہیں، یا پھر ان معصوم لوگوں کا مذاق بنا کر تفریح لیتے ہیں۔ یا پھر اور کچھ نہ کرسکیں گے تو موٹی موٹی پرانی کتابیں ان پر پھینک کر ان کو خود سے کم ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں پر غلطی پر کون ہے وہ تو صاف پتا چل رہا ہے۔ کون کس سے شادی کر لے اور کیسے اپنے گھر میں رہ رہا ہو اس بات کی فکر تو یقیناً ایسے لوگ ہی کریں گے جو شاید اپنی زندگی میں خوش نہیں اور دنیا کے باقی انسانوں کا چین، سکون اور خوشیاں چھین لینا چاہتے ہوں۔ ایسا کر کے وہ اپنے پیر پر ہی کلہاڑی ماریں گے، کیونکہ ٹوٹے ہوئے افراد مل کر کبھی ایک طاقتور اور صحت مند معاشرہ نہیں بنا سکیں گے۔
ایک دن ایک ینگ نرس آئی جس کے تھائرائڈ میں پرابلم تھی۔ جب میں نے اس کو بلایا تو اس کی شکل دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ اپنی ہنسی روک نہیں پارہی تھی۔ وہ ویٹنگ ایریا میں ایک ایسے صاحب کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی جو ٹرانس جینڈر تھے۔ کہنے لگی کہ مجھے اس سے زیادہ تہذیب یافتہ ہونا چاہئے لیکن میں اس لمبے چوڑے آدمی کو خواتین کے کپڑے پہنے دیکھ کر اپنی ہنسی نہیں روک پا رہی ہوں۔ ان صاحب کو کلینک میں سبھی جانتے تھے، انہوں نے جنگیں لڑی تھیں، کئی ناکام شادیاں بھی کیں، بچے بھی پیدا کئے، ہر وہ کام کیا جس سے وہ اپنے آپ کو نارمل محسوس کرسکیں لیکن ادھیڑ عمر ہونے کے بعد، کئی طلاقوں اور خود کشی کی کوشش کے بعد انہوں نے اس بات کو ذہنی اور معاشرتی طور پر مکمل طور پر قبول کرلیا تھا کہ وہ اصل میں ایک خاتون ہیں۔ اور وہ اب ایسے ہی رہتے تھے۔
سوچئے! سوچنے کی بات ہے کہ ہم سب دنیا کے زیادہ تر لوگ جہاں بھی جائیں یہی چاہتے ہیں کہ ہماری طرف کسی کی توجہ نہ ہو، ہم جتنا ہوسکے کسی بھی ماحول میں رہیں تو ویسے ہی نارمل دکھائی دیں۔ ہر کوئی فٹ ہونا چاہتا ہے۔ آخر ان ٹرانس جینڈر لوگوںکی کیا پرابلم ہے؟ امریکہ میں ٹرانس جینڈر افراد پر ہوئے سروے کے مطابق ان میں سے 41 فیصد خود کشی کی کوشش کرچکے ہیں، ان کو صحت کے اداروں میں مناسب طریقے سے ٹریٹ نہیں کیا جاتا، نوکری ملنا بھی ان کے لئے مشکل ہوتا ہے اور باقی نارمل افراد کے مقابلے میں ان میں غربت کی شرح زیادہ ہے۔ اگر ان کو جیل میں ڈالا جائے یا بے گھر افراد کے شیلٹر میں تو وہاں یا تو ان کو قتل کردیا جاتا ہے یا ریپ ہوتے ہیں۔ کون سا اس دنیا میں شخص ہوگا جو جانتے بوجھتے یہ زندگی اپنے لئے چنے گا۔
ایک صاحب نے کہا کہ اگر کوئی اپنے آپ کو بانس سمجھ رہا ہے تو کیا ہمیں بھی اس کو بانس سمجھنا چاہئے؟ تو سوچئے کہ کوئی اپنے آپ کو جو بھی سمجھ رہا ہو جب تک اس سے اس انسان کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی تکلیف لاحق نہیں ہوتی تو اس میں ہماری جیب سے کیا جاتا ہے؟ خاص طور پر اگر کوئی آدمی کہہ رہا ہو کہ میں ایک بانس ہوں تو ہمیں اس پر ہنسنے کے بجائے یہ کہنا چاہئے کہ ٹھیک ہے ہمیں تو آپ بانس نطر نہیں آرہے لیکن ہمارے بانس کہنے سے آپ کی زندگی بہتر ہوجائے گی تو ٹھیک ہے آپ کو بانس ہی کہیں گے۔
کتوں کو بھی مہذب دنیا سدھا کر اپنے نظام کا کارآمد حصہ بنا رہی ہے۔ ایک خاتون کا کتا ان کو سوتے میں شوگر کم ہوجانے پر جگا دیتا ہے۔ اور یہاں یہ 24 سالہ جوان ایچ آئی وی سے شکار! نہایت افسوس کی بات ہے۔ اس معاشرے میں انسان کی یہ قدر کہ اس کو لاتیں، گالیاں، بیماریاں اور لعنتیں دے کر اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے۔ اگر ہماری قوم ایسے ہی کام کرتی رہی تو ہمیں دنیا میں وہی جگہ ملے گی جو آج ملی ہوئی ہے۔
دو ہفتہ پہلے ایک مریض کو دیکھا جو باہر سے ایک نارمل سفید فام آدمی ہیں۔ یہ آخر کار اپنی جنس تبدیل کروا رہی ہیں۔ کہنے لگیں میں نے اس بات کو ساری زندگی دبایا لیکن اب آکر میں مزید نہیں چل سکتی ہوں۔ آج میرے سامنے دو ہی راستے ہیں، یا تو خود کشی کر لوں یا باقی زندگی کے دن ویسی ہی بن کر گذاروں جیسی میں اندر سے خود کو محسوس کرتی ہوں۔ کہنے لگیں کہ ٹرانس جینڈر ہونا اور دہری زندگی گذارنا ایسی باتیں نہیں جن کے ساتھ جیا جا سکے۔ ان کی بیوی بھی سائکالوجسٹ ہے اور ایک بیٹی بھی۔ پڑھی لکھی فیملی ان کو سپورٹ کر رہی ہے کہ جس بات میں آپ کی خوشی اور زندگی ہو، ہم اس میں آپ کے ساتھ ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ معلوم نہیں دنیا میں کتنے خود کشی کے کیس ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ کسی کو بتائے بغیر دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کوئی نہیں سمجھے گا۔ تمام انسان برابر ہیں۔ اگر ہم دوسرے انسانوں کے مسائل سمجھ نہیں سکتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن ان کے مسائل میں اضافہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ کیا ضرورت ہے کہ بلاوجہ ان ٹرانس جینڈر افراد پر آپ ہنسیں، ان پر تشدد کریں، بلاوجہ ان کو ستائیں۔ اگر کسی کا بچہ آ کر بولے کہ میں غلط جسم میں ہوں تو اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو دہری اور جعلی زندگی گذارنے پر مجبور کرنا غلط ہے۔ ناخوش لوگ مل کر ایک خوش معاشرہ کبھی بھی نہیں بنا سکتے ہیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔