دنیا بھر میں شادی ایک ایسا موضوع ہے جس میں ہر کسی کی دلچسپی نظر آتی ہے، لیکن کچھ ممالک میں بعض خواتین کے لیے یہ دن خوشی کی بجائے صدمے کا باعث ثابت ہوا ہے اور شادی کی رات ایسی خوفناک کہ جسے وہ چاہیں بھی تو بھلا نہ سکیں۔
دیگر مسلمان ممالک کی طرح عرب دنیا میں بھی خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی کے وقت کنواری ہوں۔
بی بی سی عربی نے مختلف معاشرتی پس منظر کی حامل کئی خواتین سے ان کی شادی شدہ زندگی پر پہلی رات کے حوالے سے بات کی اور خاص طور پر پوچھا کہ سیکس ایجوکیشن کی کمی سے ان کی شادی کیسے متاثر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے:
یہاں ہم ان خواتین کے تجربات کی کچھ جھلکیاں پیش کر رہے ہیں جن کی زندگی شادی کے دن کے بعد کس طرح تلپٹ ہو کر رہ گئی۔
سمیّہ، عمر 22 برس
سمیّہ کو اپنے خاندان سے ایک بڑی لڑائی لڑنا پڑی کیونکہ انھوں نے ابراہیم سے سمیّہ کی شادی کرانے سے صاف انکار کر دیا تھا، جبکہ سمیّہ کو ابراہیم سے بہت محبت تھی اور وہ سمجھتی تھیں کہ ابراہیم کسی بھی لڑکی کے لیے ایک مثالی شوہر ثابت ہو سکتے تھے۔
لیکن سمیّہ کو اس بات کی دور دور تک خبر نہیں تھی کہ جب ان کا خواب پورا ہوگا تو انھیں اتنا شدید دھچکہ پہنچے گا جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔
وہ شادی کی پہلی رات تھی، جب اس شک کی وجہ سے کہ سمیّہ ’کنورای‘ نہیں ہے، ابراہیم کی ساری محبت جاتی رہی۔
اس وقت سمیّہ کی عمر 23 سال تھی اور وہ شام میں دمشق یونیورسٹی سے عربی ادب میں ڈگری مکمل کرنے کے قریب تھیں۔ لیکن سمیّہ کے ذہن پر ابراہیم سوار تھے، جنھوں نے سمیّہ سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ ان کی تعلیم مکمل کرنے میں کسی قسم کی رکارٹ نہیں ڈالیں گے۔
گھر والوں کے واضح انکار اور اس اعتراض کے باوجود کہ ابراہیم کے پاس ابھی تک اپنا کوئی گھر نہیں ہے، سمیّہ اپنی ضد پر اڑی رہیں۔
اور ابراہیم کی محبت اور بھرپور مدد کے وعدے پر مکمل یقین کرتے ہوئے سمیّہ نے شادی کر لی۔ اس کے لیے انھوں نے نہ صرف پورے خاندان کی مخالفت مول لی، بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ ابراہیم کی والدہ کے ساتھ رہیں گی کیونکہ وہ ان کی اتنی ہی عزت کرتی ہیں جتنی اپنی ماں کی۔
لیکن شادی کی رات سمیّہ کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب ابراہیم نے انھیں ’سانس بحال کرنے کا وقت بھی نہیں دیا اور پردہ بکارت توڑنے کی کوشش میں مگن ہو گئے۔ ابراہیم کہہ رہا تھا کہ محبت کا تقاضا یہی تھا کہ وہ یہ مرحلہ جتنی جلدی ہو پورا کر لیں۔‘
’ شدید تھکن کے باوجود میں اس سے تعاون کر رہی تھی۔‘
’سارا رومانس کافورہو گیا‘
سمیّہ کے بقول اس رات انھیں ایسے لگا جیسے ایک لمحے میں ’رومانس کا نشان بھی نہیں بچا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔‘ سمیہ کہتی ہیں کہ جیسے ہی ابراہیم نے یہ کہا کہ ’خون کا کوئی نشان نہیں ہے‘ تو انھیں معلوم ہو گیا کہ ابراہیم کو شک ہو گیا ہے کہ وہ کنواری نہیں ہیں۔
اگرچہ پردہ بکارت ٹوٹنے پر زیادہ ترخواتین کا خون نکلتا ہے، اور خون کی مقدار کم زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن ڈاکٹروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام خواتین کے خون نکلے۔
ضروری نہیں کہ ہرخاتون کا پردۂ بکارت ایک جیسا ہو۔ کچھ خواتین کے پردۂ بکارت تک رسائی صرف آپریشن کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے، کچھ خواتین کے معاملے میں یہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ خون نکلے بغیر ٹوٹ جاتا ہے، اور کچھ لڑکیوں کی پیدائش کے وقت یہ ہوتا ہی نہیں یا بچپن میں چوٹ لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔
اپنے شوہر کے رد عمل کو یاد کرتے ہوئے سمیّہ کہتی ہیں کہ ’وہ جس طرح مجھے گھور رہا تھا، مجھے لگا کہ اس نے میرے سینے میں خنجر گاڑ دیے ہیں۔ اس نے بغیر جانے ہی، مجھے مار دیا۔‘
’اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ میں نے خود کو ٹھکرایا ہوا محسوس کیا، اور مجھے ایسے لگا جیسے میں ایک ملزم ہوں جو بس فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ شادی سے پہلے ہم بہت ساری چیزوں کے بارے میں بات کرتے رہتے تھے، حتیٰ کہ اپنی شب عروسی کے بارے میں بھی بات کرتے تھے۔ وہ رات جو ہماری زندگی کی بہترین رات ہونا تھی۔‘
’میرا خیال تھا کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن یہ تمام چیزیں اس وقت یکدم ختم ہو گئیں جب اس کے خیال میں ’کنوار پن کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔‘
’خون آلود چادریں‘
جس معاشرے میں سمیّہ رہتی ہیں، اگرچہ وہاں اس قسم کے واقعات عام ہیں، لیکن سمیّہ کو یہ امید نہیں تھی کہ خود ان کے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ نوجوان مردوں کے رویے بدل چکے ہیں اور ان کے خیالات نانا دادا کی نسل سے مختلف ہو چکے ہیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ چونکہ ابراہیم ایک پڑھا لکھا، کھلے ذہن کا مالک ہے اور اس نے یونیورسٹی سے ڈگری لے رکھی ہے، اس کے خیالات پرانی نسل سے ضرور مختلف ہوں گے۔
لیکن جب شادی کے دوسرے ہی دن ابراہیم نے کہا کہ انھیں اس بات کی تصدیق کرانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے کہ سمیّہ کنواری تھی یا نہیں، تو سمیّہ حیران رہ گئیں۔
لڑکی کنواری ہے یا نہیں، یہ طے کرنے کے لیے کئی معاشروں میں صدیوں پرانی روایات پائی جاتی ہیں، لیکن ہر معاشرے میں اس قسم کے ٹیسٹ کرنے کی وجوہات اور طریقے مختلف ہیں۔
مثلاً زیادہ قدامت پسند خاندانوں میں شادی کی رات کو لڑکی کے کنواری ثابت ہونے پر خاصی دھوم دھام ہوتی ہے۔ ان خاندانوں میں دولھا اور دلہن کے خاندان والوں کو اگلی صبح خون آلود چادریں دکھائی جاتی ہیں، اور بعض اوقات کنوار پن کی ’تصدیق‘ کی خوشی میں خاص تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔
اپنی خواہش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ مثلاً جراحی یا سرجری کے ذریعے پردۂ بکارت کو ’دوبارہ سی دینا‘ اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ چین کے بنے ہوئے مصنوعی پردۂ بکارت بھی دستیاب ہیں۔ یہ دیگر پروستھیٹِکس یا مصنوعی انسانی اعضاء کی طرح ہوتا ہے جو نہ صرف دیکھنے میں اصلی لگتا ہے، بلکہ جب اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو اس میں سے سرخ رنگ کا مائع خارج ہوتا ہے جو خون جیسا لگتا ہے۔
’سیکس کرنا گندا لگا‘
شادی کے دوسرے دن جب سمیّہ نسوانی امراض کی ماہر ڈاکٹر(گائنا کالوجسٹ) سے ملیں تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے پردۂ بکارت کی موٹائی زیادہ ہے اور یہ تب ہی پھٹے گا جب وہ بچے کو جنم دیں گیں۔
یہ سن کر ان کے شوہر نے سکھ کا سانس لیا اور ان کے چپرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ سمیّہ کا ذہن بن چکا تھا اور انھوں نے طے کر لیا تھا کہ جس قدر جلدی ممکن ہوا، وہ ابراہیم سے طلاق لے لیں گی۔
سمیّہ نے طلاق لینے کا فیصلہ تو فوراً کر لیا تھا، لیکن انھوں نے درخواست جمع کرانے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دن کے بعد ’میرا شوہر میرے لیے ایک اجنبی شخص بن گیا تھا۔ میں اس کے بارے میں فکرمند بھی تھی اور میں اس سے بار بار پوچھ رہی تھی کہ لوگ میرے کنورا پن کے بارے میں کیا باتیں کر رہے ہیں۔ میں یہ اندازہ نہیں کر سکتی تھی کہ میرے شوہر کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے۔ اب اس سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی تھی۔ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتی تھی جس نے برسوں کا رشتہ صرف ایک سیکنڈ میں توڑ دیا تھا۔‘
تھوڑا توقف کرنے کے بعد سمیّہ کا کہنا تھا کہ ’سچ پوچھیں تو میں اس رات کے بعد کی اپنی کیفیت کو بیان نہیں کر سکتی اور نہیں بتا سکتی کہ ابراہیم کے بارے میں میرے جذبات کیا تھے۔ لیکن اس نے جس طرح میرے پورے وجود کو ایک بے معنی ممبرین یا جھِلّی کے برابر سمجھ لیا تھا، اس کے بعد ابراہیم کے ساتھ رہنا میرے لیے محال ہو چکا تھا۔ میں نے سوچا، آخر میں بھی ایک انسان ہوں، کوئی جِھلّی تو نہیں۔‘
اس کے بعد سے سمیّہ کی نفسیاتی حالت خراب ہوتی گئی۔ انھوں نے گھر آنے والوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور باہر جانے سے بھی کترانے لگیں۔ انھیں لگا کہ اب وہ ’ایک روایتی خاتون کا کردار ادا کرنے کا ڈھونگ رچا رہی ہیں، ایک ایسی روایتی خاتون کا کردار جو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بالکل کمزور اور بے یار و مددگار دکھائی دیتی ہے۔‘
اگلے تین ماہ کے دوران انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے شوہر کے ساتھ چند مرتبہ ہم بستری کی۔ ’وہ جب بھی ایسا کرتا مجھے گھن آ جاتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے ساتھ سیکس کرے، مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کیونکہ میرا جوش و جذبہ پہلی رات کو ہی مر گیا تھا۔ میں صرف انتظار کرتی تھی کہ وہ اپنا کام نکالے اور مجھے اکیلا چھوڑ دے۔ مجھے اس کے ساتھ سیکس کرنا گندا کام اور ایک دھوکہ لگتا تھا کیونکہ پیار کے اظہار کی بجائے مجھے یہ محض ایک کام لگتا تھا، ایک فرض جو مجھے پورا کرنا تھا۔‘
شادی کی رات کے مشورے
سمیّہ جس معاشرے میں رہتی ہیں وہاں ان کے ساتھ جو ہوا وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ وہاں بند دروازوں کے پیچھے ایسی بے شمار لڑکیاں موجود ہیں جو کسی سے کھل کر بات نہیں کرتیں اور معاشرے کے طعنوں سے بچنے کے لیے باہر جانا بھی چھوڑ دیتی ہیں۔
لیکن کنوارپن کے معاملے پر کھل کر بات نہ کرنے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے خاندانوں اور ان کے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
شادی کی رات کسی خاتون کی نفسیاتی حالت کیا ہوتی ہے اس حوالے سے ماہر نفسیات امل الحامد نے بی بی سی کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ امل ایسے لڑکے لڑکیوں کو مشورے دیتی ہیں جو شادی کرنے جا رہے ہوتے ہیں تاکہ انھیں غیر متوقع مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’چونکہ لوگوں نے اس حوالے سے پہلے ہی کوئی سوچ بنا رکھی ہوتی ہے، اس لیے ہمارے معاشرے میں عام طور پر لوگ نفسیاتی ماہرین سے مشورہ نہیں کرتے۔‘
امل کا خیال ہے کہ شادی سے پہلے کسی ماہر نفسیات سے ملنے سے یہ یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ آپ کی شادی شدہ زندگی کا آغاز خوشی خوشی ہو، اور شادی ایک ایسا سفر ثابت ہو جس کی بنیاد ایک دوسرے سے بات کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے پر ہو۔
’مفید معلومات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے نفسیاتی مشورے حاصل کریں۔ چاہے کوئی چیز کتنی ہی نجی یا مخفی کیوں نہ ہو اس کے بارے میں بات کریں۔ اپنی قربت کے بارے میں بات کریں۔ یہ جانیں کہ پردۂ بکارت کی کیا کیا قِسمیں ہو سکتی ہیں، اور یہ کیسے یقینی بنانا ہے کہ جنسی عمل کے درمیان کچھ ایسا نہ ہو جس کے برے اثرات خاتون کو عمر بھر ستاتے رہیں۔ یعنی شادی کی رات ایک خوشگوار تجربہ ہونا چاہیے نہ کہ ایک درد بھری رات۔'
لیکن امل کے بقول ’بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں سب معلوم ہے کہ ایک نئی نویلی دلہن کی نفسیاتی اور جسمانی کیفیت کیا ہوتی ہے، لیکن ان گنت تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ سچ اس کے برعکس ہے۔‘
’بہت سے کیسز میں اس قسم کے مسائل سے نمٹا ہی نہیں جاتا اور ایسے زخم ناسور بن جاتے ہیں، جس کا واحد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔‘
’عفت کا ثبوت‘
بی بی سی نے 20 مردوں سے پوچھا کہ اگر بیوی کے ساتھ قربت کے پہلے لمحوں میں انھیں اس مسئلے کا سامنا ہو جائے کہ لڑکی کے ’کنواری ہونے کے نشان‘ نہیں ملے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟
یہ مرد 20 سے 45 برس کی عمر کے تھے اور ان میں پروفیسر، ڈاکٹر اور استادوں کے علاوہ وہ تمام افراد شامل تھے جو سمجھتے تھے کہ اس مسئلے کے حوالے سے وہ ’کھلے ذہن‘ کے مالک ہیں۔
ان کا جواب؟
ان میں اکثر نے براہ راست یا بالواسطہ منفی جوابات ہی دیے۔
اکثر مردوں نے ’خون نکلنے کو اس بات کا ثبوت گردانا کہ دلہن عفیفہ اور کنواری‘ تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خون کا خارج ہونا ضروری چیز ہے جس پر ایک ایسی خوشگوار شادی شدہ زندگی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جس میں ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
نہ محبت اور نہ ہی کوئی جذبہ
شادی کے چند ماہ گزر جانے کے بعد سمیّہ نے اپنے شوہر سے کھل کر بات کی اور طلاق کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ان کے بقول انھوں نے ابراہیم کو بتا دیا کہ وہ کسی صورت اپنا فیصلہ واپس نہیں لیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اب اپنے شوہر کے قریب رہتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ وہ انھیں مار دے گا۔ اس کے علاوہ سمیّہ نے شوہر سے کہا کہ پہلی منحوس رات کے تجربے کے بعد ان کے دل میں نہ تو کوئی پیار بچا ہے اور نہ ہی کوئی جذبہ۔
سمیّہ نے اپنے شوہر کو یہ بھی بتایا کہ اُن کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر اس نے پہلی رات کو جس شک کا اظہار کیا تھا اس سے ان کی کس قدر بے عزتی اور تحقیر ہوئی تھی۔
سمیّہ بتاتی ہیں کہ یہ سن کر ’وہ ہکا بکا رہ گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایک مرد ہونے کے ناطے یہ پوچھنا اس کا حق تھا کہ آیا اس کی بیوی کنواری ہے یا کسی کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات رہ چکے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں جب تک زندہ رہتی ہوں، وہ مجھے طلاق نہیں دے گا۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے اپنے ’باغیانہ رویے‘ پر نظرثانی کا مشورہ دیا۔ اس نے کہا کہ اگر میں اپنا فیصلہ نہیں بدلتی تو اس کا نتیجہ ’مایوسی اور پچھتاوے‘ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوگا۔‘
سمیّہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے کے معیار دُہرے ہیں۔ مردوں کے جنسی معرکوں کی تعریف کی جاتی ہے اور انھیں اس پر شاباشی دی جاتی ہے، لیکن جب عورتوں کی بات ہوتی ہے تو انہی باتوں پر عورتوں کو معاشرہ مسترد کر دیتا ہے اور کئی مرتبہ انھیں اس کی سزا موت کی شکل میں دی جاتی ہے۔‘
’میرا سابق شوہر بھی اسی قسم کا مرد تھا، ایک ایسا مرد جو اپنے دوستوں کے سامنے اپنی جنسی تاریخ کی شیخیاں بھگارتا اور اگر میں کوئی ہلکا سا مذاق بھی کر دیتی تو وہ آگ بگولا ہو جاتا۔‘
طلاق کے معاملے پر سمیّہ کے خاندان والوں نے ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے خیال میں سمیّہ ’چھوٹی چھوٹی‘ باتوں کو بڑا مسئلہ بنا رہی تھی۔ اس پر سمیّہ اس سال جون میں یورپ جانے کے لیے شام سے نکل آئیں۔
جُمانہ: عمر 45 برس
سنہ 2016 میں بلجیئم کے شہر برسلز پہنچنے سے پہلے جُمانہ نے زیادہ تر زندگی شام کے شہر حلب میں گزاری تھی جہاں وہ الباب نامی محلے میں رہتی تھیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں طلاق کو حتمی شکل دینے کے لیے 20 سال انتظار کرنا پڑا تھا۔
’جب میں 19 سال کی تھی تو میرے والد نے مییری مرضی کے بغیر میری شادی میرے ایک کزن سے کرا دی۔ مجھے وہ پسند نہیں تھا۔ مجھے پڑھائی بہت اچھی لگتی تھی، لیکن انھوں نے کہہ کہہ کر قائل کر دیا کہ وہ لڑکا میرے لیے بہترین شوہر ثابت ہو گا اور وقت کے ساتھ میں اس کی عادی ہو جاؤں گی۔‘ وہ کہتے تھے کہ’بعد میں پیار بھی ہو جائے گا۔‘
شام کے قدامت پسند اور دیہی علاقوں میں رہنے والے خاندانوں میں یہ معمول کی بات ہے کہ دولھا اور دلہن کے خاندان کے بڑی عمر کے رشتہ دار باہر بیٹھے اس وقت تک انتظار کرتے رہتے ہیں جب تک دلہن کے کنوار پن کا ’معائنہ‘ نہیں ہو جاتا اور اس کی ’تصدیق‘ نہیں ہو جاتی۔
جُمانہ کو اپنی پہلی رات آج بھی اچھی طرح یاد ہے اور وہ درد بھی۔ انھیں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔
’اس نے دروازہ بند کیا اور بولا کہ ہمیں جلدی کرنی چاہیے، خاندان کے بڑے تصدیق ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
’یہ نہایت ہی ناگوار تجربہ تھا۔ میرے شوہر نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، ایک منٹ کے لیے بات نہیں کی، میں ابھی خوف سے کانپ رہی تھی، لیکن اس کے سر پر ایک ہی کام سوار تھا۔‘
’مجھے درد ہو رہا تھا اور میں نفسیاتی طور پر دباؤ میں تھی، لیکن میرے شوہر کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور اس کی واحد فکر یہ تھی کہ خون کا دھبہ کب نظر آئے گا۔‘
احساس ندامت
اس رات جب میرا کوئی خون نہیں نکلا تو رات کی خاموشی اس وقت ٹوٹی جب میرے شوہر نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کر دیا ’کوئی خون نہیں نکلا، کوئی خون نہیں نکلا۔‘
اس کے بعد اس نے ایسی گندی گالیاں دینا شروع کر دی جو میں چاہوں بھی تو دُہرا نہیں سکتی۔ ’اس کی آنکھیں ایسے انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں جو کسی بھی لمحے مجھے جلا سکتے تھے۔‘
جُمانہ بتاتی ہیں کہ تقریباً ایک گھنٹے تک صدمے اور خوف نے انھیں گھیرے رکھا اور ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا۔ ان لوگوں نے صبح ہونے کا انتظار بھی نہیں اور اسی رات جمانہ کو گھسیٹتے ہوئے ایک گائناکالوجسٹ کے پاس تصدیق کرانے لے گئے۔
’مجھے وہ ڈاکٹر صاحب یاد ہیں، وہ مجھے ایسے دلاسا دے رہے تھے جیسے میرے والد ہوں۔ وہ میرے شوہر کو اس کی حرکت پر برا بھلا کہہ رہے تھے۔‘
جمانہ کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہے کیونکہ جمانہ کے خاندان والوں اور ارد گرد کے سارے لوگوں نے اس بات کی حمایت نہیں کی کہ جمانہ شوہر سے الگ ہو جائے، نہ اس رات اور پھر نہ ہی اگلے 20 سال تک۔ جمانہ کے بقول اس تمام عرصے میں ان کا شوہر لوگوں کے سامنے ان کا ’مذاق اڑاتا اور طعنے دیتا رہتا۔‘
تقریباً 20 سال اور چار بچوں کے بعد بھی جمانہ اس بے عزتی کو فراموش نہیں کر پائیں۔
اور پھر وہ جوں ہی اپنے چار بچوں کو لیکر برسلز پہنچ گئیں، انھوں نے اپنی شادی ختم کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کا سابق شوہر سے انتقام تھا اور اس معاشرے سے بھی جس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
جمانہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ برسلز میں خوش ہیں اور ان کا دوبارہ شادی کا ارادہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے وہ تعلیم حاصل کرنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرنا چاہتی ہیں، ’وہ خواہش جو کسی نے پوری نہیں کرنے دی۔‘
چار خواتین کا کہنا ہے کہ شب عروسی کے تلخ تجربات نے ان کے ذہن پر ایسے نقوش چھوڑے ہیں جس کے خوفناک سائے ان کی تمام زندگی پر پھیل گئے۔
وہ کہتی ہیں ’اب میں خوش ہوں کیونکہ میں اپنی دو بیٹیوں کو بھی یہاں لے آئی ہوں۔ میں نے صرف اپنے شوہر کو طلاق نہیں دی، میں نے اس معاشرے کو بھی طلاق دے دی ہے جس نے میرے ساتھ بالکل انصاف نہیں کیا۔‘
پردۂ بکارت کی مرمت
ایک اور خاتون رُزانا نے بھی ہمیں بتایا کہ پانچ سال کے بعد انھوں نے اپنے منگیتر سے رشتہ کیوں توڑ لیا۔
’مجھے اس پر بھروسہ تھا اور میں اسے بہت پیار کرتی تھی۔ ایک سال کی ملاقاتوں میں وہ مجھے بار بار سیکس پر اکساتا رہتا، کیونکہ اگر دیکھا جائے تو میں اس کی بیوی تھی۔ اور آخر ایک دن میں نے اس کے اصرار کے سامنے ہاں کر دی اور ہم نے ہم بستری بھی کی۔‘
لیکن چھ ماہ بعد رُزانا اور ان کے منگیتر کے خاندانوں کے درمیان ایک بڑا جھگڑا ہو گیا اور پھر جب ان کی منگنی ٹوٹی تو ناراضگی مزید پکی ہو گئی۔
’ہمارے معاشرے میں اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی کہ ’کنوار پن‘ کھونے کی کیا سزا ہونی چاہیے۔ شاید موت!
’لیکن میری خوش قسمتی تھی کہ میری ایک سہیلی مدد کے لیے موجود تھی۔ اس نے مشورہ دیا کہ مجھے اُس گائنا کالوجسٹ سے ملنا چاہیے جو خاموشی سے کام کر دیتی ہے۔ وہ میرے پردۂ بکارت کا آپریشن کر کے چین کا بنا ہوا مصنوعی پردہ لگا دے گی۔
’اگر میں وہ بڑا آپریشن نہ کراتی تو میں کب کی جان سے ہاتھ دھو چکی ہوتی۔‘
امینہ کا تعلق ایک قدامت پسند اور خاصے غریب گھرانے سے ہے، اور ان کی مصیبت اس وقت شروع ہوئی جب وہ غسل خانے میں گریں اور ان کا تھوڑا سا خون نکل گیا۔
امینہ کو پتہ نہیں چلا کہ اصل میں کیا ہوا ہے، تاہم انھوں نے اپنی والدہ کو اس بارے میں بتا دیا۔ والدہ نے امینہ کو پکڑا اور سیدھی ایک گائناکالجسٹ کے پاس چیک کرانے لی گئیں۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ امینہ کا پردۂ بکارت پھٹ گیا ہے۔
امینہ کہتی ہیں کہ ’وہ دن میری ماں کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں تھا۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ میری تین آنٹیوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد، ڈاکٹر سے پردۂ بکارت کو مرمت کرانے کے لیے وقت لے لیا گیا۔ چونکہ ہمارے ملک میں یہ غیر قانونی ہے اس لیے اس قسم کے آپریشن مکمل رازداری میں کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر لوگ اس بات پر یقین نہ کرتے کہ میں باتھ روم میں گر گئی تھی اور لوگ میری باقی زندگی میرے کنواری ہونے پر شک ہی کرتے رہتے۔
’کنوار پن کے ٹیسٹ‘
اکثر عرب اور مسلمان ممالک میں بہت سی لڑکیوں کو شادی سے پہلے کنوار پن کا ٹیسٹ کرانا پڑتا ہے، جس کے بعد دلہن بننے والی لڑکی کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے جس میں تصدیق کی جاتی ہے کہ وہ کنواری ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ ماضی میں انڈونیشیا اور کچھ عرب ممالک کی مذمت کر چکی ہے کہ ان کے ہاں لڑکیوں کے ’کنورا پن کے جو ٹیسٹ‘ کیے جاتے ہیں ان میں خواتین کو درد سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان ممالک میں عموماً یہ کام بڑی عمر کی خواتین کو دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنی دو انگلیوں سے ٹٹول کر جائزہ لیتی ہیں کہ آیا پردۂ بکارت موجود ہے یا نہیں۔
یہ طریقہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بہت عام ہے اور ہیومن رائٹس واچ نے سنہ 2014 کی رپورٹ میں اسے ’صنفی تشدد، خواتین کے خلاف غیر انسانی تفریق اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا تھا۔
بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق وہ ممالک جہاں اس قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ان میں انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، ایران، مصر، اردن، لبیا، مراکش سمیت کچھ عرب ممالک اور جنوبی افریقہ سرفہرست ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق مصر،مراکش، اردن اور لبیا میں یہ ٹیسٹ سب سے زیادہ عام ہیں۔
اس رپوٹ کے جواب میں مراکش اور مصر کے حکام نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو خفیہ طور پر کیا جا رہا ہے۔
نوٹ: ان کی خواہش کے مطابق، اپنی کہانی سنانے والی چاروں خواتین کے اصل نام خفیہ رکھے گئے ہیں۔