دوبارہ زندگی پانے والی انیتہ جلیل کے نام خط



آپ سے متعلق خودکشی کی خبریں کل سے سوشل میڈیا پر گردش میں تھیں وجوہات نامعلوم قرار پائے۔ آپ کا آڈیو پیغام موصول ہوا تو پیغام سن کر دل گداز ہوا۔ آپ کی آواز میں درد تھا تکلیف تھا اور امید کی جس فضا میں آپ نے سانس لینا شروع کیا تھا آپ کی آواز میں مایوسی کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ تکلیف کا وہ عنصر میرے چاروں طرف بسیرا کرنے لگا۔ میں نے اپنے اندر باہر جھانکنے کوشش کی۔ اپنے آپ کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔ اس درد کو محسوس کرنے کی کوشش کی جو ایک مرد ایک عورت کو پہنچاتا ہے میں اس درد و تکلیف کی تہہ تک نہیں پہنچ پایا۔

ہم اس وقت جس معاشرے میں سانس لینے کی جسارت کر رہے ہیں ایک گھٹن زدہ معاشرہ ہے جس میں سانس لیتے ہوئے بسا اوقات اجازت لینی پڑتی ہے۔ اس معاشرے کے ساتھ طبقاتی، خاندانی، قبائلی، قومیتی اور نہ جانے کتنے ٹیگ آویزان ہیں آپ جہاں جہاں قدم رکھتے چلے جاتے ہیں ان کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم جہاں جہاں سانس لینے کی جسارت کرتے ہیں وہاں  یہ حرکت ان طبقات کو ناگوار گزرتی ہے جس سے ان کی طبقاتی نظام کی جڑیں وابستہ ہیں۔ وہ طبقات پاگل پن کے اس مجموعے کو برداشت نہیں کر پاتے قطعا نہیں کر پاتے جو ان کی قائم کردہ در و دیواروں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ہنسنے مسکرانے اور کھلکھلانے کی کوشش کرتا ہے انہیں یہ سب کچھ نہیں منظور۔ وہ ان سب کو مقید کرنا چاہتا ہے انہیں آہوں و سسکیوں میں بدلنا چاہتا ہے بھلا یہ طبقاتی نظام ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس بچی کو کیسے برداشت کر پائے جو گھر سے باہر قدم رکھنے کی جرات کرتی ہے جو آگے بڑھنا چاہتی ہے جو اپنے عمل اور کردار سے گھروں میں مقید عورتوں کے لیے راستہ بنانا چاہتی ہے۔ وہ قطعا نہیں چاہتا۔

آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ایک باپ جس قدر اپنے بیٹوں کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے انہیں اپنے پاس بلاتا ہے "بیا ابا منی کرا بہ نند" وہ کبھی بیٹی کو یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کیوں؟ کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ کرے تو وہ سماج کیا کہے گا جس کے پلر مردانہ پلستر آراستہ کیے جا چکے ہوں۔ اگر بیٹی گھر سے باہر قدم رکھے تو معاشرہ پہلا سوال یہ اٹھاتا ہے کہ فلانے کی بیٹی گھر سے باہر قدم رکھنے لگی ہے کیا کبھی غور کیا ہے حقیقت میں یہ سوال اپنی معنویت کھو چکے ہیں مگر ہمارے قبائلی روایات نے ان سوالات کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ تعلیمی سروے کے دوران ایسی بے شمار کہانیاں سامنے آ گئیں کہ لڑکوں کی تعلیمی اخراجات ان کی مائیں یا بہنیں کشیدہ کاری کرکے پوری کر رہی ہیں تو کیا ان کا یہ کردار انہیں معاشرے میں ممتاز نہیں بنا رہی۔ کیا ہمارا مردانہ معاشرہ عورتوں کے اس کردار کو تسلیم کرنے کی جسارت کر سکتا ہے نہیں نا۔۔

پیاری انیتہ
ایک پدرانہ اور مردانہ معاشرے میں سنی ہمیشہ مرد کی ہی جاتی ہے۔ مگر جس سماج میں باہمت عورتیں موجود ہوں۔ اور وہ آواز اٹھانا جانتی ہوں وہاں مردانہ معاشرے پر ضرب کاری لگ جاتی ہے۔ 
آپ نے جن راہوں اور جس شعبے کا انتخاب کیا وہ راہیں پرخار سفر سے گزرتی ہوئی منزل تک پہنچتی ہیں ان راہوں پر چلتے ہوئے خاردار تاروں سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ چیزیں باہر سے جس طرح خوش نما نظر آتی ہیں اندرونی خاکہ اتنا ہی بھیانک ہوتا ہے ان راہوں پر چلتے ہوئے ایک مضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے ان راہوں پر چلتے ہوئے نہ صرف لوگوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے بلکہ اپنے وجود کے اندر اٹھتی ہوئی شور کو تھمانا پڑتا ہے یہ وہ شور و غل ہے جو وقتا فوقتا ہمارے اردگرد بسیرا کرکے طوفان اٹھ کھڑا کر دیتا ہے اس شور و غل کو تھمنے کے لیے ہمیں اپنی توانائیاں یکجا کرنی پڑتی ہیں۔

آپ نے زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کیا مگر زندگی نے آپ سے مزید کام لینا تھا آپ کی وہ کوشش رائیگان گئی سو اب زندگی کو ایک نئی سمت دے دیں توقعات کے جو پل آپ نے اپنی پلو میں باندھ کر ان لوگوں سے وابستہ کیے تھے جنہیں آپ اپنا سمجھ بیٹھی تھیں اب ان توقعات کو گھٹڑی میں باندھ کر ایک سائیڈ پہ رکھ دیں اور زندگی کا سفر جاری رکھیں اس زندگی میں بہت کم لوگ اوروں کے لیے جیتے ہیں اور ان کی امیدوں کا سہارا بنتے ہیں۔ زندگی نے ایک موقع اور دیا ہے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیے زندگی آپ کی ہے راستے بھی آپ کے ہیں شوبز کسی کی جاگیر نہیں سو اپنا کام جاری رکھیں اور کہیوں انیتہ پیدا کریں۔
نئی زندگی مبارک ہو۔

(شبیر رخشانی)