عام طور پر معاشی ترقی کو کسی ملک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس اور کوئلہ کی پیداوار پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدرتی وسائل ترقی کی ایک وجہ تو ضرور ہیں مگر یہ واحد وجہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایسے بہت سے ممالک نے بھی ترقی کی جن کے پاس معدنیات کے ذخائر نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل جو بھی ہوں کسی بھی طریقے سے ملکی پیداوار بڑھانے سے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ پیداوار بڑھانے سے ہمارے ذہن میں قدرتی وسائل کے بعد سستے مزدوروں کی دستیابی آتی ہے۔
مگر آج کے دور میں سستے مزدور بھی اس قدر اہم نہیں رہے۔ مثال کے طور پر جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کم آبادی اور مہنگے مزدوروں کے ساتھ بھی اپنی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں پیداوار بڑھانے کے لیے سب سے اہم چیز ٹیکنالوجی یا انڈسٹری ہے۔ چاہے قدرتی وسائل کو استعمال میں لانا ہو یا پھر سستے مزدوروں سے چیزیں بنوانی ہوں اس سب کے لیے ٹیکنالوجی انتہائی اہم ہے۔ ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان میں ہم اپنے کتنے قدرتی وسائل اور بے روزگار سستے مزدوروں سے استفادہ ہی نہیں کر پا رہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی بنانے کی ذمہ دارای کس کی ہے؟ چونکہ ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ فائدہ سرمایہ دار کو ہوتا ہے اس لیے یہ ذمے داری بھی دراصل سرمایہ دار کی ہے۔ ایک بات کا خیال رہے کہ سرمایہ دار سے مراد صرف کمپنیاں نہیں ہیں جبکہ گورنمنٹ کسی ملک میں سب سے اہم سرمایہ دار ہے اس لیے کمپنیوں کے علاوہ یہ ذمے داروں سرکار اور سرکاری یونیورسٹیز وغیرہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
صرف نئی ٹیکنالوجی ایجاد کرنے سے بھی ترقی ممکن نہیں، بلکہ اس کا مکمل استعمال بھی لازمی ہے۔ اگر کسی کمپنی کے پاس جدید ٹیکنالوجی تو موجود ہو مگر اس کی انتظامیہ (منیجمنٹ) اچھی نہ ہو تو وہی مشینیں پیداوار دینے کی بجائے دن کا بہت حصہ بے کار میں پڑی رہیں گی۔ مشینوں سے زیادہ پیداوار لینے کا تعلق صرف مزدوروں کو مینیج کرنے سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کو مینیج کرنے سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر پیدوار میں اگر ایک مرحلے کی مشین بہت تیز ہے جبکہ دوسرے مراحل میں مشینوں کی رفتار کم ہو تو پہلے مرحلے کی مشین اتنی پیداوار نہیں دے سکتی جتنی پیداورا دینے کی صلاحیت اس مشین میں موجود ہے۔ اور پھر ٹیکنالوجی کے استعمال میں کچھ حدود کا بھی خیال رکھنا انتظامیہ کی اہم ذمے داری ہے۔ اس کے بغیر ترقی کی دوڑ میں ملک کو شدید مشکلات، جیسا کہ فضائی آلودگی وغیرہ، کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ترقی کو صرف ٹیکنالوجی پر منحصر کہنے سے شاید آپ سوال کریں کہ ہماری معیشت تو سب سے زیادہ زراعت پر منحصر ہے تو کیا ہمارے لیے بھی ٹیکنالوجی زراعت سے زیادہ اہم ہے؟ زراعت کی اہمیت اپنی جگہ مگر عصرِ حاضر کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ملک نے بھی زراعت سے معاشی ترقی نہیں کی۔ بلکہ جوں جوں ان ممالک نے ترقی کی، ان کا زراعت سے انحصار کم ہوتا گیا۔ مثال کے طور پر 1965 میں جنوبی کوریا اپنی جی ڈی پی کا 47 % حصہ زراعت سے حاصل کرتا تھا اور آج کوریا کی معیشت میں 2 % سے بھی کم حصہ زراعت سے شامل ہوتا ہے۔
پاکستان کی مجموعی پیداوار میں زراعت کا 23 % حصہ ہے اور اُن ممالک میں شامل ہے جو اپنی جی ڈی پی کا 20 % سے زائد حصہ زراعت سے حاصل کرتے ہیں۔ زراعت پر 20 % سے زائد انحصار کرنے والے ممالک میں کینیا، سوڈان، اتھوپیا، یوگینڈا، ازبکستان، نیپال اور برما وغیرہ جیسی غریب ممالک ہی شامل ہیں۔ زراعت سے ترقی نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر سب سے اہم وجہ زراعت پر اثر انداز ہونے والی قدرتی عوامل ہیں۔ مثلاً صرف ایک دن کی کسی قدرتی آفت سے پورے ملک کی چھے ماہ کی زرعی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک فصل حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ اور جہاں تک پیداوار بڑھانے کا تعلق ہے تو ایک ہی زمین سے کھاد وغیرہ کے استعمال سے ایک انتہائی محدود حد تک ہی پیدوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ بہرحال مجموعی معاشی ترقی کے لیے زراعت کی اہمیت نہ سہی مگر ترقی پذیر ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس لیے بے روزگاری کے حل کے لیے پاکستان جیسے ملک میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
پیداوار میں ترقی کی شرح بڑھانا کسی ملک کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ پاکستان میں بجٹ تقریروں میں بے معنی اصطلاحوں کے ذریعے آنکھوں میں دھول جھونک کر اس مشکل کو حل کیا جاتا ہے۔ بجٹ میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار جی ڈی پی کی ترقی کے بارے میں ہوتے ہیں، جبکہ حقیقی ترقی کا اندازہ جی ڈی پی پر کیپیٹا (فی کس جی ڈی پی) کے ساتھ آبادی اور مہنگائی کی شرح ملا کر دیکھنے سے کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر ملکوں کی ترقی کی شرح ایک سے تین فی صد کے درمیان رہتی ہے۔
اگرچہ ترقی کی شرح کو کسی حدود کا پابند نہیں کیا جا سکتا مگر حقیقت میں 6 % سے زیادہ ترقی کی شرح حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے اس لیے اس سے زیادہ ترقی کی شرح معیشت میں معجزاتی سمجھی جاتی ہے۔ مسلسل معجزاتی ترقی کی شرح سے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ معجزاتی شرح صرف انڈسٹری لگانے سے ہی ممکن ہے۔ اٹھارویں صدی سے پہلے جب تک انڈسٹریاں نہیں لگی تھی یہ شرح تقریباً ہر ملک میں صفر کے قریب تھی۔ اور پھر انڈسٹریوں کے بعد یہ ایک فی صد تک جانے لگی۔
سرمایہ دارانہ نطام کے سنہری دور ( 1945 سے 1970 ) میں یہ شرح 3 %سے 4 % تک رہی۔ جنوبی کوریا، جاپان اور چائنہ وغیرہ نے معجزاتی طور پر 8 % سے 10 % ترقی کی شرح بھی حاصل کی۔ جی ڈی پی پر کیپیٹا ترقی کی شرح اگر 3 % سے زائد ہو تو یہ تسلی بخش ترقی سمجھی جاتی ہے۔ کسی ایک سال زیادہ ترقی کی شرح حاصل کرنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا جبکہ حقیقی ترقی تسلسل سے ہی ممکن ہے۔
پیداورا بڑھانے کے لیے بجٹ کا کچھ حصہ سرمایہ کاری کے کھاتے میں رکھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عام طور پر اس حصے کو مزید تحقیق کرنے اور جدید مشینیں بنانے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اور اس لیے آر اینڈ ڈی (ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ) بجٹ کہلاتا ہے۔ جی ڈی پی کا بہت سا حصہ اگر مسلسل سرمایہ کاری (انویسٹمنٹنٹ) میں لگایا جائے تو ترقی کی شرح بڑھائی جا سکتی ہے۔ مگر بغیر سوچے سمجھے جی ڈی پی کا بہت سا حصہ انویسٹ کرنا بھی کوئی اچھی روش نہیں۔
اس سے ہو سکتا ہے کہ مستقبل کا سوچتے سوچتے حال میں بنیادی ضروریات کے لالے پڑ جائیں۔ کسی بھی ملک نے 30 % سے کم حصہ انویسٹ کرکے معجزاتی ترقی کی شرح حاصل نہیں کی۔ جاپان اور چین نے اپنی ترقی کے آغاز میں بجٹ کا 35 % سے بھی زائد حصہ سرمایہ کاری کے لیے مختص کیا تھا۔ آئیں اب ذرا پاکستان کے کچھ اعداد و شمار دیکھتے ہیں۔
ملکی تاریخ میں پاکستان نے 1965 میں اپنی جی ڈی پی کا سب سے زیادہ حصہ سرمایہ کاری پر خرچ کیا جو کہ جی ڈی پی کا 21 % تھا۔ اور ملکی تاریخ میں سب سے کم حصہ 1973 میں 13 % خرچ کیا گیا۔ سن 2000 سے 2008 تک سرمایہ کاری بجٹ اوسطاً 17 % رہا۔ 2009 سے 2013 تک بجٹ کا اوسطاً 15 % حصہ اس مد میں خرچ ہوا جبکہ 2014 سے 2018 تک اوسطاً 16 % کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اگر بنگلہ دیش سے موازنہ کیا جائے تو 2000 سے 2008 تک یہ شرح اوسطاً 25 %، 2009 سے 2013 تک اوسطاً 28 % اور 2014 سے 2018 تک اوسطاً جی ڈی پی کے 30 % سے بھی زائد ہے۔ 1987 سے لے کر آج تک کسی بھی سال بنگلہ دیش نے اس حصے میں پچھلے سال سے کمی نہیں کی جبکہ پاکستان کے بجٹ میں صرف سال 2000 سے 2018 تک دس بار پچھلے سال سے کم حصہ اس مقصد کے لیے خرچ کیا گیا۔