قارئین کو یاد ہو گا کچھ سال پہلے لاہور میں خواتین کے کپڑے کے ایک سٹور میں سالانہ کلیرنس سیل کے موقع پر کیسی دھینگامشتی ہوئی تھی اس کی ایک ویڈیو بھی بہت مشہور ہوئی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خریدار خواتین من پسند کپڑے حاصل کرنے کے لئے سٹور پہ ایسے ٹوٹ پڑی تھیں جیسے ٹڈی دل کھیتوں میں کھڑی فضل پہ حملہ آور ہوتا ہے۔
بہت سے لوگ اس طرح کے سیل میلوں کا پورا سال انتظار کرتے ہیں اور جب یہ میلہ لگتا ہے تو ایسی بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے، لیکن یہ سب کچھ صرف ہمارے معاشرے کا خاصا نہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ایسے موقعوں اس طرح کے منظر دیکھنے میں آتے ہیں جب کلیئرنس سیل کے مواقع کسی میدان جنگ کے منظر پیش اتی
بڑے بڑے سٹور سال میں ایک یا دو بار کلیئرنس سیل لگاتے ہیں اور کلیئرنس سیل کا یہ میلہ دراصل وہ خریدار کے فائدے کے لئے نہیں سجاتے بلکہ اس کا فائدہ بھی خود انہی کو ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال پر بھرپور منافع پہلے ہی کما چکے ہوتے ہیں اور سیل کے نام پر اندھادھند خریداری سے جو بھی آمدنی ہوتی ہے وہ ان کے لئے اضافی بونس ہوتی ہے۔ اس طرح انہیں اپنا نیا مال بھاری قیمت پر مارکیٹ میں لانے کا موقع مل جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کلیئرنس سیل صرف دھوکہ دہی اور لوٹ کھسوٹ کا نام ہے۔ بہت سے سٹور ایسے بھی ہیں جو سیل کا فائدہ خریدار کو بھی دیتے ہیں، تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ اپنا مقرر کردہ منافع پہلے ہی کما چکے ہوتے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں سٹور سے پرانا سامان جلد از جلد ختم ہو تاکہ وہ اپنی نئی ورائٹی متعارف کرواسکیں۔
1951 میں امریکہ میں یوم تشکر (Thanksgiving Day) کے اگلے دن پہلی دفعہ بلیک فرائیڈے کا انعقاد کیا گیا تاکہ لوگ انے والی کرسمس کے موقع پی اپنے لئے اور اپنے پیاروں کے لئے خریداری کر سکیں۔ رفتہ رفتہ یہ دن امریکہ میں سال کا سب سے بڑا شاپنگ ڈے بن گیا۔ اس موقع پر بڑے بڑے سٹور اور مینوفیکچرنگ ادارے محدود سٹاک پہ پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پہ سیل لگاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے انٹرنیٹ پہ سیل اور مختلف موبائل فون ایپس کی وجہ سے ناصرف سیل کے طریقہ کار میں تبدیلی آچکی ہے بلکہ سالانہ خریداری کا حجم بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ اب بہت سے لوگ اپنی پسندیدہ چیز گھر بیٹھے مناسب قیمت میں حاصل کر لیتے ہیں۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ شاید یہ سیل امریکہ میں موجود افریقی النسل لوگوں (جن کی اکثریت غریب ہے ) کے فائدے کے لئے لگائی جاتی ہے اور اسی لئے اسے بلیک فرائیڈے کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن درحقیقت اس دن کو یہ نام امریکی محکمئہ پولیس کی طرف سے دیا گیا کیونکہ اس دن بہت زیادہ بھیڑبھاڑ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس نام کے حوالے سے اکثر کم پڑھے لکھے لوگ اس بحث میں الجھے دکھائی دیتے ہیں کہ شاید مسلمانوں کے مذہبی دن کو ایک برا نام دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کچھ حلقوں میں اس دن کا نام بلسڈ فرائیڈے (Blessed Friday ) رکھا گیا ہے۔
جہاں پاکستان میں اس موقع پر ہر سال خریداروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے وہیں اب امریکہ جیسے ملک میں بلیک فرائیڈے کے موقع پر سٹور پہ خریداری کے جوش و جذبے میں کچھ کمی مشاہدے میں آئی ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ انٹرنیٹ اور موبائل فون ایپس کے ذریعے خریداری ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس سال صرف 22 فیصد امریکیوں نے بلیک فرائیڈے کے موقع پر خریداری کی۔ جبکہ آن لائن خریداروں کی تعداد فی الحال سامنے نہیں آ سکی۔