کچھ روز پہلے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر انتظام ایک شاندار ڈائیلاگ بعنوان اسلام اینڈ سیکولرازم منعقد کیا گیا۔ اس شاندار گفتگو میں ایک طرف اسلام کا نقطہ نظر پیش کرنے والے دو معزز احباب موجود تھے تو دوسری طرف سیکولرازم پر گفتگو کرنے کے لیے حاشربن ارشاد اور فرنود عالم موجود تھے۔ اس ڈائیلاگ کی سب سے بڑ ی خوبصورتی یہ تھی کہ یہ گفتگو بڑے ہی مہذب انداز میں کی گئی۔ اس قسم کی گفتگو کا ایک بڑی جامعہ میں صبروتحمل سے منعقد ہونا یہ ہمارے تنگ وتاریک معاشرے کے لیے خوش آئند قدم تھا۔
اس ساری گفتگو میں جو بات نکھر کر واضح انداز میں سامنے آئی۔ وہ یہ تھی کہ سوال میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ سوال کی بدولت بڑی بڑی پر اسرار پہیلیوں پر پڑی ہوئی گرد ہٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ سوال کی کھوج تہہ در تہہ میں اتر کر آشنائی کا ایک ایسا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جس کے لیے ایک بڑی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کو ریاضت کرنے کا ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ وہ خود کو ساری عمر طالب علم کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ ایک مخصوص نکتہ نظر کی کتابیں رٹ کر یقین کے ہمالیہ پر چڑھ کر یہ دعوٰی کرنے لگ جاتے ہیں کہ انھیں اس کائنات کی آخری اور حتمی سچائی کا گیان حاصل ہوچکا ہے۔
اس کا واضح ثبوت یہ ہوتا ہے کہ ان کی آواز گرج دار اور اندازِتکلم تحکمانہ ہو جاتا ہے۔ بالکل اس طرح کے اندازِ تخطاطب کا اظہار اس مذاکرہ میں بھی دیکھا گیا۔ اس مذاکرہ میں شرکت کرنے والے دو احباب جن کا تعلق جمعیت سے تھا وہ اپنے مؤقف کو بڑے ہی جارحانہ اور غصیلے انداز میں پیش کر رہے تھے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کے سامعین بالکل ناخواندہ ہہیں اور وہ ان کو تبلیغ کرنے آئے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو حاشر اور فرنود کا جنھوں نے اس علمی فضاء کو آخر تک بڑی خوبصوتی اور تحمل کے ساتھ بنا کے رکھا یونیورسٹی کے طلباء تک دونوں طرف کے نقطہ نظر کو پہنچانے کے لیے سہولت کار بنے۔
یہ ہمارے معاشرے کی یونیورسٹی اور کالجوں کا المیہ ہے کہ ہمارے طلبہء و طالبات کو گلوبل معاشرے میں پنپنے والے مختلف قسم کے خیالات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی۔ اور انہیں ایک ہی مخصوص قسم کی سچائی میں قید رکھ کر دولے شاہ کے چوہے بنا دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں کو تو خیالات کی آماجگاہ کہا جاتا ہے یہاں پر مختلف خیالات کو پڑھایا جاتا ہے اور نئے پنپنے والے خیالات کی آبیاری کی جاتی ہے۔ کیا ایسا ہماری یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے؟
اس کا جواب ہمیں ایک بڑی نہ کی صورت میں ملے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری جامعات کے اندر ڈائیلاگ کے ماحول کو پروان نہیں چڑھایا جاتا بلکہ بہت سارے موضوعات کو شجر ممنوعہ کا درجہ دے کر سائیڈ لائن کردیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اپنے معاشرے کو مصنوعی حربوں سے بند کر کے رکھ سکتے ہیں۔ کب تک ذہنوں میں پنپنے والے مختلف قسم کے سوالات کو روکا جاسکتا ہے۔ طلباء و طالبات کو دنیا میں ابھرنے والے علوم میں غوطہ زن ہونے دیجیے۔
اور انھیں خود اپنے طورپر اپنا بیانیہ تشکیل دینے دیجیے۔ یاد رکھئے سوال اور علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک آزاد پرندے کی مانند ہوتا ہے جو صرف کھلی اور آزاد فضاء میں اڑان بھرتا ہے۔ خدارا طلبا کو اپنے چھوٹے چھوٹے بنائے ہوئے دائروں سے آزاد کر دیجیے تا کہ وہ خود اپنے طور پر اپنی زندگی کے آزادانہ فیصلے لے سکیں۔
بقول ڈاکٹر خالد سہیل:
اِس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا