پاکستان میں جسم فروشی کے ڈیرے


صوبۂ پنجاب کی تحصیل چنیوٹ کے ایک گاؤں کی رہائشی کنیز فاطمہ ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ اس کے باپ نے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے سات بچوں کو پالا۔ کنیز کو میٹرک تک تعلیم دلوائی اور اس کی شادی کر دی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ لیکن زندگی اس کے بعد کنیز کے لیے تنگ ہوتی گئی۔ کنیز کہتی ہے کہ اس کا شوہر کچھ نہیں کماتا تھا، اس کے دو بچے بھی ہوگئے۔اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے اس نے محنت مزدوری کرنے کی ٹھانی لیکن جس گھر میں وہ گھریلو ملازمہ بن کر گئی وہ ایک ’ڈیرہ‘ تھا۔

کنیز کے مطابق اس کے دھندے میں ڈیرہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بہت سی لڑکیاں جسم فروشی کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ کبھی یہ لڑکیاں بن سنور کر باہر جاتی ہیں اور کبھی گھر میں ہی اپنے گاہکوں سے ملتی ہیں۔ اس ڈیرے کا انتظام کوئی مرد یا کوئی عورت چلاتی ہے اور ایسی عورتوں کو میڈم یا آنٹی کہا جاتا ہے۔

اس ڈیرے میں عورتوں سے دھندہ کروانے والے شخص نے کنیز کو ’آسان‘ طریقے سے دولت کمانے کا گر بتایا۔ اس نے اسے منڈی بہاؤ الدین میں ایک ڈیرے پر بھیجا اور چونکہ کنیز پڑھی لکھی تھی اور حساب کتاب کر سکتی تھی اس لیے وہ ڈیرے کی انچارج بن گئی۔

اسی دوران اس کے شوہر کو اس کی حرکتوں کی خبر ہوئی۔ اس نے اسے گاؤں بلا کر گولی ماری جو اس کی ٹانگ پر لگی۔ کنیز نے شوہر سےطلاق لے لی اور ٹانگ کا علاج کروا کر ’مڈل وومن‘ بن گئی۔ لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے

اب کنیز لاہور میں رہتی ہے اور لاہور اور دوسرے کئی شہروں کے ڈیروں پر لڑکیاں پہنچاتی ہے اور ان سے کمیشن لیتی ہے۔ اسے ایک لڑکی فراہم کرنے کے پانچ سے دس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ کمیشن کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق لڑکی کی خوبصورتی سے ہے۔

کنیز کہتی ہے کہ وہ ڈیرے والوں کو ضمانت بھی دیتی ہے کہ لڑکی بھاگے گی نہیں۔ اس کے مطابق غربت سے تنگ آئے ہوئے لڑکیوں کے ماں باپ، بھائی اور شوہر تک لڑکیوں کو اس کے پاس لاتے ہیں کہ انہیں کسی ڈیرے پر جسم فروشی کی نوکری دلا دے اور لڑکیوں کے یہ ورثاء ان کی کمائی ایڈوانس میں لے جاتے ہیں اور پھر ہر مہینے ڈیرے والوں سے پیسہ وصول کرتے ہیں۔

کئی لڑکیاں خود بھی کنیز کے پاس آتیں ہیں کہ ہمیں یہ کام دلا دو۔ یہ لڑکیاں اس جنسی مشقت کی قیمت بھی خود ہی وصول کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق ڈیرے سےاگر کوئی صرف چند گھنٹے کے لیے لڑکی کو لیتا ہے تو وہ ایک ہزار سے پندرہ سو تک دیتا ہے جس میں لڑکی کو دو تین سو ملتے ہیں باقی ڈیرے والی آنٹی رکھتی ہے اور تمام رات گزارنے پر لڑکی کو پندرہ سو سے دو ہزار تک مل جاتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ڈیرے کی انچارج نے خود کتنے وصول کیے۔

کنیز کے مطابق ’لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے‘۔

کنیز کہتی ہے کہ یوں تو وہ کئی شہروں کے ڈیروں میں لڑکیاں دینےجاتی ہے لیکن راولپنڈی، اسلام آباد اور بہاول پور کے ڈیروں سے اس کا زیادہ رابطہ ہے اور اس کے بقول وہاں کے ڈیروں پر دو دو سو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کے سبب کئی لڑکیوں کے ورثاء ان سے یہ پیشہ کرواتے ہیں لیکن کئی لڑکیاں اپنی مرضی سے کام کرنے آتی ہیں۔کئی ایک کے گھر والے یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کام کرتی ہیں۔

 اس دھندے میں ہر طرح کی لڑکیاں ہیں لیکن کنیز کے بقول اس کے پاس وہی زیادہ آتی ہیں یا لائی جاتیں ہیں جن کا مسئلہ غربت ہوتا ہے۔ کنیز کے گھر میں لاہور ہی کی ایک لڑکی ندا رہائش پذیر ہے۔ بیس سال کی عمر، رنگ گورا اور معصوم سا دل لبھانے والا چہرا. جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا

ندا کا کہنا ہے کہ وہ ماں کی مرضی سے اس پیشے میں آئی ہے۔’جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا۔‘ اس وقت ندا کی عمر چودہ سال تھی اور بقول اس کے وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کرنا کیا ہے۔

ندا کی کہانی بھی ان ہزاروں لاکھوں غریب لڑکیوں کی کہانی ہے جنہیں غربت وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جسے معاشرہ اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک سال کی تھی کہ باپ چل بسا، بڑا بھائی ہے جو ہیروئن کا نشہ کرتا ہے اور اسے باقی چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا ہے۔ ندا کہتی ہے کہ اس کے گھر میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس دھندے سے وابستہ ہے۔ اس کی سہلیاں تک یہ نہیں جانتیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ راز کبھی کھلنے نہ پائے کیونکہ بقول اسکے اپنے پیٹ سے کوئی خود کپڑا اٹھاتا ہے۔

ندا کی پیشہ ورانہ زندگی کی کئی تلخ یادیں ہیں جو ندا کو بہت افسردہ کر دیتی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گاہک نے ڈیمانڈ پوری نہ کرنے پر اس سے بہت بد سلوکی کی۔ایک بار گاہک نے اسے برہنہ کمرے سے باہر نکال دیا۔ ندا کو تمام دوسری لڑکیوں کی طرح شادی کرنے کا شوق ہے۔اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا کمانے والا شوہر ہو جو زندگی کی تمام ضروریات پوری کرے، سسرالی رشتے دار ہوں اور اس کے بچے ہوں۔ لیکن اسے ڈر لگتا ہے کہ جس پیشے سے وہ وابستہ ہے ایسا لگتا ہے کہ کبھی بھی کوئی اس سے شادی نہیں کرے گا۔

ندا کو اپنا پیشہ برا لگتا ہے وہ کہتی ہے کہاگر حکومت یا کوئی اور ادارہ اس کے خاندان کے اخراجات اٹھا لے جس میں زیادہ کچھ نہیں بس مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، مہینے کا راشن اور کچھ پیسے بہن بھائیوں کے کپڑے جوتوں کے لیے مل جائیں تو وہ اس دھندے کو چھوڑ دے گی۔

ندا کے برعکس ماریہ اس پیشے میں اپنی مرضی سے آئی۔ اس کے بقول اس کا شوہر نکھٹو تھا، اس کے دو بیٹے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائے اور انہیں زندگی کی ہر سہولت دے۔ ماریہ کی ایک سہیلی نے اسے پیسہ کمانے کا یہ طریقہ بتایا اور اس طرح وہ اس دھندے میں آ گئی۔

ماریہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکی ہے۔ کئی شہروں کے ڈیروں پر جسم فروشی کرتی رہی لیکن زیادہ وقت گزرا جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں۔ ماریہ بتاتی ہے کہ وہ وہاں ہوٹلوں میں بھی اور بڑے بڑے گھروں میں بھی اپنے گاہکوں کے پاس جاتی تھی۔

ماریہ کے بقول اس کے گاہکوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں یہاں تک کہ گورے یعنی غیر ملکی بھی اس کے گاہک ہیں اور وہ اسے ٹپ بھی دیتے ہیں۔ ماریہ کا کہنا ہے کہ دوسرے شہروں کی نسبت اسلام آباد کے لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ کافی بہتر رہا۔ ’وہ ڈیسنٹ تھے۔ ان کا اٹھنے بیٹھنے کا، بات کرنے کا، کھانے پینے کا طریقہ کافی اچھا تھا۔‘

میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے

ماریہ نے کہا کہ ’کوئی ہمیں اپنا تعارف تو نہیں کراتا لیکن انسان کے رویے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی بڑا افسر یا بڑا آدمی ہے۔‘

اس پیشے میں کافی تجربہ کار ہونے کے باوجود ماریہ اپنی آمدنی کے لیے ڈیرے والوں کی محتاج ہے کیونکہ ڈیرے والے تمام لڑکیوں کی کمائی خود وصول کرتے ہیں اور پھر اپنا حصہ رکھ کر لڑکی کو دیتے ہیں۔ ماریہ کہ بقول انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ڈیرے والے نے گاہک سے کتنا وصول کیا البتہ ٹپ ہماری ہوتی ہے۔

ماریہ کہتی ہے کہ اسلام آباد میں وہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ماہانہ کما لیتی تھی لیکن اخراجات زیادہ ہیں اور بچت نہیں ہوتی۔ اخراجات میں وہ طبی ٹیسٹ بھی شامل ہیں جو ماریہ کو ہر دو ماہ بعد کروانے پڑتے ہیں جن میں ایڈز تک کا ٹیسٹ شامل ہے اور ان ٹیسٹوں کے لیے اسے کافی رقم خرچنا پڑتی ہے۔

اسلام آباد میں اچھی آمدنی کے باوجود ماریہ لاہور آ گئی کیونکہ اسے اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور وہاں بڑے بڑے ہوٹلوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد ڈر لگنے لگا تھا۔ ماریہ کے بچے اسکی ایک منہ بولی بہن کے پاس ہیں اور انگریزی میڈیم سکول میں پڑھتے ہیں۔ اب اس کے اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اگر اب وہ چاہے بھی تو اس دھندے کو چھوڑ نہیں سکتی۔ لیکن ماریہ کو احساس ہے کہ آخر کب تک کوئی عورت جسم فروشی کر سکتی ہے آخر عمر تو بڑھتی جاتی ہے اس لیے وہ چاہتی ہے کہ کوئی اور انتظام ہو جائے۔

ماریہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک امیر آدمی نے داشتہ بنانے کی پیشکش کی ہے ’جو مجھے مکان بھی لے کر دے گا اور میرے بچوں کی پڑھائی سمیت میرے تمام اخراجات اٹھائے گا۔ اس آدمی کی بیوی کو بھی اعتراض نہیں کیونکہ اس کی بیوی بہت فربہ ہے اور وہ اپنے شوہر کو خوش دیکھنا چاہتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے۔‘

کنیز کے پاس اس پیشے سے منسلک چند خوفناک کہانیاں بھی ہیں اور ان لڑکیوں سے مل کر لگتا ہے کہ شاید سب ہی کے ذہنوں پر اس طرح کی کہانیوں کا خوف ہے۔ ایک بار کنیز نے ایک لڑکی کومنڈی بہاؤ الدین میں گاہکوں کے پاس بھیجا، وہ جرائم پیشہ تھے اور انہوں نے اس لڑکی کے سامنے اپنے ہی ایک ساتھی کو مار کر نہر میں پھینک دیا۔ لڑکی اتنی خوفزدہ ہوئی کہ کئی ماہ بستر پر پڑی رہی۔

ملکوال کے علاقے میں ایک ڈیرے والی کو اس کے عاشق نے بے وفائی پر گولی مار دی لیکن کوئی کیس رجسٹر نہ ہوا۔ کنیز بتاتی ہے کہ کئی گاہک ان لڑکیوں کو بھی شراب پلانا چاہتے ہیں جو شراب نہیں پیتیں۔ کئی طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں اور اگر لڑکی کوئی ڈیمانڈ پوری نہ کرتی تو اسے گولی مار کر لاش غائب کر دیتے ہیں اور ڈیرے والی آنٹی یا اس کے وارثوں کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کی لڑکی بھاگ گئی ہے۔

اس پیشے میں آنے والی کئی لڑکیاں نشہ کرنے لگتی ہیں۔ پیشے کا خوف اور تھکن ان لڑکیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ زنگی کی تلخیوں کو بھلانے کے لیے نشے کا سہارا لیں۔

ڈیروں پر گردش کرنے والی ان عبرت ناک کہانیوں کے باوجود پاکستان میں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی عورتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور کنیز فاطمہ کے بقول ہر گلی محلے میں ایسے ڈیرے ہیں جہاں لڑکیاں جسم فروشی کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق جب سے وہ اس پیشے میں آئی ہے اس میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا ہے اور اتنی کم سن لڑکیوں کو خود ان کے ورثاء لے کر آتے ہیں کہ ’میرا بھی دل دہل جاتا ہے۔‘

پاکستان میں کہ جہاں بڑھتی ہوئی غربت دہشت گردی اور خود کش حملوں کا ایک سبب کہی جاتی ہے وہاں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی لڑکیوں میں اضافہ بھی غربت کا ہی شاخشانہ ہے۔

 http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2009/07/090724_call_girls_as.shtml

)منا رانا(