آج کل ویڈیو گیمز میں چیٹ کوڈز کا استعمال ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور یہ بہت زیادہ منافع بخش بنتا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں ہیکرز ویڈیو گیمز کے چیٹ کوڈز پیشہ وارانہ طور پر تیار کر رہے ہیں اور اسے ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کو بیچ رہے ہیں۔
یہ چیٹس ایسے کوڈز ہوتے ہیں جو ویڈیو گیم کھیلنے والی کھلاڑی کی گیم میں صلاحیتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ اب ان چیٹ کوڈز کا استعمال ویڈیو گیمز کے پیشہ وارانہ مقابلوں میں بھی ہو رہا ہے۔
ایک نو عمر ہیکر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کمپیوٹر گیمز کو ہیک کر کے اور ان کے چیٹ کوڈز آن لائن بیچ کر ماہانہ ہزاروں ڈالر کما سکتا ہے۔
یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے چین میں چار پیکرز کو کمپیوٹر گیمز کے چیٹ کوڈز بنانے اور بیچنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
لوکاس (یہ ان کا اصل نام نہیں) کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور وہ برسوں سے مختلف کمپیوٹر گیمز کے کوڈز ہیک کر رہے ہیں۔
17 سالہ ہیکر آج کل ایک نہایت مقبول کمپیوٹر گیم ٹوم کلانسی رینبو سکس سیج کے چیٹ کوڈز فروخت کر رہے ہیں۔
اس کمپیوٹر گیم کے دنیا بھر میں 50 ملین کھلاڑی ہیں جبکہ دن کے ایک مصروف حصہ میں اس آن لائن گیم کو تقریباً ڈیڑھ لاکھ صارفین کھیل رہے ہوتے ہیں۔
بہت سے نام نہاد ’فرسٹ پرسن شوٹرز‘ کی طرح یہ ویڈیو گیمز انتہائی مسابقتی ہیں اور ان میں ٹیموں کی صورت میں ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔
لوکاس کے چیٹ کوڈز خریداروں کو کمپیوٹر گیم میں موجود دیواروں کے پار اپنے دشمنوں کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں اضافی طاقت سے گولی مارنے اور گیم میں ان کی بہتر گرفت بنانے کی صلاحیت دیتے ہیں۔
’جب میں نے پہلی مرتبہ چیٹ کوڈز تیار کیے مجھے لگا یہ تو بہت اچھا ہے۔ پہلے میں یہ صرف شوقیہ کرتا تھا لیکن بعد میں مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اس سے بہت پیسے کما سکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے خریدار ہمارے چیٹ کوڈز استعمال کرنے کی وجہ سے اس کمپیوٹر گیم کے بڑے کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہیں۔ میں نے چند ویڈیو گیمز کے کھلاڑیوں کی جانب سے ہماری تیار کردہ چیٹ کوڈز کو بڑے مقابلوں میں استعمال کرنے کے متعلق کہانیاں سنی ہیں۔‘
یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا ہے جب الیکٹرانک سپورٹس کی صنعت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے کمپیوٹر گیمز کے بڑے مقابلوں میں کھلاڑیوں کو باقاعدہ طور پر بڑی انعامی رقوم دے کر انھیں ارب پتی بنا رہی ہے۔
اس کھیل میں بہت کچھ داؤ پر ہے اور گیمنگ انڈسٹری ان مقابلوں میں چیٹ کوڈز کی روک تھام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔
اکتوبر 2018 میں کمپیوٹر گیم کاؤنٹر سٹرائیک کے عالمی مقابلے کے دوران ایک پیشہ ور کھلاڑی چیٹ کوڈ استعمال کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔
لیوکاس کہتے ہیں ’ظاہر ہے جب کھلاڑی ان مقابلوں میں ہمارے چیٹ کوڈز استعمال کرتے ہیں تو ہم اس کی حمایت تو نہیں کرتے لیکن ہم ان کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ ہمارے خریداروں کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔‘
لوکاس کے پاس سینکڑوں ایسے خریدار ہیں جو ان کے چیٹ کوڈز کے پیکجز روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ کے بنیاد پر خریدتے ہیں۔ چیٹ کوڈز کے ماہانہ پیکج کی قیمت تقریباً 70 ڈالر ہے۔
درجنوں خریدار کھلاڑی، ان سے چیٹ کوڈز خریدنے کے لیے قطار میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے متحرک کھلاڑیوں کی تعداد کم رکھتے ہیں تاکہ اس کمپیوٹر گیم کمپنی اور اس کے مصنوعی ذہانت کے نظام سے بچ سکیں جو ہر وقت ہیکرز اور چیٹ کوڈز بنانے والوں کی تلاش میں رہتا ہے۔
جون میں ایک چیٹ کوڈز بنانے والی کمپنی کو بند ہونا پڑا تھا جب پوکے مون گو بنانے والی کمپنی نیانٹک نے اس کے خلاف کاپی رائٹس خلاف ورزی پر قانونی مقدمہ دائر کیا تھا۔
کمپیوٹر گیم رینبو سکس بنانے والی کمپنی اوبی سافٹ کا کہنا ہے ’وہ چیٹ کوڈز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ان کی گیم کھیلنے والے کھلاڑیوں کو گیم کھیلنے کا بہترین تجربہ فراہم کر سکیں۔ ہم نے مختلف طریقے کار استعمال کیے ہیں تاکہ ممکنہ چیٹ کوڈز بنانے والوں کا علم ہو سکے اور انھیں ان کوڈز کو استعمال کرنے پر قرار واقعی سزا دی جا سکے۔‘
دیگر کمپیوٹر گیمز بنانے والے جیسا کہ برائنا وو جو امریکہ میں جائنٹ سپیس کیٹ سٹوڈیو چلاتی ہیں کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر گیمز میں چیٹ کوڈز کا استعمال ان کا کام مزید مشکل بنا رہا ہے۔
’یہ بہت پریشان کن ہے۔ وہ لوگ جو چیٹ کوڈز بنا رہے ہیں وہ گیمز بنانے والوں سے ان گیمز کے نئے درجوں اور کھیل کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہونے والا تخلیقی وقت اور وسائل چھین رہے ہیں۔‘
اور ان چیٹ کوڈز سے صرف بڑی گیمز ہی متاثر نہیں ہوئی ہیں۔
ارڈیتو کی جانب سے سنہ 2018 میں کیے گیے گیمرز کے بین الاقوامی سروے کے مطابق چیٹ کوڈز نے متعدد مواقع پر 60 فیصد صارفین کے کھیل کے تجربے پر منفی اثر ڈالا ہے۔
اسی سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 37 فیصد کھلاڑیوں نے آن لائن گیمز میں چیٹ کوڈز استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔
آن لائن گیمز کھیلنے والے ایک پیشہ ور کھلاڑی ایمی، جن کا آن لائن نام بیمی لیف ہے کا کہنا تھا کہ چیٹ کوڈز لاکھوں کھلاڑیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
’ان کے لیے ممکن ہے کہ یہ ہلکی پھلکی تفریح ہو لیکن باقی سب ہار رہے ہیں۔ باقیوں کو اس کھیل میں بالکل بھی مناسب موقع نہیں مل رہا۔ اور بعض اوقات ان افراد کے لیے ایک گیم کی کوئی سٹیج مکمل کرنے میں 30 منٹ بھی لگ جاتے ہیں، بنیادی طور پر کھیل کے وہ 30 منٹ جو ضائع ہو گئے۔‘
لوکاس کا کہنا ہے کہ ان کا اور ان کی ٹیم کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ چیٹ کوڈز بنانا اور بیچنا بند کر دیں گے۔
وہ دیگر کمپیوٹر گیمز کے چیٹ کوڈز بھی بنانا چاہتے ہیں جب تک کہ وہ پکڑے نہ جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاہگ ان کا اور اس جیسے دیگر افراد کا کاروبار بنائے رکھیں گے۔