’عجیب عجیب باتیں سننے کو ملیں، کسی نے کہا عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے، دکھنے میں بہت اچھی نہیں ہے یا لڑکا ایم بی اے کیے ہوئے ہیں تو آپ انھیں بزنس کروا دیں۔‘
یہ کہنا ہے عائشہ احد کا۔ اپنے لیے شریک حیات ڈھونڈنے کے عمل میں نہ صرف عائشہ بلکہ ان کے والدین بھی ایک اذیت سے گزرے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں ’بہت دفعہ ایسا ہوا کہ لوگ آتے، دیکھتے اور اٹھ کے چلے جاتے۔ بعض دفعہ اچھی بھی لگ گئی تو بعد میں بولتے تھے کہ استخارہ صحیح نہیں آ رہا۔ بہت سال یہ سب چلتا رہا اور میں بہت تنگ آ گئی تھی۔‘
عائشہ وہ پہلی لڑکی نہیں تھیں اور نہ ہی آخری ہوں گی جنھیں رشتہ کروانے والی آنٹیوں کے ذریعے لائے گئے لوگوں کی باتوں اور فرمائشوں کی وجہ سے ذہنی تکلیف کے ساتھ ساتھ مالی بوجھ کا بھی سامنا ہوا ہو۔
لیکن دیگر افراد کے برعکس عائشہ نے اپنا رشتہ ڈھونڈنے کا بیٹرا خود اٹھا لیا اور اپنی پروفائل بنا کر ایک آن لائن فورم ’سکپ دا رشتہ آنٹی‘ پر ڈال دی۔
کینیڈا میں مقیم اریبہ عاطف نے گیارہ ماہ پہلے فیس بُک پر’سکپ دا رشتہ آنٹی‘ نامی گروپ بنایا جس کا مقصد غیر شادی شدہ نوجوانوں کو خود اپنے شریک حیات ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
اریبہ کہتی ہیں کہ ’میں رشتہ آنٹیوں کے خلاف نہیں ہوں لیکن وہ لڑکیوں کی جسامت یا شخصیت سے متعلق جس طرح کے تبصرے کرتی ہیں یا کہتی ہیں کہ میک اپ کر کے آئیں۔ میں اس چیز کے خلاف ہوں۔‘
واضح رہے کہ روایتی طور پر لڑکے لڑکیوں کی شادیوں کے لیے لوگ رشتہ کروانے والی خواتین سے رجوع کرتے ہیں جو اپنی خدمات کے عوض ہزاروں سے لے کر لاکھوں روپے تک وصول کرتی ہیں۔
جدید دور میں رشتے کروانے کے اسی بزنس نے آن لائن شادی سروسز کی شکل اختیار کر لی ہے اور یہاں بھی لوگوں سے سبسکپرشن فیس کے ساتھ مختلف پیکجز پر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔
اریبہ کے خیال میں رشتہ آنٹی کلچر کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی تضاد مزید بڑھ رہا ہے۔
’جو بہت امیر خاندان ہوتے ہیں ان کو بہت اچھے رشتے دکھائے جاتے ہیں البتہ جنھوں نے نسبتاً کم پیسے دیے ہوں یا جو سماجی اور معاشی لحاظ سے کمزور ہوں انھیں برسوں تک مشکل سے گزرنا پڑتا ہے۔‘
’سکپ دا رشتہ آنٹی‘ پر فی الوقت 2750 ممبران موجود ہیں جن میں 70 فیصد تعداد خواتین کی جبکہ تیس فیصد مردوں کی ہے۔ یہاں اریبہ سمیت پانچ نگرانی کرنے والے موجود ہیں جو پروفائلز کی اچھی طرح چھان بین کے بعد انھیں کسی فیس کے بغیر اپ لوڈ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
اس گروپ کی وجہ سے 11 ماہ کے دوران 38 جوڑے اپنے جیون ساتھی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے احد مرزا اور عائشہ کی ملاقات ’سکپ دا رشتہ آنٹی‘ گروپ کے ذریعے ہی ہوئی۔
عائشہ سے بات چیت سے پہلے وہ اس گروپ میں ہی سات لڑکیوں سے بات کر کے دیکھ چکے تھے لیکن عائشہ اور ان کی دلچسپیاں اور مشغلے کافی ملتے جلتے تھے جیسا کہ جانوروں خصوصاۙ بلیوں سے رغبت۔
احد نے اپنی پروفائل پر شریک حیات کی تلاش میں دشواری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’بریانی پکانا آسان ہے جبکہ سول میٹ (شریکِ حیات) ڈھونڈنا مشکل۔‘
احد کے خیال میں رشتہ تلاش کرنے کے ’روایتی طریقے کافی غیر انسانی ہیں جس سے آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آیا دوسرا شخص کس مزاج کا مالک ہے‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لڑکی آئے، چائے لے کر آپ کے سامنے سے گزرے، مویشی کی طرح یا گائے کی طرح اسے چرایا جائے۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے۔‘
اریبہ عاطف کا خیال ہے کہ ایک آن لائن فورم ہونے کی وجہ سے ’سکپ دا رشتہ آنٹی‘ پر لوگوں کو عزت نفس کے مسائل نہیں ہوتے جو کہ روایتی ڈرائنگ روم سیٹنگ میں اجنبی لوگوں کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد عام ہیں۔
’اس فورم پر لوگ اپنے یا اپنی زندگی کی اہم چیزوں کے بارے میں پہلے سے بتا دیتے ہیں تاکہ دوسرا بندہ پہلے سے وہ پڑھ لے اور اگر اس میں انھیں کوئی چیز غیر مناسب لگتی ہے تو بے شک وہ کسی دوسری پروفائل کی طرف چلے جائیں اور اس طرح جس پارٹی کو آپ نے مسترد کر دیا یا پسند نہیں کیا، ان کو پتا نہیں چلتا۔‘
وہ کہتی ہیں ’یہاں پر لوگ اپنی یا اپنے پیاروں کی پروفائلز پوسٹ کرتے ہیں اور اگر کسی کی پروفائل اچھی لگتی ہے تو ’انٹریسٹڈ‘ لکھ کر بات چیت آگے بڑھانے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔‘
اریبہ عاطف چاہتی ہیں کہ شادی جیسے بندھن میں جڑنے والے دونوں افراد شروع سے اس عمل کا حصہ ہوں چونکہ انھیں اپنی دلچسپیوں اور خواہشات کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’اب وقت آ گیا ہے کہ نوجوان اپنے جوڑے خود ڈھونڈیں۔ ٹیکنالوجی کو آپ اچھے کام کے لیے استعمال کریں۔‘
رشتوں سے متعلق فیس بُک پر ’سکپ دا رشتہ آنٹی‘ کے علاوہ کئی گروپس موجود ہیں۔ عموماً رشتہ ڈھونڈنے کے معاملے میں خواتین آگے آگے ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کام کو عورتوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی بارے میں بات کرتے ہوئے احد نے بتایا کہ عام طور پر لڑکے اپنے رشتے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتے اور شرماتے ہیں۔
’ان آن لائن گروپس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے خود بات کر لیتے ہیں۔‘
رشتہ ڈھونڈنے میں مددگار سکپ دا رشتہ آنٹی اور ان جیسے دیگر آن لائن گروپس کو مشورہ دیتے ہوئے عائشہ کہتی ہیں ’پروفائلز تھوڑی محدود ہونی چاہییں اور اس میں سے انسان کی شخصیت جھلکنی چاہیے کہ وہ کس قسم کا انسان ہے۔ باقی جو بنیادی چیزیں ہیں وہ بعد میں آپ کال کے ذریعے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ بھئی کیا آپ کام کرتے ہو؟‘
اریبہ بتاتی ہیں کہ چند رشتہ آنٹیز نے غلط بیانی کر کے یہ گروپ جوائن کر لیا تھا لیکن لوگوں کی شکایات کے بعد انھیں گروپ سے نکال دیا گیا۔
’اس گروپ پر کسی رشتہ آنٹی کو آنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ کمرشل مقاصد کے لیے لوگوں کی انفارمیشن اِدھر اُدھر شیئر کرتی ہیں۔