کیا آپ بچپن میں جسمانی، جذباتی یا جنسی تشدد کا شکار ہوئے ہیں؟


فائزہ کا خط
۔ ۔
محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب!
میں آپ کے، ہم سب، میں چھپنے والے کالم کچھ عرصہ سے تواتر سے پڑھ۔ رہی ہوں اور گاہے بگاہے ان پر اپنی رائے بھی دیتی رہتی ہوں۔ مجھے ان کالموں سے بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا بالخصوص جب مختلف لوگ آپ سے مختلف ذاتی، سماجی، اور روحانی مسائل پر آپ کی رائے طلب کرتے ہیں تو وہ آپ کے جوابات سے ہمیں بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ماضی قریب میں مجھے اپنی ذاتی زندگی میں ایسے مکالموں سے بہت رہنمائی ملتی رہی ہے آج اسی سلسلے میں ایک اہم مسئلے کی بابت آپ کی رائے کی منتظر ہوں۔
یہ مسئلہ بنیادی طور پر تو ان بچوں کے بارے ہے جو بچپن میں نا مساعد حالا ت سے گزرے ہوں اور مختلف نوع کی سماجی مذہبی اور جنسی زیادتیوں اور تشدد کا شکار رہے ہوں میں چاہتی ہوں کہ آپ ان حالات کا بچوں کی شخصیت پر ہونے والے نفسیاتی اثرات پر لکھیں۔ نہ صرف بچپن بلکہ ایسے افراد کی بقیہ زندگی پر ایسے واقعات کا کیا اثر پڑتا ہے کیا وہ عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں اور وہ کیسے ایک نارمل زندگی گزارنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں اور آپ اس پر بھی روشنی ڈالیں کہ ان بچوں کو اپنے آنے والی زندگی میں جذباتی، سماجی اور معاشی لحاظ سے کن کن مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے مثلا جذباتی تشدد میں ایک بچے کو اس کی رنگ شکل اور ذات پات کی بنا پر مذاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے آج کل شاید bullying کا نام بھی دیا جاتا ہے بعض اوقات کئی بچے ملکر کسی ایک بچے کا مذاق اڑاتے ہیں
جنسی ہراسانی جس پر دور جدید میں کافی بحث بھی ہو رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ عام بچے کی زندگی انتہا ئی غیر محفوظ ہے جو چچا ماموں پھوپھا ایسے رشتے جنھیں کبھی تحفظ کی ضمانت سمجھا جا تا تھاآج اپنی حیثیت اور وقار کھو رہے ہیں بے اعتباری اور شک ہر رشتے میں نمایاں ہیں۔ جذباتی تشدد کے ساتھ ساتھ بچے نہ صرف جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں کئی ایک بچوں کوجسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات بچوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے کل ہی ایک خبر بی بی سی نیوز پر پڑھی کہ ایک بچے کی زیادتی کی باقاعدہ ویڈیو بنائی گئی اذیت اور بے عزتی کے خوف کے باعث اس چودہ برس کے بچے نے خود کشی کر لی ایسے درد ناک واقعات پاکستان میں عام سننے میں ملتے ہیں اور ایسے لوگ اپنی زندگیاں انجانے خوف کے سائے تلے بسر کرتے ہیں اس سے کسی بچے کا جو جذباتی استحصال ہوتاہے اس کا اس کی شخصیت پر کیا اثر ہوتا ہے؟
اس طرح۔ وہ کیسے ایک عام انسان کی طرح صحتمندانہ طرز زندگی سے روشناس ہو سکتے ہیں اور کیسے ایک بھر پور اور سرگرم سماجی اور فیملی لائف گزار سکتے ہیں اسی تناظر میں ایک عام بچی کی مختصر علامتی کہانی۔
ثمینہ ایک چھوٹی سی بچی ہے جو اپنی بہن فروا کے ساتھ زیادہ تر وقت گزارتی ہے حالانکہ دونوں کا مزاج مختلف ہے فروا بہت اچھی اردو بولتی ہے جبکہ ثمینہ کو اچھی تو کیا تقریبا اردو بولنی ہی نہیں آتی ایک دن بڑے بھائی نے ثمینہ کو اردو بولنے کا کہا تو بولی ”کیا۔ وا“ اس پہ وہ بہت ہنسے اور وہ یہ بات ہر کسی کو بتاتے اور سبھی بہت ہنستے ایسے میں ثمینہ کا شرمندگی سے برا حال ہو جا تا۔ ثمینہ عموماً اپنی ماں کی بازو پہ سر رکھ کے سوتی اسے ماں کے بازو سے بہت پیار تھا اور ان کی غضب ناک آنکھوں سے بہت خوف بھی آ تا تھا ایک رات ماں کے ساتھ مزے سے سو رہی تھی کہ اچانک اونچی آوازوں سے آنکھ کھل گئی اماں ابا بہت اونچا بول رہے تھے اس سے پہلے کہ کچھ سمجھ آتی اماں نے دونوں ہاتھوں سے اسے بری طرح پیٹ ڈالا اور ابا نے اماں کو۔ وہ شاید اماں کا گلہ دبا رہے تھے یا دبانے کی ایکٹنگ کر رہے تھے کہ ساتھ والے کمرے سے جمیل انکل جنھوں نے ابا کو تبلیغی جماعت سے متعارف کروایا تھا نکلے اور ابا کا ہاتھ پکڑ کے لے گئے
ابا کے تبلیغ پہ جانے سے گھر پر بہت آفت آن پڑی تھی۔ بڑی بہن جو کالج کی طالبہ تھیں ان کا رشتہ ایک ان پڑھ سے کر دیا گیا۔ ابا چونکہ سرکاری ملازم تھے اور ایک اچھی پوسٹ پہ بھی تھے اسی لیے ہمیں بہت اچھا سرکاری بنگلہ نما گھر ملا ہوا تھا۔ ثمینہ کا بچپن معاشی لحاظ سے تو ٹھیک تھا مگر جذباتی لحاظ سے بہت مشکل تھا اس کی عمر ابھی سکول جانے کی بھی نہ تھی کہ ایک انتہائی تاریک رات میں کسی اجنبی کی سائیکل کے آگے والے حصے پہ بیٹھی تھی پھر ویرانہ تھا اندھیرا تھا وحشت تھی سانس نہ اندر جاتی تھی نہ باہر ہی آ پا رہی تھی لگتا ہے کہ آج تک وہ چیخ خوف کے مارے اس کے اندر دبی ہوئی۔
وہ کسی کو کچھ کہہ نہیں پائی مگر بہت بیمار رہتی ہر جگہ سے خوف آتا تھا بڑے بہن بھائی بھی اکثر مذاق کا نشانہ بناتے طرح طرح کے نام رکھتے اسے کس قدر شرمندگی ہو تی تھی بس۔ پھردینی تعلیم کے لیے مدرسے بھیج دیا گیا اسے واقعتا یہ گمان ہونے لگا تھا کہ یہ والدین میرے نہیں یا میں ان کی بیٹی نہیں جمعے کی چھٹی کے بعد ہفتے کی صبح جب واپس ہوسٹل جانا ہوتا تھا تو آنسو سارے راستے بہتے تھے پھر اپنی کلاس جو دوسری منزل پہ تھی اس کی کھڑکی سے لگی دیر تک اداس نظروں سے گاڑیوں کو آتا جاتا دیکھتی رہتی!
خیر اب ثمینہ بڑی ہو گئی ہے چار بچوں کی ماں بھی بن چکی ہے مگر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت کے لیے کچھ حصے بچپن میں ہی کہیں کھو گے ہیں۔ جنھیں وہ تلاش کرنا چاہتی ہے وہ اپنے اندر کے خوفزدہ بچے کی مسکراہٹ واپس لانا چاہتی ہے اور یہ جاننا چاہتی ہے کہ نفسیاتی علاج اس میں کیسے مددگار ہو سکتا ہے۔ فائزہ
۔ ۔ ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
۔ ۔
محترمہ فائزہ صاحبہ! سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ، ہم سب، پر میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتی ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتی ہیں۔
آپ نے اپنے خط میں ایک ایسے مسئلے کی نشاندہی کی ہے جس پر گفتگو کرنے سے مشرق میں بہت سے لوگ گھبراتے، شرماتے اور ہچکچاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ایک منافق معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں لوگ سچ کہنے اور سننے کے لیے ابھی پوری طرح تیار نہیں۔ وہ اس بات سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘ ۔ اس موضوع پر مغرب میں ماہرینِ نفسیات نے ضخیم کتابیں لکھی ہیں میں یہاں چند آرا اختصار سے پیش کروں گا۔
وہ بچے جنہیں اپنے بچپن میں اپنے والدین اور بزرگوں سے پیار اور محبت ملنے کی بجائے جسمانی جذباتی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے تجربات سے ان کی شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔
ایسے تجربات کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ ان کے اندر احساسِ کہتری پیدا ہوتا ہے اور وہ خود کو دوسروں سے کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ایسے تجربات کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ انہیں ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ لوگ انہیں دھوکہ دیں گے ان کے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے اور اگر وہ اعتماد کرتے ہیں تو ایسے لوگوں پر جن پر اعمتاد نہیں کرنا چاہیے۔
ایسے تجربات کا تیسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ انہیں محبت، پیار اور اپنائیت کے جذبات لینے اور دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے رشتے متاثر ہوتے ہیں دوستی کے بھی رومانوی بھی ازدواجی بھی اور خاندانی بھی۔ بعض لوگ اپنے جذباتی اور رومانوی رشتے نبھا نہیں پاتے۔
ایسے تجربات کا چوتھا اثر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بچپن میں تشدد کا نشانہ لینے والے جوان ہو کر خود تشدد کرنے لگتے ہیں کیونکہ لاشعوری طور پر وہ بدلہ لے رہے ہوتے ہیں۔
ایسے تجربات کا پانچواں اثر یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی شخصیت میں غصہ در آتا ہے اور وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنوں اور بیگانوں سے وجہ بے وجہ لڑتے رہتے ہیں۔ لڑنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
بعض تو PTSD۔ POST TRAUMATIC STRESS DISORDER کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں بچپن کے تشدد کے بارے میں ڈراؤنے خواب آنے لگتے ہیں اور وہ راتوں کو سکون سے سو نہیں سکتے۔ بعض اینزائٹی اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
محترمہ فائزہ صاحبہ!
پچھلی صدی میں سائنس، طب، نفسیات اور سائیکوتھیریپی کے علوم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب ماہرینِ نفسیات ایسے لوگوں کا کامیاب علاج کر سکتے ہیں۔
میرے کلینک میں جو لوگ ایسے مسائل لے کر آتے ہیں میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ایک ڈائری رکھیں اور ماضی کے پریشان کن اور تشدد بھرے واقعات کے بارے میں لکھیں اور تھیریپی میں مجھے اپنی ڈائری کے اوراق سنائیں۔ مریض جب ایک عاقل و بالغ انسان ہو کر بچپن کے واقعات لکھتے ہیں تو اس سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور جب وہ تھیریپسٹ کو سناتے ہیں تو اس سے وہ تھیرپسٹ پر اعتماد کرنا سیکھتے ہیں۔ اس طرح ان کے ماضی کے زخم مندمل ہونے شروع ہوتے ہیں اور وہ ایک نئی زندگی شروع کر سکتے ہیں۔
بعض مریضوں کو تھیرپی کے ساتھ ساتھ ادویہ کی بھی ضرورتت ہوتی ہے تا کہ ڈیپریشن اور اینزائٹی میں کمی آئے۔
ہم اپنے کلینک میں مریضوں کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی بلاتے ہیں اور ان سب کو ذہنی صحت کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔
بعض مریضوں کو گروپ تھیرپی کی بھی ضرورت پڑتی ہے تا کہ وہ دوسرے مریضوں کی کہانیوں سے کچھ سیکھ سکیں۔
ہم اپنے کلینک میں
COMBINATION THERAPY۔ INDIVIDUAL، FAMILY، GROUP THERAPY
استعمال کرتے ہیں۔
اگر کسی مریض کو ایک قابلِ اعتبار اور قابلِ اعتماد تجربہ کار تھیرپسٹ مل جائے تو ایک یا دو سال کی تھیریپی سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور مریض اپنے دکھوں کو سکھوں میں بدل سکتے ہیں۔
اب ادویہ، تعلیم اور تھیریپی medications، education and psychotherapy سے ایسے مسائل پو قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم سب کو اپنے دوستوں اور عزیزوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تا کہ وہ جسمانی مسائل کی طرح اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں تھیریپسٹ سے مشورہ کریں اور اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔
خوش رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ہم میں سے ہر انسان اپنی خوشی کا خود ذمہ دار ہے۔ اگر ہم خود خوش رہیں گے تو دوسروں کو بھی خوش رکھ سکیں گے۔
ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناتے میں کوشش کرتا ہوں کہ انسانی نفسیات کی تعلیم عام ہو تا کہ ہماری قوم کے زیادہ سے زیادہ لوگ ایک خوشحال اور صحتمند زندگی گزار سکیں تا کہ ہم ایک پرسکون معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ یہ ہم سب کی انفرادی اور سماجی ذمہ داری ہے۔
’ہم سب‘ پر کالم لکھنا اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دینا اسی خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے۔
خط لکھنے اور سوال پوچھنے کا شکریہ۔
مخلص۔
ڈاکٹر خالد سہیل
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔