مصنف: ڈاکٹر خالد سہیل۔ رخسانہ فرحت
رخسانہ فرحت کا خط
محترم ڈاکٹر خالد سہیل
اسلام و علیکم!
اسلام و علیکم!
امید ہے کہ وبا کے اس موسم میں جب پوری دنیا سماجی تنہائی کا شکار ہے، آپ اپنے گرین زون میں خوش وخرم زندگی گزار رہے ہوں گے۔ دعا ہے کہ آپ اس وبا سے محفوظ رہیں اور ہم جیسے لوگوں کو ریڈ زون سے نکلنے کا راستہ دکھاتے رہیں۔ بہت عرصے سے آپ کو خط لکھنے کا سوچ رہی تھی مگر میری ازلی سستی میری راہ کی دیوار بنی رہی۔ آج اخر کار میں نے اس دیوار کو پار کر ہی لیا ہے۔
آج کل پوری دنیا وبا کے بحران سے گزر رہی ہے، عجب بیماری ہی جس کا علاج تنہائی ہے۔ آپ ماہر نفسیات ہیں یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ”تنہائی“ بذات خود کتنی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس وبا کے معاشیات پر جو اثرات ہو رہے ہیں وہ الگ بحث ہے لیکن اس سے انسانی نفسیات پر جو اثرات ہو رہے ہیں ان سے نمٹنے کا راستہ کیا ہے؟
دنیا میں کئی طرح کے لوگ ہیں، قرنطینہ مختلف لوگوں پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے درمیان ہیں۔ کچھ لوگ دیار غیر میں بالکل اکیلے ہیں اور کچھ غریب الوطن اپنی فیملی کے ساتھ رہ کر بھی اکیلے ہیں۔ جو لوگ کسی نفسیاتی بحران کا شکار نہیں ہیں وہ بھی اس تنہائی میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے ہی کئی طرح کے نفسیاتی عارضوں انزائٹی، ڈپریشن کا شکار ہیں یا زندگی کے کسی موڑ پر ان بیماریوں سے نبرد آزما ہو چکے ہیں ان کے لئے اس تنہائی میں رہنے کا قرینہ کیا ہو؟
فقط بالغ ہی نہیں، بچے بھی اس قرنطینہ سے بہت متاثر ہو رہے ہیں۔ چوبیس گھنٹے چھوٹے سے گھر میں رہنا، وہی لگی بندھی روٹین، کھانا، سکرین اور سونا۔ مختلف سرگرمیاں کرانے کے لئے سامان کی عدم دستیابی اور وقت کی فراوانی۔ امید ہے آپ میرے سوالات سمجھ گئے ہوں گے اور آپ چاہیں تو ان کے جوابات ہم سب پر آرٹیکل لکھ کر دے دیں تاکہ باقی لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔
آپ کی دوست
رخسانہ فرحت
رخسانہ فرحت
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
محترمہ رخسانہ فرحت صاحبہ!
آپ نے جس خلوص اور اپنائیت سے خط لکھا ہے اورمیرے گرین زون فلسفے کا ذکر کیا ہے اس کے لیے میں آپ کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
آپکا خط پڑھ کر مجھے امریکی ماہرِ نفسیات ہیری سٹاک سالیوان یاد آئے جو فرماتے تھے کہ انسان کا سب سے بڑا نفسیاتی مسئلہ احساسِ تنہائی ہے اینزائٹی اور ڈیپریشن سے بھی بڑا۔
انسان عام حالات میں تنہا رہنے اور احساسِ تنہائی کی اذیت سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتاہے۔ اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ رہنا، شادی کرنا، اور خاندان بنانا بھی اسی احساس سے بچنے کا ایک طریقہ ہے لیکن جلد یا بدیر اسے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر چند چبھتے ہوئے سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے۔ کرونا وائرس کے کرائسس نے اس ازلی و ابدی انسانی مسئلے کو سب کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے جس سے فرار حاصل کرنا اب مشکل ہو گیاہے۔
انسان تنہائی سے کیوں خوفزدہ رہتا ہے؟
وہ اسے عذاب کیوں سمجھتا ہے؟
وہ اسے عذاب کیوں سمجھتا ہے؟
انسان جب اکیلا ہوتا ہے تو اسے اپنی تشنہ خواہشوں، اپنی نا آسودہ آرزوؤں اور اپنے ماضی کے پچھتاووں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے اس سوال کا جواب دینا پڑتا ہے کہ ”کیا میں اپنا سب سے اچھا دوست ہوں یا سب سے بڑا دشمن؟“
اکثر لوگوں کے لیے یہ احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی بیکار گزار دی اور وہ ایسا سب کچھ نہ کر پائے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ جب ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو ان کے دل میں احساسِ زیاں ابھرتا ہے جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ کرونا وائرس کا بحران ایک مکس بلیسنگ ہے۔ جہاں ہمیں معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے وہیں ہمیں اپنی ذات کی تلخ اور شیریں سچائی کا سامنا بھی ہے۔ میری نگاہ میں ہمیں یہ وقت ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے صرف کرنا چاہیے
ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
ہم کن لوگوں سے محبت کرتے ہیں؟
ہم اپنے چاہنے والوں اور انسانیت کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ہم کن لوگوں سے محبت کرتے ہیں؟
ہم اپنے چاہنے والوں اور انسانیت کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
کینیڈا میں لاک ڈاؤن کے باوجود وہ لوگ روز کام پرجاتے ہیں جنہیں کینیڈا کی حکومت نے ضروری خدمات قرار دیا ہے۔ ان میں ڈاکٹر، نرسیں، سوشل ورکر، فارمسسٹ کے علاوہ گروسری سٹور میں کام کرنے والے بھی شامل ہیں تا کہ عوام تک ادویہ کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا بھی پہنچتی رہیں۔
انسان جب خدمتِ خلق کرتا ہے اور دوسروں کو ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتا ہے تو اسے اپنے مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ جب انسان دوسروں کو امید دلاتا ہے تو اسے خود بھی حوصلہ ہوتا ہے۔
اس بحران میں سب سے زیادہ پریشانی سینیر سٹیزنز بزرگ اور ضعیف لوگوں کو ہے جو وائرس سے فوت ہو سکتے ہیں۔ کینیڈا میں ہنگامی حالات میں ایسی وولنٹیر انجمنیں بن گئی ہیں جنہیں بزرگ فون کر سکتے ہیں اور وہ ان کے لیے کھانے پینے کے لیے سبزیاں پھل اور گوشت خرید کر ان کے گھر تک پہنچا سکتے ہیں۔
جب انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر کسی بحران سے گزرتے ہیں تو بعض انسانوں کی شخصیت کا تاریک رخ اور بعض کا روشن رخ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ بعض دوسروں کو اذیت دے کر اور بعض ان کی خدمت کر کے خوش ہوتے ہیں۔
جب انسان تنہائی میں زیادہ وقت گزارتے ہیں تو وہ نئے مشاغل بھی تلاش کرتے ہیں۔ بعض پرانی کتابیں پڑھتے ہیں اور بعض نئی فلمیں دیکھتے ہیں۔ بعض اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ پہلی دفعہ کھیل رہے ہیں اور ان کی معصومانہ کہانیاں غور سے سن رہے ہیں۔
وہ خاندان جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتے انہیں اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے کس حد تک بیزار ہو گئے ہیں۔ میں کئی ایسے خاندانوں کا علاج کر رہا ہوں جن میں وبا کے دنوں میں گھر رہنے کی وجہ سے لڑائیاں جھگڑے بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وبا کے ختم ہوتے ہی وہ علیحدہ ہو جائیں گے اور میری ایسے لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہو رہی ہیں جنہیں پہلی دفعہ اپنے خاندان کی محبت، افادیت اور اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے۔
وبا کا دور ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے خاندان سے ساتھ ایک نیا رشتہ قائم کریں اور اگر ہمارے خون کے رشتے محبت سے عاری ہو چکے ہیں تو ہمیں اپنے دوستوں کا ایک حلقہ بنانا ہوگا جسے میں فیمیلی آف دی ہارٹ کہتا ہوں۔
میری خواہش ہے کہ ہم سب کنول کا پھول بن کر رہیں جو دلدل میں رہ کر بھی اس سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ ہم اپنے ساتھ ایک نیا رشتہ قائم کریں تا کہ ہم اپنے سب سے اچھے اور مخلص دوست بن سکیں اور اگر ممکن ہو تو کسی نہ کسی حوالے سے انسانیت کی خدمت کرسکیں۔ یہ آزمائش کا دور بھی گزر جائے گا اور کچھ کھٹی میٹھی یادیں چھوڑ جائے گا۔
میں اب بھی ہر روز اپنے کلینک جاتا ہوں اور انٹرنیٹ اور فون کی وساطت سے اپنے گھر بیٹھے مریضوں اور ان کے خاندانوں کا خیال رکھتا ہوں۔ یہ میری انسانت کی خدمت کی ایک عاجزانہ اور درویشانہ کوشش ہے۔