ایک تو سب سے سیانے تھے۔ پہاڑوں پر چڑھنے کا کوئی شوق نہیں، ٹینکوں کے نیچے لیٹنے کی خواہش نہیں تھی۔ سیاست بھی ایسی کرتے تھے جیسے کوئی نیا ساز بجانا سیکھ رہا ہو۔ صحافت بھی ایسے کرتے تھے جیسے کوئی مقدس فریضہ ہو۔
جہاں جاتے ہوئے ہمارے ساتھی صحافیوں کے پر جلتے تھے وہاں سے آپ بڑے پیار سے کہانی نکال لاتے تھے۔
آپ پہلے فیلڈ اور پھر نیوز ڈیسک پر نہ ہوتے تو کبھی پتا نہ چلتا بلوچستان کے کون سے گاؤں سے کون اٹھایا گیا ہے۔
کس یونیورسٹی سے کون غائب ہے اور پاکستان میں منشیات کا بادشاہ کون ہے اور کس کا مہمان ہے۔
محمد حنیف کے دیگر کالم بھی پڑھیے
آپ سے زیادہ کس کو پتا ہوگا کہ اگر بلوچستان میں آپ نوجوان ہیں، یونیورسٹی تک پہنچ گئے تو آپ کی اوسط عمر آدھی رہ جاتی ہے۔
آپ پر کچھ بھی شک ہو سکتا ہے۔ آپ ہو سکتا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف ہوں، علیحدگی پسندوں کو غیر ملکی ایجنٹ سمجھتے ہوں، لیکن ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر بلوچی شاعری پڑھ رہے ہوں تو آپ غائب ہو سکتے ہیں۔
کسی بی ایس او والوں کے ساتھ بیٹھ کر کچہری کی ہو تو آپ برسوں تک کے لیے غائب ہو سکتے ہیں۔
آپ خود کہا کرتے تھے کہ جن مسنگ لوگوں کی لاشیں مل جاتی ہیں ان کے خاندان خوش قسمت ہیں۔ پاکستان میں مسنگ پرسن ہونے سے بڑی کوئی ٹریجیڈی نہیں۔
اور ساجد ایک مہینے سے تم سویڈن میں مسنگ ہو۔ یار دوست ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اگر ساجد نے مسنگ ہی ہونا تھا تو اتنا لمبا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی، یہاں ریاست کے پاس پورا بندوبست موجود تھا۔
لیکن آپ کے اردگرد اتنے لوگ غائب کر دیے گئے تھے کہ آپ کو پتا تھا آپ کی باری کبھی بھی آ سکتی ہے۔ اسی لیے آپ نے ریاست کے کسی تہہ خانے میں مہمان بننے کے بجائے جلاوطنی اختیار کی۔
ساجد آپ کو ہمارا مسنگ ہو جانے والا صحافی بھائی رزاق بگٹی تو یاد ہوگا، جس کی لاش اتنی مسخ ہو چکی تھی کہ اس کے گھر والوں نے بھی نہیں پہچانی۔
تم نے نیوز ایجنسی کے لیے پہلے خبر بھیجی کہ رزاق بگٹی مر گیا۔ پھر ایک خوشی بھری خبر بھیجی کہ مسخ شدہ لاش رزاق بگٹی کی نہیں ہے۔ پھر آخری خبر بھیجی کہ نہیں وہ مسخ شدہ انسان تمھارا دوست رزاق بگٹی ہی ہے۔ پھر تم نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ایک لاش کا ارتقا۔
میں نے وہ مضمون انٹرنیٹ پر ڈھونڈا لیکن تمھاری طرح وہ مضمون بھی مسنگ ہے۔
وہ مضمون دل دہلا دینے والا تھا۔ لیکن اس میں ایک بے ساختہ اور اداس ہنسی بھی چھپی ہوئی تھی۔
تم نے اپنی جوانی میں لیاری کے ایک کمرے کو یاد کیا جو دھوئیں سے بھرا تھا اور جہاں بعد میں مسخ شدہ لاش بن جانے والے رزاق بگٹی نے تمھیں انسانی تہذیب کے ارتقا کے بارے میں ایک مشہور کتاب کا بلوچی زبان میں ترجمہ سنانا شروع کیا۔
اور تمھیں بہت ہنسی آئی کیونکہ اس طرح کا بیان تم نے پہلے بلوچی زبان میں کبھی سنا ہی نہیں تھا۔
ہم سب رزاق کی طرح دن میں صحافت کرتے تھے اور اپنے اندر ایک ناول ایک کتاب، ایک کہانی لیے پھرتے تھے۔
تم نے تو ناول کا ایک چیپٹر لکھ کر اپنے دوست کو بھیج بھی دیا تھا اور مجھے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔
تم نے اپنے آخری پیغام میں سویڈن کی سردی اور طویل راتوں کا ذکر کیا تھا۔ لیکن سنا ہے کہ وہاں پر اب سورج نکل آیا ہے اور لوگ کورونا کے باوجود پارکوں میں آ رہے ہیں۔
تمھارے کچھ چاہنے والے ریاست کی طرف انگلی اٹھائیں گے لیکن ریاست سے معذرت کے ساتھ ریاست کے ہاتھ سخت ضرور ہیں لیکن اتنے لمبے نہیں ہو سکتے۔
ریاست کیچ سے تو بندہ غائب کر سکتی ہے لیکن سویڈن کی یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بھی؟
نہیں نہیں یقیناً تم کسی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئے ہو اور اچھے موسم کا مزہ لے رہے ہو، کوئی اپنی تپسیا کر رہے ہو یا اپنے ناول کا آخری چیپٹر لکھ رہے ہو۔
بچپن میں کوئٹہ سے نکلنے والے مشرق اخبار میں چھوٹا سا اشتہار چھپتا تھا جب گھر کا کوئی فرد گم ہوجاتا تھا یا ناراض ہو کر کہیں چلا جاتا تھا۔ یہ اشتہار کہتا تھا کہ گھر واپس آجاؤ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
ورنہ یار لوگ یہی کہتے رہیں گے کہ ساجد اگر مسنگ ہی ہونا تھا تو پاکستان میں کیا برائی تھی۔