آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا کی وبا اپنے پر پھیلائے بیٹھی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کرونا کے ذریعے ساری دنیا کو اپنے اعمال و کردار پر نظر ثانی کرنے اور یہ سوچنے کا موقع دیا ہے کہ ہم دنیا میں آئے کس لیے تھے اور پڑ کن چکروں میں گئے۔ ایک جانب تو کرونا کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو دوسری جانب اس وبا سے بچنے کے گھروں میں محصور لوگ مختلف ذہنی بیماریوں کا شکار بھی ہورہے ہیں۔ ساتھ ہی روز کا روز کماکر کھانے والے لوگوں کی زندگی بھی دوہرے عذاب سے گزر رہی ہے کہ گھر میں رہیں تو فاقوں سے مریں اور باہر جائیں تو کرونا کا عفریت ان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لے گا یعنی نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورتحال کا سامنا ہے۔
اس ساری صورتحال میں کچھ بندگان خدا ایسے بھی ہیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر گھر گھر راشن پہنچانے کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں لوگوں کا کردار تو قابل تعریف ہے ہی ساتھ کچھ تنظیمیں بھی آفت کے ان دنوں میں اپنا کردار بخوبی نبھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن کہتے ہیں ناکہ ہر خیر کے ساتھ کوئی نہ کوئی شر کا پہلو بھی سامنے آتا ہے یہ حال اس معاملے میں بھی ہے، جب سے کرونا کی وبا پاکستان میں پھیلی ہے تب ہی سے ہی کچھ شر پسند عناصراس وبا کا ذمے دار مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو ٹھہرانے میں جتے ہوئے ہیں۔
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وبا کا تعلق کسی ایک فرقے یا ملک سے نہیں بلکہ یہ ایک وائرس ہے جس کا کیریئر کسی بھی ذریعے سے کوئی بن سکتا ہے۔ خواہ وہ بیرون ملک سفر کے ذریعے ہو یا عدم احتیاط کی وجہ سے ہو۔ اب بات یہ ہے کہ کرونا ایک وبا کی صورت پوری دنیا سمیت پاکستان میں آن تو پہنچا ہی ہے اور باوجود اس کے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر اس کے تدارک کی ہر ممکن کوشش بھی کی جارہی ہے مگر کرونا کے مریضوں کی تعداد میں ہردن اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔
اس ضمن میں حکومت کی جانب سے امدادی سامان کی فراہمی بھی ممکن بنائی جارہی ہے وہیں لاک ڈاؤن کے ذریعے عوام الناس کو گھروں میں رہنے کی بھی تلقین کی جارہی ہے مگر اس کا کیا کہیے کہ لوگ کرونا کو اب بھی سنجیدہ لینے کو تیار نہیں۔ جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے لیکن دوسری جانب روز کا روز کمانے والوں کی مصیبت بھی اپنی جگہ ہے کہ کمائیں نہیں تو کھائیں کہاں سے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر لوگوں نے تنظیموں کے ذریعے اور اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کا بیڑا بھی اٹھا یا ہوا ہے مگر افسوس صد افسوس مشکل کی اس گھڑی میں کچھ ناعاقبت اندیش ایسے بھی ہیں جو اس صورتحال میں امن و امان کو غارت کرنے کے در پہ ہیں اور معصوم سادہ لوح لوگوں کے دلوں میں مذہبی منافرت کا بیج بونے کی کوششوں میں جٹے ہیں۔
ان لوگوں کے نزدیک اہمیت اس بات کی نہیں کہ غریب کے منہ میں روٹی کا نوالہ جارہا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ روٹی دینے والے کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ یہ ہی نہیں اس ضمن میں کچھ لوگ باقاعدہ طور پر ایک دوسرے کی کاوشوں کو صفر کرنے میں سرگرم ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ لوگ کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ مگر یہ ضرور یقین ہے کہ ایسے لوگوں کو مسلمان کہنا بھی ٹھیک نہ ہوگا۔ کیونکہ ہمارا مذہب ہم کو جذبہ خیر سگالی کا درس دیتا ہے نا کہ۔
جناب یہ وقت پوری دنیا کے لیے مصیبت اور پریشانی کا وقت ہے اس وقت میں کوئی بھی کسی طور کسی کی مدد کا باعث بنے تو یہ خوشی کی بات ہوگی۔ اور رہی بات آپس کے اختلافات کی تو جناب وہ کیا کہتے ہیں یار زندہ صحبت باقی۔ اس لیے اس تحریر کو ایک اپیل سمجھیں کہ خدارا یہ وقت مد دہے وقت دعا۔ ایسے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیجے اور کرونا کی وبا کو دنیا سے مٹ جانے دیجیے نہ پڑیے کسی بھی قسم کے اختلافات میں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کرونا کے بعد بھی ایک دوسرے کے ساتھ امن و محبت کے ساتھ رہیں تو کیا ہی بات ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اگر ہماری حرکتیں یہ ہی رہیں تو نجانے اور کتنے سال ترقی پذیر ہی رہے گا۔ ہم اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم کو اس مذہب کے نام پر کی جانے والی بلیک میلنگ سے دور رہنا ہو گا۔