روزہ اُردو زبان کا لفظ ہے جسے عربی میں صوم، سنسکرت میں ورت اور انگریزی میں فاسٹنگ کہا جاتا ہے۔ مذہبی لحاظ سے روزے کا بنیادی مقصد روحانی اور جسمانی طاقت کے حصول کے ساتھ ساتھ خدا کا قرب حاصل کرنا، گناہوں کی بخشش، ثواب کا حصول کے علاوہ کچھ مذاہب میں سوگ کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ سائنسی حساب سے یہ جسمانی اور ذہنی صحت کے حوالے سے بے شمار افادیت کا حامل ہے۔
دنیا میں روزے کی ابتدا اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ پرانی ہے۔ تاریخی اور مذہبی حوالوں کے مطابق حضرت آدمؑ کی کرہ ارض پر موجودگی کے ساتھ ہی روزے کا حکم ملتا ہے۔ حضرت آدمؑ ہر ماہ کے تین دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ بعض مفسرین کے مطابق جنت سے باہر بھیجے جانے کے بعد ”صیام توبہ“ قرار دیا۔ اس طرح حضرت آدمؑ کے سال میں 36 دن نے روزے رکھے۔
حضرت نوحؑ نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے۔ روزوں کو عظیم طوفان سے نجات پر ”یوم شکر“ کا نام دیا گیا۔ حضرت داوودؑ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کیا کرتے۔ ایک سال میں 182 دن روزے رکھے۔ حضرت سلیمانؑ ہر ماہ نو دن روزے رکھا کرتے۔ ہر مہینے کے آغاز پر تین دن، مہینے کے درمیان تین دن اور مہینے کے آخر تین دن روزہ رکھتے۔ حضرت مریمؑ کے روزہ کا قرآن پاک میں ذکر ہے، جو کہ لوگوں کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا روزہ تھا۔
قدیم یونان میں بھی روزے کا رواج رہا اور یہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کھانا کھانے سے شیطانی قوتیں انسانی جسم میں داخل ہو جاتی ہیں۔ قبل از اسلام عرب بت پرستوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج رہا۔
اسلام میں حضرت محمدؐ کی شریعت میں مسلمانوں پر رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے فرض ہوئے۔ جس کا ذکر قرآن پاک میں کچھ اس طرح ملتا ہے
روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ (ہے ) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے ) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو ”۔ ( 2 : 185 )
مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ ” ( 2 : 183 ) ۔
مسلمان اللہ کے قرب اور خوشنودی کے لیے یہ روزہ رکھتے ہیں بلکہ اسے روحانی اور جسمانی تقویت کا موجب بھی سمجھتے ہیں۔ اسلام میں واجب روزوں کے علاوہ کچھ سنتی روزے بھی ہیں جیسا کہ جمعہ کے دن کا روزہ، ماہ رجب اور ماہ شعبان کے روزے اور منت کے روزے جو کہ کسی پریشانی یا مشکل کی حالت میں اسے حل کرنے کے لیے مانے جاتے ہیں۔ اسلام میں واجب اور سنتی روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے جس میں تمام تر کھانے پینے کی اشیاء اور جنسی تعلقات سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
یہودی مذہب میں حضرت موسیؑ کی شریعت میں صرف ایک روزہ فرض تھا۔ بنی اسرائیل اسے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کے روزہ کے طور پر اسے رکھتے۔ اس روزے کو ”یوم کبور“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد گناہوں سے توبہ اور بخشش اور خدا کی قربت حاصل کرنا ہوتا۔ اس دوران یہ لوگ کلیساوں میں عبادت کرتے اور تورات کی تلاوت کرتے۔
شریعت موسوی کے قانون میں مذکور ہے :
”ابتدائی موسم خزاں میں مقررہ مہینے کے دسویں دن تمہیں اپنی ذات سے پہلو تہی کرنی چاہیے۔ نہ ہی کوئی اسرائیلی اور نہ ہی تمہارے درمیان رہنے والا غیر ملکی کوئی بھی کام کر سکتا ہے۔ یہ تمہارے لئے ایک مستقل قانون ہے۔ 30 تمہیں اس دن طہارت عطا کی جائے گی، اور تم خدا کی بارگاہ میں تمام گناہوں سے پاک کردئے جاؤ گے۔ 31 یوم سبت تمہارے لئے مکمل آرام کا دن ہو گا اس دن تم خود سے پہلو تہی کر لوگے (احبار 31 16 : 29 )“ ۔
حضرت موسیؑ جب طور کے پہاڑ پہ گئے تو چالیس دن وہاں قیام پذیر رہے اور ان دنوں حالت روزہ میں رہے۔
اسکے علاوہ یہودیت میں مصیبت اور آسمانی آفات کے دوران بھی روزہ رکھا جاتا یے، قحط سالی، بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔
یہودی دلہا اور دلہن پاکیزگی اور تقدس کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی شروع کرنے کے لیے اپنی شادی کے دن روزہ رکھتے ہیں۔
پارسی مذہب میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ پارسی زرتشت کے پیروکار ہیں۔ اس مذہب کی ابتدا حضرت عیسیؑ سے چھ سو سال پہلے فارس ایران میں ہوئی۔ اوستا ان کی مقدس کتاب ہے جو ان کے مذہبی رہنما زرتشت ہر نازل ہوئی۔ یہ لوگ جسمانی روزہ کی بجائے روحانی روزہ رکھتے ہیں اور روزہ کی حالت میں ہر گناہ سے دور رہتے ہیں۔
مسیحت میں انجیل کی روایت کے مطابق حضرت عیسیؑ نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا اور اپنے حواریوں کو بھی روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ عیسائیوں میں راہبانیت اختیار کرنے والے لوگ کثرت سے روزے رکھتے۔ اس دوران راہب افراد دنیا سے کنارہ کش ہو جاتے اور اپنا وقت عبادت میں گزارتے۔
انگریزی کی بائبل ڈکشنری سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بائبل میں لفظ روزہ (fast) عبرانی زبان کے لفظ سم (sum) سے نکلا ہے جس کا مطلب منہ کو ’ڈھکنا‘ ہے یا یونانی لفظ (nesteuo) سے ہے جس کا مطلب ”پرہیز کرنا“ ہے اس کا مطلب کھائے پیئے بغیر رہنا ہے (آستر 4 : 16 ) ۔
”اور جب بھی تم روزہ رکھو تو اسے ظاہر نہ کرو جیسا کہ منافق کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ شکستہ حال اور پریشان دکھنے کی کوشش کر تے ہیں تاکہ لوگ روزہ رکھنے کے لئے ان کی تعریف کریں۔ میں تمہیں سچائی بتا تا ہوں کہ صرف وہ اجر ہی ہے جو انہیں ملے گا۔ 17 جب تم روزہ رکھو تو کنگھی کرو اور اپنا چہرہ دھوؤ۔ 18 اس لئے کہ کوئی یہ نہیں جان سکے گا کہ تم روزے سے ہو، سوائے تمہارے خدا کہ جو کہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو تم خفیہ طور پر کرتے ہو۔ اور تمہارا خدا جو سب کچھ دیکھتا ہے تمہیں اس کا اجروثواب دے گا (متی 6 : 16 )“ ۔آج کل عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں روزوں کے تعلق سے الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ فرقے میں اب روزے کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے اور فرض کی حیثیت سے باقی نہیں رکھا گیا ہے۔ عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے جس میں اب روزے کی سخت رسوم باقی نہیں بچی ہیں مگر تصور روزہ باقی ہے۔ کچھ ایساہی حال آرتھو ڈاکس فرقے کا بھی ہے۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کے بیچ ’Good Friday‘ اور ’Ash Wednesday‘ کے موقعوں پر روزے رکھنے کا رجحان اب بھی پایا جاتا ہے۔
ہندو مذہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے۔
اہل علم کاماننا ہے کہ ہندوستان میں بھی انبیاء کی آمد ہوئی ہوگی اور یہاں بھی آسمانی مذاہب یقیناً اترے ہوں گے مگر حقائق وقت کی گرد کی دبیز دہوں میں دبے ہوئے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس خطے میں کن انبیاء کی بعثت ہوئی اور کون سی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔ بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ”ورت“ کہا جاتا ہے۔ ”ورت“ کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہاجاسکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔
ہندوؤں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ”اکادشی“ کا روزہ ہے۔ اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے۔ ہندو جوگی اور ساھو سنتوں میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان، دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ ہندوؤں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل، سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے، مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ یہاں خواتین اپنے شوہروں کی درازی عمر کے لئے بھی ورت رکھتی ہیں۔ حالانکہ جین دھرم میں روزہ کی شرائط سخت ہیں، ان کے ہاں چالیس چالیس دن تک کا روزہ ہوتا ہے
بدھ مت مذہب جو کہ چھٹی صدی قبل از مسیح ہندوستان کے شمالی مشرقی حصے میں ہوئی۔ مہاتما بدھ ان کے روحانی پیشوا تھے۔ بدھ ازم میں روزے کو روح کی پاکیزگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ گوتم بدھ کی برسی کے دن بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ یہ روزے ان کے بخشو (روحانی پیشوا) مکمل جبکہ عوام جزوی روزہ رکھتی یے۔ جزوی روزے میں بس گوشت کھانا منع ہوتا یے۔ عام لوگ ہر ماہ چار روزے رکھتے ہیں۔
جین مت میں بھی روزوں ک تصور ہے۔ اس مذہب کی شروعات آج سے تقریباً پچیس سو پچاس سال پہلے ہندوستان کے علاقے اُتر پردیش میں ہوئی۔ اس کے بانی مہاویر تھے۔ یہ لوگ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے دوران روزہ رکھتے ہیں۔ خاص تہواروں پر بھی روزہ رکھا جاتا ہے جو کہ مہاویر سے نسبت رکھتے ہیں مثلاً مہاویر کی پیدائش کے دن روزہ، جس دن مہاویر نے تیاگ کیا اس دن کا روزہ، جب مہاویر کو الہام حاصل ہو اس دن کا روزہ اور مہاویر کی وفات کے دن کا روزہ۔ ان دنوں میں یہ لوگ گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
روزے کو اگر سائئنسی نظریات کہ تحت دیکھا جائے تو اس کی انفرادیت اور افادیت بے مثال ہے۔ جاپان کے بائیلوجسٹ Yoshinori Oshumi کو 2016 میں اپنی ریسرچ پہ نوبل پرائز ملا جو کہ Autophegy پر یے۔ Autophegy یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ایک اصطلاح کے مطابق self to eat ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق جب انسان کچھ گھنٹے متواتر بھوکا رہتا ہے تو اس کے جسم کے مردہ سیل ریسائیکل ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل باڈی ڈیٹاکس کا کام کرتا ہے۔ اس سے کینسر سیل پیدا نہیں ہوتے، بلڈ پریشر کنٹرول رہنے میں مدد ملتی یے، کولیسٹرول لیول نارمل رہتا ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی تقویت ملتی ہے۔
کینیڈا کے مشہور فزیشن ڈاکڑ پیٹر ایٹیا کے مطابق covid۔ 19 سے محفوظ رہنے میں فاسٹنگ کا عمل بہت کارگر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس عمل سے جسم کے وائرس اور بیکٹریا ختم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
ڈاکڑ جینسن فنگ نامور نیفروولوجسٹ نے اپنے پانچ ہزار مریضوں کا فاسٹنگ تھیراپی کے ذریعے ان کا کامیاب علاج کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہت سی بیماریوں سے نجات دیتا ہے جن میں بلڈ پریشر، شوگر، کولیسٹرول، موٹاپہ اور دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
بی بی سی اُردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکڑ معروف کہتے ہیں کہ روزہ صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ اس سے ہمیں اس بات پہ غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا کھانا کب کھانا ہے۔ اور اگر صیح طریقے سے روزہ رکھا جائے تو ہر روز جسم کی توانائی بحال ہو سکتی ہے۔ جس سے آپ کار آمد پٹھے گھلائے بغیر وزن بھی کم کر سکتے ہیں۔
رمضان کریم کی آمد ہے اور بحیثیت مسلمان میری دعا ہے کہ اللہ پاک یہ رمضان بھی ہر سال کی طرح خیر و برکت کا پیغام لائے اور نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانوں کے لیے زندگی، صحت، امن و سلامتی کا باعث ہو۔ اور جس طرح ہم حالت روزہ میں گناہوں اور برائیوں سے دور رہتے ہیں پورا سال ان برائیوں سے دور رہنے کی توفیق ہو۔ کیونکہ روزے کا مقصد ہی تزکیہ نفس اور اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہے۔ اور اگر ہم روزہ کے ذریعے سیلف کنٹرول حاصل نہیں کرتے اور اپنی ذات کو جھوٹ، خیانت، نفرت، غصہ اور غیبت جیسی برائیوں سے پاک نہیں کرتے تو ہم نے روزہ رکھ تو لیا مگر اس کے مقصد کو نہ پہچان سکے۔