سیاست ہو یا مذہب: سب دھندا ہے بابا

یہ بات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانی چاہئے کہ ملک کے جمہوری طور سے منتخب وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، اس لئے وہ مساجد کھولنے یا بند رکھنے کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے۔ ایسا ملک جہاں جمہوریت اور اس کے لوازمات کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہا ہو اور جس معاشرے کی سیاست میں فوج کے تعاون کے بغیر حکومت سازی کو ناممکن امر کے طور پر تسلیم کروایا جاتا ہو، اس کا وزیراعظم جب جمہوریت پر ناز کرنے کی بجائے ملکی خود مختاری کو پاکستان کی صفت کے طور پر نمایاں کرنا ضروری خیال کرتا ہے تو اس نظام کی کھوکھلی بنیادوں کے بارے میں ہر شبہ درست اور ہر اندیشہ برحق سمجھا جانا چاہئے۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے خود اپنے طریقہ انتخاب کے جواز سے انکار کے بعد قومی مفاہمت کے نام پر تمام اداروں کے مل بیٹھنے اور مل جل کر بیچ کا کوئی راستہ نکالنے کی تلقین کرنے والے تمام عناصر کو سوچنا چاہئے کہ ملک کی فوج، عدالت اور حکومت مل کر کون سے ایسے قومی ایجنڈا پر کام کرسکتی ہیں جسے اس وقت ملکی سیاست میں بنیادی وصف کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ کسی ملک میں آرمی چیف کے عہدے پر نامزدگی کے سوال پر اتنی ’فکر انگیز‘ قومی مشقت نہیں کی جاتی جتنی خود مختار پاکستان میں کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ موجودہ آرمی چیف کی توسیع اور سپریم کورٹ کے ایک رخصت ہونے والے چیف جسٹس کی طرف سے اس طریقہ پر سوالات کے بعد پارلیمنٹ کا اہم اتفاق رائے، سب ایک ہی تصویر کو مختلف پہلوؤں سے نمایاں کرنے کی کوشش کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاہم قومی سیاسی المیہ کی اس تصویر کشی میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ ہو یا پارلیمنٹ، حکومت ہو یا صحافت، ان میں سے کسی کو بھی عسکری اداروں اور سیاست کے تال میل پر بات کرتے ہوئے چند بنیادی رہنما اصولوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ورنہ قومی سلامتی کو ایسا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جس کی حفاظت کے لئے چند ’بکروں‘ کی قربانی اہم ہوجاتی ہے۔ اسی معاملہ کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ سیاست میں مقتدر قوتوں کی دسترس کے حوالے سے ہر خبر اور بحث کی گنجائش پیدا کر دی گئی ہے لیکن اس مقتدرہ کا نام لیتے ہوئے شرمساری کا ایک خاص لبادہ زیب تن کئے رہنا ضروری ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر وزیر اعظم کو ’نامزد وزیر اعظم‘ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا منع ہے کہ انہیں کس نے نامزد کیا ہے۔ نامزدگی کسی وزیر اعظم کے لئے کیوں باعث شرم ہوتی ہے اور وہ کیوں براہ راست اس کا اقرار کرتے ہوئے خجالت محسوس کرتا ہے لیکن ’ایک پیج‘ کی آڑ میں اس نامزدگی کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو محفوظ اور طاقت ور سمجھتا ہے۔ اب ملک کو خود مختار اور خود کو محتاج قرار دے کر عمران خان نے نامزدگی کو بعض ایس او پیز کے ساتھ بیان کرنے کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ تنوع بہر حال قادرالکلامی کی ایک صفت ہے۔ عمران خان نے مہارت سے اپنی مجبوری کو اس نظام کی خوبی بنا کر پیش کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ بدستور وزیر اعظم رہنا چاہتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو قوتیں وزیر اعظم نامزد کرتی ہیں، یا ’شیڈو کابینہ‘ تیار رکھتی ہیں اور سب اسٹیک ہولڈرز سے اپنی اس لازوال قوت و صلاحیت کو تسلیم بھی کرواتی ہیں لیکن کھل کر یہ اقرار بھی کرنا نہیں چاہتیں کہ انہیں معاملات کا اصل محرک سمجھا جائے، وہ پاکستان جیسے ملک میں تجارتی مفاد کے لئے کام کرنے والے صحافیوں کی پوری فوج کے ذریعے اس خوبی کو مختلف طریقوں سے کھول کر بیان کرنے کی اجازت کیوں کر دیتی ہیں۔ جو طاقت ملک کے ووٹروں کی رائے کو اہمیت دینے کی بجائے ایک منصوبہ کے تحت وزیر اعظم نامزد کرنے اور اسے ’منتخب‘ کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے، پھر اسی وزیراعظم کے منہ سے پاکستان کو جمہوی کی بجائے خود مختار ملک قرار دینے کی قدرت بھی رکھتی ہو، تو کیا پاکستان کا میڈیا واقعی اتنا جری، خود مختار، مفاد سے بالا اور جمہوریت کا بے تیغ سپاہی بن چکا ہے کہ وہی منظم طاقت، اسے ’لگام‘ دینے کی ہمت و حوصلہ نہیں کر سکتی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بجائے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے کہ منتخب وزیر اعظم کو لاغر و بے بس ثابت کرتے رہنے کا اہتمام کرنا ہی، اس پراسرار ’مقتدرہ‘ کا اصل مقصد اور ہتھکنڈا ہے۔ اس سے دو فائدے حاصل کئے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بظاہر منتخب لیڈر کو مسلسل یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اس کی اصل طاقت بیلٹ باکس میں پوشیدہ نہیں ہے بلکہ ان بیلٹ باکسز کو بھرنے والوں کی مرضی کی محتاج ہے۔ اس لئے خبردار، ان بنیادی قاعدوں کو بھولنے کا حوصلہ مت کرنا جنہیں پاکستانی سیاست کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز کی حیثت حاصل ہے۔ ورنہ کوئی اقامہ یا میمو گیٹ رونما ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سارا کھیل خوف کا ہے۔ اس خوف میں تمام متعلقہ عناصر کو معلوم ہونا چاہئے کہ کون ڈوریاں ہلاتا ہے لیکن اس کا نام لینا ممنوع ہے۔ اس اصول کا احترام لازم ہے۔
ان بنیادی مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے ملک کے اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی عوام کو تسلسل سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ اس بھول میں نہ رہیں کہ ان کے ووٹ دینے کی مشقت سے ملک کی تقدیر تبدیل ہوسکتی ہے۔ یا یہ کہ انہیں اپنے نمائندوں کے ذریعے فیصلے کرنے کا حق و اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہ تو ایک تماشہ ہے جو بعض انتخابی حلقوں کی گلیاں صاف کروانے یا کوئی مسجد بنانے اور اسی طرح کے چھوٹے موٹے کام بھی کروا سکتا ہے۔ اور لوگ ہر چند برس بعد ’ایک دن کا بادشاہ‘ بننے کا مزہ بھی لے لیتے ہیں۔ جب سیاست دانوں سے مطالبے ’منظور‘ کرواتے ہوئے کسی برادری کا سرغنہ، کسی گاؤں کا سرپنچ یا کسی گروہ کا لیڈر خود کو ’بااثر اور طاقت ور‘ سمجھنے کے گمان میں مبتلا ہوتا ہے تو اس تماشے کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے اور ’جمہوریت‘ کے فعال رہنے کا تاثر بھی قائم رہتا ہے۔ یہ کام دراصل ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق اقتدار سے بظاہر دور رہ کر ہر فیصلہ کو اپنی مرضی و ضرورت کے تابع رکھنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔ پاکستان میں اس طریقہ کو بار بار کامیابی سے برتا گیا ہے اور اس کی افادیت اب بھی برقرار ہے۔
 یہ ’افادیت‘ البتہ ملک کے آئین کے مطابق جمہور کی رائے کی بنیاد پر امور مملکت چلانے کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔ اس طریقہ میں عوام کے سوا ہر طبقہ کے مفادات کا تحفظ ہوجا تا ہے۔ جیسے ملک کے مولوی منتخب حکومت کو دباؤ میں لا کر جو چاہے فیصلے کرواسکتے ہیں اور وزیر اعظم اس طریقہ کو ملک کی خود مختاری کی علامت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ایک چھوٹے سے غیر منتخب گروہ کی زور ذبردستی کو کسی ملک کی خود مختاری نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دھونس اور دھمکی سے کوئی بھی گروہ ریاست اور اس کی نمائیندہ حکومت کو یرغمال بنا سکتا ہے۔ وزیر اعظم اس کے باوجود اسے خود مختاری سمجھ کر خوش ہونا چاہتے ہیں۔
اسی طرح عدالتوں کے جج سو موٹو کی آڑ میں وزیروں کی پیشیاں لگوا کر اور حکومت کے حساب کتاب میں ’عدم شفافیت‘ تلاش کرکے اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ورنہ دنیا کا کون سا جج یہ خداداد صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ ڈیڑھ دو کھرب روپے کے مصارف کا آڈٹ دیکھے بغیر اس میں بددیانتی کا عنصر تلاش کرلے۔ منتخب مگر مجبور وزیر اعظم ہو، آئینی لیکن مفاد کی اسیر عدالت ہو یا مذہب کا رکھوالا لیکن طاقت کا خواہاں مولوی ہو ، سب اپنی دکان چمکانے میں مصروف ہیں۔ سیاست ، عدالت، مذہب و صحافت اس ملک میں ایک ایسا دھندا بن چکی ہیں جس میں کوئی گروہ اپنے مفاد اور انا سے آگے دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں قوم کا کلیان کیسے ہوگا؟
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کسی شرم کے بغیر انتخاب سے پہلے وزیر اعظم نامزد ہونے اور پھر ایک بیانیہ کی وجہ سے اس منصوبہ کی ناکامی کی کہانی بیان کرتے ہوئے ، دراصل وہی کارنامہ سرانجام دیا ہے جو وزیر اعظم ایک آئینی جمہوری ملک کو مولویوں کی دھونس میں آئی ہوئی حکومت کی خود مختاری اور طاقت قرار دے رہے ہیں۔ یعنی اس ٹوکری کے سارے انڈے گندے ہیں۔ سب اپنے ذاتی یا گروہی مفاد کے پھیر میں ہیں۔ پھر بھی عوام کی نمائیندگی کے دعوے دار ہیں اور خود کو ملکی آئین کا پاسبان قرار دیتے ہیں۔ اگر اس ملک میں آئین رو بہ عمل ہوتا تو اپوزیشن لیڈر کو کسی ماورائے آئین سودے بازی کا ذکر کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا، حکومت ایک غیر آئینی انتظام کا حصہ بننے پر شہباز شریف سے مناسب باز پرس کا اہتمام کرتی، فوج کا ترجمان ادارہ فوری طور سے اس بیان کی اصابت سے انکار کرتا۔ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان میں کتاب میں لکھی ہوئی شقات آئین نہیں ہیں بلکہ گروہی مفاد پر عمل و رد عمل اور طے شدہ ایس او پیز کو تسلیم کرنا ہی ’آئین‘ کہلاتا ہے۔
ایسے میں ملک کے چیف جسٹس کا سو موٹو بھی حرکت میں نہیں آتا اور آئینی انتظام سے انحراف کی گرفت کرنے والی شق۔6 بھی خاموش رہتی ہے۔ جس ملک میں اپوزیشن لیڈر اگر آئین شکنی کا حصہ دار بننے پر کوئی خوف محسوس نہیں کرتا تو چند ابواب اور شقات پر مبنی آئین کی کتاب سے کسی طاقت ور کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کیا اس ملک کے طاقت ور ہمیشہ تاریخ کے احتساب اور عوام کے عتاب سے بچے رہیں گے؟