ویب ڈیسک —
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس جلد ختم ہونے والا نہیں ہے اور بہت سے ملک اس کے اثرات کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبریاسس نے بدھ کو متنبہ کیا ہے کہ عالمی دنیا کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کرونا وائرس کی وبا اب تک ہمارے ساتھ ہے اور یہ طویل عرصے تک ساتھ رہ سکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ صورتِ حال میں کوئی غلطی نہیں کرنی۔ بیشتر ملک کرونا وائرس کے اثرات کے ابتدائی مرحلے میں ہیں اور وہ ممالک جہاں کیسز کی تعداد میں کمی آ چکی ہے وہاں یہ وبا دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 26 لاکھ سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔
دنیا کے کئی ملکوں میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سماجی فاصلہ اختیار کرنے اور لاک ڈاؤن سمیت مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہیں۔ بعض ملکوں نے ہلاکتوں اور کیسز کی تعداد میں کمی کے بعد عائد کردہ پابندیوں میں نرمی کر دی ہے۔
تاہم عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے بدھ کو اپنے ایک انتباہی پیغام میں کہا ہے کہ دنیا کو کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارۂ صحت اور دیگر ماہرینِ صحت نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لاک ڈاؤن اور اس جیسے دیگر اقدامات کو اس وقت تک برقرار رہنے کی ضرورت ہے جب تک اس وبا کی ویکسین تیار نہیں کر لی جاتی۔
عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکہ کے متعدی امراض کے شعبے کے ڈائریکٹر نے عوام سے کہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے اثرات کی دوسری لہر کے لیے تیار رہیں جو پہلے سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔
امریکہ دنیا میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں اس وبا سے اب تک 46 ہزار سے زائد اموات اور آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری
یورپ میں کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری سے متعلق امید کی ایک کرن روشن ہوئی ہے۔ جرمنی نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے کرونا وائرس کی ویکسین کی انسان پر آزمائش کرنے جا رہے ہیں۔
جرمنی کی ریگولیٹری باڈی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کی یہ پانچویں کوشش ہے۔ اُمید ہے کہ اس وبا کی ویکسین تیاری کے بعد جلد دستیاب ہو گی۔
یورپ میں اب تک کرونا وائرس سے ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم بعض ملکوں نے پابندیوں میں نرمی کر دی ہے۔ البتہ بڑے اجتماع پر اب بھی پابندی برقرار ہے۔