قصۂ چہار درویش کی طرح معروف نہ سہی لیکن تین بہنوں کی کہانی، انسانی سماج کی تین مختلف جہتوں ادب، معاشیات اور سیاحت سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ تین جدا اور ایک دوسرے سے بالکل لا تعلق سی کہانیاں ہیں جن میں ایک کے سوا شاید کوئی بھی کہانیوں کے ادبی معیار پر پوری نہیں اترتی لیکن تین بہنوں کی دلچسپ اصطلاح بہرحال ان میں یکساں ضرور ہے۔
ادب کی دنیا کی ”تین بہنیں“ معروف روسی ادیب اور ڈرامہ نگار چیخوف کا معرکتہ آرا ڈرامہ ہے جو انیس سو میں لکھا گیا اور ایک سال بعد انیس سو ایک میں پہلی بار ماسکو کے آرٹ تھیٹر میں پیش کیا گیا۔ چار ایکٹ پر مشتمل ڈرامے کی کہانی تین بہنوں کے گرد گھومتی ہے۔ ان میں سے سب سے بڑی اولگا ہے جو کہ ڈھلتی ہوئی عمر کی ایک غیر شادی شدہ عورت ہے سکول میں پڑھاتی ہے اور سب کے لئے ماں کا سا درجہ رکھتی ہے۔ اولگا ایک جگہ چھوٹی بہن سے نہایت سفاکی سے اپنی زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ”میں کسی بھی آدمی سے شادی کو تیار تھی، چاہے وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہو، لیکن مجھے کسی نے شادی کا کہا ہی نہیں“۔
منجھلی بہن ماشا شادی شدہ تو ہوتی ہے لیکن اپنے شوہر سے بالکل خوش نہیں ہوتی۔ ایسے میں اس کا معاشقہ ایک فوجی کرنل کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ کرنل کے تبادلے کے بعد ماشا دوبارہ اپنے شوہر کی طرف ملتفت ہوتی ہے جو اسے سب کچھ جانے کے باوجود قبول کر لیتا ہے (ہمارے یہاں ڈرامہ ”میرے ے پاس تم ہو“ میں دانش، اپنی بیوی مہوش کی بے وفائی کا روگ لے کر مر گیا تھا ) ۔
تیسری بہن ارینا زندگی کے بارے میں زیادہ سنجیدہ رویہ نہیں رکھتی اور مشکل سے شادی کے لئے رضا مند ہوتی ہے تاہم جس امیر آدمی سے اس کی شادی طے ہوتی ہے وہ اسے زیادہ پسند نہیں کرتی۔ بعد میں اس آدمی کا قتل ہو جاتا ہے اور وہ باقی زندگی رفاہی کاموں کے لئے وقف کر دیتی ہے۔ شروع میں یہ کھیل لوگوں کی زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکا جس کا ذمے دار چیخوف نے ڈرامے کے ہدایتکار کو ٹھہرایا۔ تاہم رفتہ رفتہ یہ اپنی جگہ بنے میں کامیاب ہو گیا اور اب اسے چیخوف کی اعلی ترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔
معاشیات کی دنیا میں تین بہنوں یا ”تھری سسٹرز“ کی اصطلاح معنی خیز انداز میں تین معروف بین الاقوامی اداروں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تین بہنیں ہیں ”ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او“۔ یہ تینوں مالیاتی ادارے دنیا کے اکثر ممالک کی معاشی اور مالیاتی سرگرمیوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک پر ان اداروں کا اثر بہت زیادہ ہے۔
سب سے بڑی بہن ورلڈ بینک ہے۔ اس اس ادارے کا مقصد غریب ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے قرضے فراہم کرنا ہے۔ ادارے کا صدر مرکزی دفتر واشنگٹن میں ہے اور اس پر امریکی اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک بینک کے چودہ سربراہان میں سے صرف دو غیر امریکی تھے۔ اس بینک کی طرز پر بعد میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامی ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ قائم کیے گئے۔ دوسری بہن آئی ایم ایف ہے جس سے پاکستان جیسے ممالک کے گہرے مراسم ہیں۔ یہ ادارہ بھی ورلڈ بینک کے ساتھ ہی جنگ عظیم دوئم کے بعد واشنگٹن میں قائم کیا گیا۔
اس ادارے پر ورلڈ بینک کے برعکس یورپی اثر رسوخ زیادہ ہے لہذا اس کا سربراہ کسی یورپی ملک سے ہی منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد غربت کا خاتمہ اور مالیاتی امور سے متعلق رہنمائی فراہم کرنا شامل ہے۔ موجودہ صدر کا تعلق بلغاریہ سے ہے جو اس سے پہلے تھوڑی مدت کے لئے ورلڈ بینک کی سربراہ رہ چکی ہیں۔
تیسری بہن جی ”ڈبلیو ٹی او“ یا ”ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن“ ہے۔ اس ادارے کا مقصد ملکوں کے درمیان تجارتی امور اور تنازعات وغیرہ نبٹانا ہے۔ اس کا باقاعدہ قیام انیس سو پچانوے میں آیا۔ یہ تنظیم دنیا میں تجارتی امور سے متعلق سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس کی سربراہی مختلف ممالک کے حصے میں آتی رہی ہے جس میں برازیل، آسڑیلیا، تھائی لینڈ اور برازیل وغیرہ شامل ہیں۔
آسڑیلیا کی نیو ساؤتھ ویلز ریاست میں واقع بلیو ماؤنٹین کے پہاڑی سلسلے میں تین بلند چٹانیں ”تھری سسٹرز“ کہلاتی ہیں۔ ان تین بہنوں کے متعلق مقامی قبائل میں ایک دلچسپ کہانی مشہور ہے۔ روایت کے مطابق قریب کی وادی میں میھنی، وملہ اور گننیدو نامی تین بہنوں کو دوسرے قبیلے کے تین مردوں سے محبت ہو گئی۔ قبائلی قانون کے مطابق دوسرے قبیلے میں شادی نہیں کی جا سکتی تھی۔ تینوں مرد عاشقوں کو یہ قانون پسند نہ آیا اور انہوں نے اپنی محبوباؤں کو بھگانے کا روایتی منصوبہ بنایا۔
اس مسئلے پر دونوں قبیلوں میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی ایک بزرگ ہستی نے تینوں بہنوں کو حفاظت کے پیش نظر پتھر کی چٹانوں میں بدل دیا۔ ( سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بزرگ صاحب نے دشمن کی فوج یا تینوں مرد عاشقوں کو چٹانوں میں کیوں تبدیل نہیں کیا۔ ) جنگ کے دوران وہ بزرگ صاحب مارے گئے اور اس کے بعد کسی کو بھی ان تینوں بہنوں کو واپس چٹان سے انسان بنانے کا طریقہ نہیں آتا تھا لہذا یہ تینوں بہنیں انارکلی کی طرح دیوار میں چنی نہیں گئیں بلکہ خود ہی چٹان بنا دی گئیں۔ آج چٹانوں کے نام انہی تینوں بہنوں کے روایتی ناموں سے منسوب ہیں اور یہ مقام سیاحت کے حوالے سے نہایت مقبول ہے۔