انڈیا: چھاتیوں کی کہانیاں کیا کہتی ہیں؟

 

کسی بھی خاتون سے پوچھیں تو وہ یہی بتائے گی کہ مرد چھاتیوں کے بارے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔

لیکن اگر آپ انڈیا کی فنکارہ اندو ہری کمار سے پوچھیں تو وہ کہیں گی کہ زیادہ تر خواتین بھی چھاتیوں کے بارے میں بہت جذباتی ہوتی ہیں۔

گذشتہ دو مہینوں سے وہ لوگوں کے ذریعے فراہم کردہ فنڈ (کراؤڈ سورسنگ) کی بنیاد پر ‘آئیڈنٹیٹی’ یعنی تشخص نامی پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔ یہاں آئیڈنٹیٹی (Identitty) میں دو ٹی کا استعمال ہوا ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔

انھوں نے بتایا: ‘مجھے یاد آتا ہے کہ ایک سال قبل میں کسی سے انسٹاگرام پر بات کر رہی تھی کہ ہم نے چھاتیوں (پستانوں) پر بات کرنی شروع کر دی۔ اس نے بتایا کہ اس کی چھاتیاں گداز اور بھاری ہیں اور جب وہ کسی کمرے میں داخل ہوتی ہے تو مردوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے اور وہ کس طرح اس کے بڑے پستان کو دیکھتے رہ جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اپنی جوانی سے ہی مجھے اس کی کتنی کمی محسوس ہوتی تھی کیونکہ میری چھاتی گداز نہیں تھی۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘ہمارے تجربات مختلف تھے لیکن ان میں مماثلت بھی تھی۔ اس لیے ہم نے ان سے پوچھا کہ آیا یہ دلچسپ پروجیکٹ ہو گا تو انھوں نے ہامی بھری۔ پھر میں نے آس پاس کی خواتین سے بات کی کہ کیا وہ اس میں شرکت کرنا چاہیں گی تو بہت سی خواتین نے تعاون کرنے کا یقین دلایا جس کے بعد ہم نے اسے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔’

اس کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ اسے کیا نام دیا جائے۔

‘میں نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ اس پروجیکٹ کو کیا نام دیا جائے تو ایک دوست نے ‘آئیڈنٹیٹی’ نام کی تجویز دی جو مجھے بہت مناسب لگی۔’

ممبئی کی رہائشی فنکارہ جو زیادہ تر انسٹا گرام پر کام کرتی ہیں نے جنوری میں ایک پوسٹ جاری کیا جس میں خواتین سے کہا گیا کہ وہ چھاتی کے بارے میں ‘اپنی ذاتی کہانیاں’ شیئر کریں، اس کے متعلق خوشی یا رنج اور بعض اوقات شرمندگی کی کہانی بیان کریں جو ‘دنیا کے سب سے کثرت سے مذکور جسم کے حصے’ کی وجہ سے انھیں ملی ہیں۔

اس میں شرکت کرنے والوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی چھاتی کی رنگین تصاویر بھیجیں۔ انھیں یہ اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو بغیر کپڑوں کے عریاں بھیجیں یا پھر برا، لیس، فیبرک، شیئر، پھول، حنا وغیرہ کے ساتھ بھیجیں اور کیا وہ اپنے چہرے کے ساتھ پینٹنگ میں ظاہر ہونا چاہتی ہیں یا پھر بغیر چہرے کے۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اس کے متعلق کی جانے والی ڈرائنگ میں وہ کون سا پس منظر یا سیٹنگ پسند کریں گی۔

اندو ہری کمار نے بتایا کہ خواتین کا مغلوب کر دینے والا ردعمل تھا کیونکہ ‘ہر ایک کے پاس چھاتی کی اپنی ہی کہانی تھی۔ چھاتی کے خط و خال اور اس کے ‎سائز بتاتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔’

مثال کے طور پر انھی کی کہانی لے لیں۔

‘جب میں ٹین ایج میں تھی تو میں بہت دبلی پتلی تھی اور یہ سوچ کر پریشان رہتی تھی کہ میری چھاتی کب ہو گی۔ ٹین ایج لڑکے اچھی نشو و نما کی چھاتیوں والی لڑکیوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ ہم جیسے سپاٹ سینے والے سوچا کرتے تھے کہ ہمیں کبھی کوئی چاہنے والا نہیں ملے گا۔’

انھیں محسوس ہوتا تھا کہ ‘ان کے جسم کے ساتھ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے’ اور یہ کہ وہ ‘محبت کیے جانے کے قابل نہیں’ اور اسی لیے وہ ‘زہریلے رشتے’ کی جانب چلی گئيں کیونکہ انھیں یہ لگتا تھا کہ ‘جو انھیں مل رہا ہے اسے لپک لیا جائے۔’

اب وہ اپنی 30 کی دہائی کے وسط میں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ ایک خوبصورت جسم کی مالک ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس نتیجے تک پہنچنے میں انھیں کافی وقت لگ گيا۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ان خواتین سے خود کو پوری طرح ہم آہنگ پاتی ہیں جنھوں نے لکھا کہ وہ اپنے چھوٹے پستان کے سبب خود کو ‘نصف مرد’ تصور کرتی ہیں۔

جہاں تک سائز کا تعلق ہے تو یہ دونوں حالتوں میں خواتین کے لیے عدم تسکین کا باعث ہو سکتا ہے۔

برطانیہ میں 384 خواتین پر کیے جانے والے ایک سروے میں 44 فیصد خواتین نے بڑی چھاتیوں کی خواہش ظاہر کی جبکہ 31 فیصد خواتین نسبتاً چھوٹے پستان کی خواہاں تھیں۔

اندو ہری کمار کہتی ہیں کہ جہاں چھوٹی چھاتیوں والی خواتین اپنے ناکافی پن کے احساس کا ذکر کرتی ہیں وہیں بہت سی گداز چھاتیوں والی خواتین نے لکھا کہ انھیں ان کی چھاتیوں کے سائز کی وجہ سے کتنی تکلیف اور شرم محسوس ہوئی۔

انھوں نے بتایا: ‘ایک خاتون جن کا سائز 36 ڈی ہے وہ کبھی ٹی شرٹ نہیں پہنتیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ چست برا پہنتی ہیں تاکہ ان کی چھاتی چھوٹی نظر آئے، انھیں لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔’

اپنے انسٹاگرام پر ایک خاتون لکھتی ہیں: ‘یہ خیال کہ بڑے پستان پرکشش ہوتے ہیں میرے خیال میں ظالمانہ جھوٹ ہے۔ جب میں دوڑتی ہوں تو وہ درد کرتے ہیں، جم جانے میں خفت کا باعث ہیں، چھاتیاں یوگا کرنے کے دوران کئی قسم کی ورزش کے بیچ میں رخنہ بنتی ہیں اور اب میں جب اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوں تو وہ مزید بڑی ہو گئی ہیں۔’

جہاں زیادہ تر خواتین کی کہانیوں میں شرمندگی کا عنصر نظر آتا ہے وہیں اندو ہری کمار کہتی ہیں کہ ان کی پینٹنگ میں بعض خواتین کے یہاں ایک قسم کی خوشی اور غرور بھی پایا جاتا ہے جو ان کو اپنے جسم پر ہے۔

بعض خواتین نے کہا کہ ان کی تصویر ‘بستر پر بنائی جائے کیونکہ وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ مردوں پر ان کا کیا اثر ہوتا ہے اور وہ اس کی قوت سے بھی آگاہ ہیں۔’

یہ پروجیکٹ منفرد ہے کیونکہ انڈین معاشرہ ابھی بھی زیادہ تر قدامت پسند ہے۔ یہاں خواتین سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ حیادار لباس زیب تن کریں کیونکہ کسی بلاؤز سے جھانکنے والی برا کا فیتہ بھی سرزنش کا باعث ہو سکتا ہے اور کوئی بہت ہی دلیر خاتون ہی اپنے سینے کلیویج یا درز دکھانے کی ہمت کر سکتی ہے۔

لیکن جب سے اندو ہری کمار نے اس پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے ان کا میل باکس بھرا رہتا ہے۔ دو ماہ سے کم مدت میں ہی انھیں 50 سے 60 کہانیاں اور تصاویر موصول ہو چکی ہیں اور ابھی تک انھوں نے ان میں سے 19 کی تصویر بنائی ہے۔

اندو ہری کمار کہتی ہیں کہ انھیں انڈیا بھر سے رسپانس مل رہا ہے جن میں بڑے اور چھوٹے شہر کی 18 سال سے 50 سال کی خواتین شامل ہیں لیکن ان کی پینٹنگ سے خواتین کی شناخت ظاہر نہیں ہوتی کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے تعلق رکھتی ہیں جس سے خواتین کو اپنے انتہائی حساس موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا ہے جو محفوظ بھی ہے اور مشترکہ تجربات پر مبنی ہے۔

اندو ہری کمار ہنستے ہوئے کہتی ہیں ‘میں نے اپنے محبوب کے جسم کو کبھی اس قدر باریک بینی کے ساتھ نہیں دیکھا جس طرح میں ان تصاویر کو دیکھ رہی ہوں۔’