- سحر بلوچ
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
کنیزاں بی بی کو سزائے موت سناتے ہوئے جب جج نے فیصلہ جاری کیا تو اس میں واضح طور سے کنیزاں بی بی کو انگریزی میں 'لاؤزی وومن' کہہ کر پکارا گیا تھا اور کہا گیا کہ ایک بے کار عورت کے ساتھ مل کر ایک شادی شدہ مرد نے بیوی کو قتل کیا اور گرفتار بھی ہو گیا۔
اس شخص کو پھانسی دے دی گئی جبکہ ملزم نے اپنے بیان میں کئی بار دہرایا کہ ان کا کنیزاں بی بی سے کوئی ’افیئر‘ نہیں تھا بلکہ خاندان کے دیگر افراد کے مابین زمین کے تنازع پر ان کی بیوی کو قتل کیا گیا ہے۔
'یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی ملزم کے لیے اس قسم کی زبان استعمال کی گئی ہو لیکن اگر وہ ملزم خاتون ہو تو زبان اور رویے اس سے مزید سخت اور زبان کردار کشی کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔'
یہ کہنا ہے ثنا فرخ کا، جو پاکستان میں سزائے موت پانے والی قیدیوں کی قانونی چارہ جوئی اور مقدمات لڑنے میں مدد کرتی ہیں اور کنیزاں بی بی جیسے کئی قیدیوں سے ہر روز ملاقات کرتی ہیں۔
دس اکتوبر کا دن ہر سال سزائے موت پانے والوں اور اس سزا کو سرے سے ختم کرنے کے لیے بھی منایا جاتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً 29 خواتین 12 مختلف جیلوں میں موت کی سزا کاٹ رہی ہیں۔
ان خواتین کی عمر 18 سے 45 سال کے درمیان ہے۔ ان میں سے 20 مقدمات لاہور ہائی کورٹ، پانچ سندھ ہائی کورٹ اور ایک مقدمہ پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
دوسری جانب، پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کا کہنا ہے کہ صنفی امتیاز کی وجہ سے خواتین قیدیوں کو جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شادی شدہ مردوں کے قتل کے مقدمات میں پہلے سے ہی بیوی پر شک کر لیا جاتا ہے۔ ان مقدمات میں شواہد اور گواہوں کے بیانات کا انتظار نہیں کیا جاتا۔
سنہ 2014 کے بعد سے پاکستان میں پھانسی دینے پر پابندی ہٹا دی گئی تھی تاہم اب تک ملک میں کبھی کسی خاتون کو پھانسی نہیں دی گئی ہے۔
سنہ 2019 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی فاطمہ نامی خاتون کو سعودی عرب میں منشیات لے جانے کے الزام میں ریاست کے قانون کے مطابق سزائے موت ہوئی اور ان کا سر قلم کر دیا گیا۔
جہاں تک ان مقدمات کی بات ہے تو اس رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون سے جرائم ہیں جن میں خواتین کو سزائے موت سنائی گئی اور اس کی وجہ کیا تھی؟
کنیزاں بی بی کے مقدمے کی اگر مثال لیں تو اس وقت کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں خواتین قیدیوں کو اپنے اوپر لگے الزامات کی سنگینی نہیں سمجھائی جاتی۔
ثنا کا کہنا ہے کہ 'زیادہ تر مقدمات میں وکلا خواتین قیدیوں کے پاس جاتے بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ خواتین کو مقدمہ سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔'
کنیزاں بی بی کس جرم میں قید تھیں؟
کنیزاں بی بی 1989 سے 30 سال تک سزائے موت کاٹی تھی۔ وہ اُس وقت 16 سال کی تھیں جب ان پر اپنی مالکن کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان کو اپنی مالکن کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے نوکری پر رکھا گیا تھا۔
ڈیتھ پینلٹی ورلڈ وائڈ کی 2018 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 'کنیزاں کو گیارہ دن پولیس نے حراست میں رکھا جس دوران ان کو پنکھے سے اُلٹا لٹکا کر مارا پیٹا گیا، سوالات کیے گئے۔'
رپورٹ کے مطابق: 'ان کی شلوار میں چوہے چھوڑے گئے اور ان کو ہر تھوڑی دیر بعد بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ تشدد اس حد تک کیا گیا کہ گاؤں کے لوگوں نے ان کی چیخ و پکار سننے کی گواہی بھی دی۔'
پولیس کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
اس دوران ان کے خلاف اہم ثبوت ان کا بیان تھا جس کو عدالت میں وکلا نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ تشدد کر کے لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کنیزاں بی بی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور وہ اپنے مقدمے کے لیے وکیل نہیں رکھ پائیں۔ جس کے نتیجے میں پولیس کی حراست میں مبینہ تشدد کے بعد انھیں ہسپتال منتقل کرنے کے کچھ روز بعد ہی جیل منتقل کر دیا گیا۔
اس دوران نہ صرف کنیزاں بی بی کی طبیعت میں بدلاؤ آیا۔ جس کے نتیجے میں وہ کئی کئی دن کپڑے بدلنا تو دور صحیح سے بات بھی نہیں کر پاتی تھیں۔ پھر سنہ 2000 میں ان میں سکیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی۔
فروری 2021 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے کنیزاں بی بی سمیت ایک اور ذہنی مرض میں مبتلا قیدی امداد علی کی پھانسی کی سزا میں تخفیف کرتے ہوئے ملک میں ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کو پھانسی کی سزا دینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
کنیزاں بی بی اس وقت پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں داخل ہیں۔
خواتین قیدیوں پر کن الزامات کے تحت مقدمات ہیں؟
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق افئیر ہونا، 'آشنا' کے ساتھ مل کر خاوند یا ساس کا قتل کر دینا، چوری کرتے ہوئے پکڑے جانے پرگھر کے مالک کا قتل کر دینا یا پھر منشیات فروشی کرتے ہوئے گرفتار ہو جانا۔ یہ چند ایسی وجوہات ہیں جو زیادہ تر خواتین قیدیوں کو پھانسی کی سزا دینے کے لیے بطورِ ثبوت عدالت میں بتائی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ دلچسپ بات یہ ہے کہ موت کی سزا پانے والی خواتین ملزمان کے بچے ہونے کی وجہ سے ان کی رہائی کی درخواست سن لی جاتی ہے۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے دو بار موت کی سزا پانے والی خواتین کو یہ کہہ کر رہا کردیا تھا کہ ان کے چھوٹے بچے ہیں۔
شوہر پر تیزاب پھینکنے کے الزام میں قید سمین
اسی طرح کے جرم کے الزام میں قید وہاڑی کی سمین (فرضی نام) کو 2016 میں اپنے شوہر کے منہ پر تیزاب پھینکنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کے بعد انھیں ملتان جیل بھیج دیا گیا تھا۔
کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے لّڈن تھانے کے ایک تفتیشی افسر نے بتایا کہ 'سمین نے اپنے شوہر پر تیزاب پھینکا تھا کیونکہ اس نے دوسری شادی کرلی تھی۔ سمین کو جب پتا چلا تو اس نے اس سے پوچھا اور اس کے شوہر نے جھوٹ بولا۔ جس کے نتیجے میں جھگڑا ہوا۔'
کیس کی تفصیلات کے مطابق، سمین کئی بار اپنے شوہر اور ان کے گھر والوں کو اس بارے میں بتا چکی تھی کہ ان کے خاوند کا کہیں الگ سے رشتہ ہے۔ جس پر ان کو بات بڑھانے کے بجائے صلح کرنے کو کہا گیا۔
سمین کو عدالت نے 2020 میں بری کر دیا تھا اور ان کے بچے بھی ان ہی کے پاس ہیں لیکن جیل سے رہا ہو کر انھوں نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتیں۔
'آشنا' کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرنے کا الزام
اگر ایک اور مقدمے کی جانب دیکھیں تو ایک مقدمہ صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ سے بھی ہے۔ جہاں فائزہ نامی خاتون کو رواں سال اگست میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو ان کے دوست کے ساتھ مل کر قتل کیا۔
اُن کے گھر کے ایک فرد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ فائزہ کی شادی 2009 میں ان کے ماموں کے بیٹے سے کی گئی تھی۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی انھوں نے بتانا شروع کیا کہ ان کا شوہر ان کے سامنے دوسری لڑکیوں سے بات کرتا ہے اور یہ بات ان کے سسرال والے بھی جانتے ہیں۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ'میں فائزہ کو صبر کرنے کا کہتا رہا، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کوئی لڑکی گھر آجاتی تھی، تو فائزہ پھر گھر فون کرتی تھی اور رو دھو کر چُپ ہوجاتی تھی۔'
یہ بھی پڑھیے
'پھر ایک روز فائزہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کا اپنے دوست سے جھگڑا ہوگیا ہے۔ اب یہ وہ تمام باتیں تھیں جن کے بارے میں وہ پہلے بھی بتاتی رہی ہے۔ ہم لوگوں نے اپنی ممانی کو فون لگایا اور ان کو بتایا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے خاموشی سے بیٹھنے کا کہو۔۔ پھر بات ختم ہوگئی۔'
پانچ ستمبر 2018 کی رات کو جھنگ کی ایک کالونی میں صحن میں سوئے ہوئے فائزہ کے شوہر اور ان کی ساس کے گلے کاٹ دیے گئے۔ فائزہ نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی ساس کی آواز سے نیند سے اٹھیں اور چلّانے لگیں۔ جس کے بعد انھوں نے اپنے شوہر کے دوست اور ایک اور شخص کو دیکھا۔
بیان کے مطابق اس شخص نے پھر ان کی چھ سالہ بیٹی کے گلے پر چاقو رکھتے ہوئے کہا کہ 'کسی کو بتایا تو اسے جان سے مار دوں گا۔' اس کے فوراً بعد وہ دونوں لوگ وہاں سے چلے گئے۔
پولیس نے موقع پر پہنچتے ہی فائزہ کو گرفتار کر لیا اور رشتہ داروں کی جانب سے سوال اٹھائے گئے کہ قتل کرنے والوں نے انھیں کیوں زندہ چھوڑ دیا؟ کچھ روز قید گزارنے کے بعد فائزہ کو بتایا گیا کہ ان کے شوہر کے دوست کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان دونوں پر الزام ہے کہ ان کے آپس میں تعلقات ہونے کی وجہ سے شوہر کو قتل کیا گیا۔
فائزہ کی اپیل کی سماعت اب بھی جاری ہے اس لیے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
فائزہ کی بیٹی اب آٹھ سال کی ہے اور ان کے سسرال میں رہتی ہے۔ اور ان کے رشتہ دار کے مطابق، وہ اب بھی اپنی والدہ کے حق میں باتیں کرتی ہے، 'کہتی ہے کہ ماما نے اس رات کچھ نہیں کیا۔' اب فائزہ کے رشتہ دار صلح صفائی کرانا چاہتے ہیں، جس کے بارے میں اب تک فائزہ نے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
’سرکاری وکیل کرانا معاملہ بگاڑنے کے مترادف ہے‘
جبکہ دوسری جانب، فائزہ کے گرفتار ہونے کے کئی ماہ بعد انھیں دفاع کے لیے سرکاری وکیل دیا گیا۔ ثنا کے مطابق سرکاری وکیل کرانا 'معاملہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔'
انھوں نے کہا کہ جب پھانسی کے مقدمات سامنے آتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کتنی سطحوں پر قانونی کام نہیں کیا گیا، ثبوت اکٹھا نہیں کئے گئے اور ایف آئی آر جلدی میں درج کردی گئی۔'
پھر جب یہ معاملہ عدالت میں سامنے آیا تب پتا چلا کہ کیا خامیاں ہیں۔
وکلا کی رائے کیا ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اسلام آباد ہائی کورٹ عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ ایسے ملزمان جو اپنے دفاع کے لیے اچھے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعات نہیں رکھتے تو عموماً ان کے لیے جیل اپیلوں، یا عدالت کی جانب سے سرکاری وکیل مقرر کیے جاتے ہیں۔
اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان وکلا کو ملنے والا معاوضہ بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی مقدمے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی۔
وہ کہتے ہیں کہ 'عدالت کی جانب سے مقرر کیے گئے سرکاری وکیل کو کسی ایسے مقدمے کے لیے پانچ سے دس ہزار ملتے ہیں جس کے باعث اس کی مقدمے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی۔'
ان کے مطابق دوسرا بڑا مسئلہ بار کونسلوں کی سطح پر نئے وکلا کی تربیت کا فقدان ہے۔ عثمان وڑائچ کے مطابق ان کو ایسے تربیت نہیں دی جاتی کہ وہ ان مقدمات کو عدالت میں کسی منطقی انجام تک پہنچا سکیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل سید فرہاد علی شاہ بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے مقدمات میں زیادہ تر سرکاری وکلا کا تجربہ کچھ کم ہوتا ہے، عموماً نئے وکلا ان مقدمات میں دلچپسی لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے کریئر کے آغاز میں ان مقدمات سے پریکٹس کر سکیں تاکہ انھیں کچھ تجربہ حاصل ہو سکے۔
ان کا کہنا تھا ناتجربہ اور نئے وکلا ان مقدمات کی دفاع کی تیاری اس طرح نہیں کر سکتے جیسے ایک تجربہ کار وکیل کر سکتا ہے۔
انھوں نے دوسرا مسئلہ اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عدالتی اور قانونی نظام مغربی یا دیگر ممالک کی طرح کسی مقدمے میں وکیل کو اس کے موکل تک اس آزادانہ رسائی فراہم نہیں کرتا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی وکیل کو اپنے موکل سے ملاقات کے لیے جیل جانا پڑے تو اسے اپنے وقار پر سمجھوتا کرنا پڑا ہے کیونکہ نظام اسے آسانی سے ملاقات کرنے کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔
'ایسے میں جب تک مکمل حقائق ہی وکیل کے پاس نہیں ہوں گے تو وہ مقدمے کے دفاع کے لیے کیا تیاری کرے گا۔‘