راؤ انوار کی پراسرار روپوشی



سابق ایس ایس پی راؤ انوار سپریم کورٹ کے الٹی میٹم اور ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود تاحال روپوش ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ ایک نوجوان نقیب اللہ محسود (مرحوم )کو مبینہ پولیس مقابلے میں مروادیا۔ سنا ہے کہ وہ نوجوان بہت محبِ وطن پاکستانی شہری تھا۔ اپنے چھوٹے بچے کو پاکستان آرمی کا آفیسر بنانے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ خود کو ماڈلنگ کا شوق تھا۔ اُس کی تصاویر کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ بھرپور، پرسکون اور پُر امن زندگی کا متوالا تھا۔ کہیں سے بھی دہشتگرد نہیں لگتا۔ مگر وقت کے بے رحم جھانسے اور ظالمانہ نظام زندگی نے دہشتگردی کا لیبل لگا کر عین عالمِ شباب میں منوں مٹی تلے پہنچا دیا۔ اس سانحے کا دکھ اور تلخی تو کوئی اس کی نوجوان بیوہ، اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے پوچھے۔
ایک قبر پہ کبھی یہ قطبہ پڑھا تھا
پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا!
کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا!
جب سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیر بحث آیا اور ہر طرف سے اس بات نے زیادہ زور پکڑا تو پتا چلا کہ یہ نوجوان بے گناہ مارا گیا ہے، جبکہ اس بے چارے کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
ایسے میں جب ”راؤ انوار صاحب ” سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے، لیکن جب سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر سندھ حکومت کو بہت زیادہ پریشرائز کیا گیا تو مجبوراً انھیں، اسے معطل کر کے جواب دہی کے لئے پیش ہونے اور اپنی صفائی دینے کو کہا گیا۔
کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے اور شکوک، یقین میں بدلنا شروع ہو گئے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے، وگرنہ راؤ صاحب سچے، مخلص اور محبِ وطن پاکستانی پولیس آفیسر ہوتے تو ضرور اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کر کے اپنے آپ کو جسٹیفائی کرتے، مگر انھوں نے دوسرا راستہ اپنایا اور بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ اُسے ایک بار دبئی بھاگنے کے چکر میں اسلام آباد ائیرپورٹ سے واپس کر دیا گیا۔
راؤ انوار سے جب مبینہ پولیس مقابلے کے بعد میڈیا کے ذریعے سوالاتکیے گئے تو وہ کنی کتراتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ! ”جو کام کرتے ہیں اُن کو اس طرح کی باتیں جَھیلنا پڑتی ہیں“
یعنی الزام لگتے رہتے ہیں، اُنھیں اِس کی کوئی پروا نہیں وغیرہ۔ یہ تو بعد میں جب سامنا کرنے کی بجائے بھاگ نکلے تو میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ یہ 440 اور لوگوں کو پولیس مقابلوں میں ٹارگٹ کر کے واقعی بہت بڑا کام کرتے رہے ہیں۔ لیکن وہ اس خونی کھیل میں شاید یہ بھول چکے تھے کہ ہر عروج کو ایک دن زوال کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ ایک ”سپریم ہستی“ آسمانوں پر ہم سب کے ذرّے ذرّے کا حساب رکھے ہوئے ہے۔ جس کی شان یہ ہے کہ!
”اُس کی مرضی کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا اور وہ روزِجزاوسزا کا بھی مالک ہے۔ “
ہو سکتا ہے کہ کچھ جرائم پیشہ لوگ واقعی ہوں، جنہوں نے پولیس کا مقابلہ کیا ہو، لیکن راؤ صاحب کا چُھپتے پھرنا اور پھر کچھ پیٹی بھائیوں یا اعلیٰ عہدیداروں کے ملوث ہونے کے سبب ابھی تک قانون کی گرفت میں نہ آنا، بہت سارے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ مثلاً ایک یہ کہ!
کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ راؤ صاحب اُن کے لئے ایک چھلاوا بن گئے ہیں یا پھر پکڑے جانے سے اور بھی کئی راز منکشف ہونے کا اندیشہ ہے۔
کہیں بھتے کا چکر تو نہیں؟
کہیں مقابلے کروا کر سستی شہرت سمیٹنے کا نشہ تو نہیں؟
کہیں کسی اعلیٰ حکام کی خوشنودی نہ ہو؟
کہیں نفس پرستی تو نہیں؟
خیر معاملہ جو بھی ہے ہر گناہ کی ایک مدت ہوتی ہے ایک نہ ایک دن ظاہر ہو کر رہتا ہے اور سنا ہے کہ
”مظلوم کی آہ اور اللہ ربُّ العزت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔ “
بقول مولانا ظفر علی خان مرحوم!
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا!
مجھے لگتا ہے بلکہ پکا یقین ہے کہ ”راؤ انوار“ کو کسی نہ کسی کی مکمل پشت پناہی اور تحفظ حاصل ہے، وگرنہ نقیب اللہ محسود سمیت چار سو سے زائد پولیس مقابلوں میں نہ جانے کتنے مظلوموں کے خون ان کے گھناونے اور مکروہ مقاصد کی بھینٹ چڑھے ہوں گے۔ سچے آدمی کو کیا ضرورت ہے چھپنے کی۔ سامنے آکر اپنا موقف دے، اپنے آپ کو پروف کرے کہ واقعی اس نے جینوئن کام کیا ہے۔ وہ محبِ وطن ہے اور اس نے جنتے لوگ مارے ہیں وہ واقعی دہشت گرد تھے اور قانون کے حصار سے بھاگتے ہوئے قتلکیے یا آمنے سامنے مقابلے پر اتر آئے اور قتل کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا وغیرہ، ورنہ قتل کا اختیار پولیس کو کس نے دے دیا؟ اُس کا تو کام ہے کہ ملزم کو پکڑے اور قانون کے حوالے کرے اور بس۔
اس کے بعد قانون اور عدالت کا کام ہے کہ وہ اس جرم کی کیا سزا دیتے ہیں اور ملزم کو مجرم بننے تک پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرے۔ یہاں تو عجیب ہی معاملات چل رہے ہیں، بادشاہ سلامت خود ہی فیصلے صادر فرما رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہ سننے والا۔
ریاست ایک ماں کی طرح اپنے شہری کے تحفظ کو اپنا فرض سمجھتی ہے لیکن اولاد اگر سرکشی پر اتر آتی ہے تو اُسے اپنی تربیت کے ذریعے اصلاح کرنے کا پورا موقع فراہم کرتی ہے اور حتی الامکان کوشش کرتی ہے کہ وہ راہِ راست پر آجائے یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہم مستقبل کے نتائج کی پرواکیے بغیر اگر اس طرح اپنے ہی شہریوں کو پولیس مقابلوں میں صفحہِ ہستی سے مٹانے کے ڈرامے رچائیں گے تو پھر بغاوت اور وطن دشمنی معمولی الفاظ ہیں۔
اور ہمیں کسی ”راء اور موساد ” وغیرہ کی دشمنیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ننھی پری زینب کا قاتل کیسے پکڑا گیا یہ بچے بچے کو معلوم ہے، اور یہی طریقہ کار اور اخلاص اپنا کر راؤ صاحب کو بھی قانون کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے ورنہ اس طرح کئی آئیں گے اور قانون کی دھجیاں بکھیر کر نہتے شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگتے رہیں گے۔ قانون سب کے لئے حدود مقرر کرتا ہے اور چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب کو اس کی پابندی لازم ہے۔
ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ یہی نظام اور یہی لوگ اور ادارے اس سے پہلے آٹھ نو بچوں کے معاملے میں کیوں غفلت کا شکار ہوئے۔ کیوں اپنا کام مکمل طور پر نہیں کیا۔ سب کو بجائے تالیاں پیٹ کر ہیرو بننے کے جوابدہ ہونا چاہیے، پوچھا جائے کہ پہلے یہ سب کیونکر ممکن نہ ہوا۔ اگر یہ شروع سے ہی اپنا کام ٹھیک سے کرتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور کئی معصوم کلیاں بے دردی سے کچلی نہ جاتیں لیکن اُن سے کون پوچھے گا۔ پوچھنے والوں کو پولٹیکل گین اور سکورنگ سے فرصت ملے تب۔
اب تو میڈیا پر کتنی ڈھٹائی سے ایک بار پھر سے ووٹ مانگنے کے لئے زرداری صاحب کی لوٹی دولت کو واپس لانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں، بندہ پوچھے پہلے چار سال کیا امریکہ ”ڈرون حملے ” رکوانے گئے ہوئے تھے۔ “ ش“ اور ”ح ” نام کی بھی کوئی چیز ہوتی تھی۔
لیکن بدقسمتی سے ہم عوام کی میموری بھی بہت شارٹ ہے، سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اور بغیر سوچے سمجھے اپنی تقدیر اور قسمت ان فراڈیوں، جھوٹوں اور لٹیروں کے ہاتھوں میں تھما کر اگلے پانچ سالوں کے لئے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ آزمائے ہوئے مگرمچھوں کے جبڑوں میں پھر سے اپنے ہاتھ دیتے ہیں۔ پھر حالات کا رونا کیسا؟
ہمیں اپنی ووٹ کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں۔ ہمارے ٹیکسوں سے عیاشیاں کرنے والے ہمیں آئے دن بے وقوف بنا کر، مستقبل کے سبز باغ دیکھا کر ایسا ہیپناٹائیز کرتے ہیں کہ ہم انھیں ہر درد کا علاج اور مداوا سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجے کے طور پہ، یہ ہمیں تحفظ تو کیا دیں گے الٹا ان سے زینب بی بی اور نقیب اللہ محسود جیسے واقعات تحفے میں ملتے ہیں۔ ہم نے خود ان نا اہلوں کو اپنے سر پہ بٹھایا ہے اور بٹھاتے آئے ہیں۔ اسی طرز زندگی کے بارے میں ایک آیت کریمہ کا ترجمہ ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔
بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا : القرآن



بشکریہ  ہم  سب