محبوب کے نام ایک اور خط

 
میرے پیار شاید تمہیں خبر نہ ہو کہ مجھے تم میں اپنا کھویا ہوا عکس دکھائی دیتا ہے۔ تمہاری نا سمجھ میں آنے والی الجھنوں میں، سکوت جیسی خاموشی میں، بے سبب اداسی میں میرا کھویا ہوا حصہ جھلکتا ہے۔ میں جو اب بدل گئی ہوں۔ مجھے جذبوں کو پیمانوں میں ماپنا آگیا ہے۔ مجھے تسلی ہوتی ہے جب کیں کسی الجھ کا آپریشن کر کے حتمی نتیجے پہ پہنچتی ہوں کہ یہ بے وجہ اداسی نہیں بلکہ ذہنی دباو، یہ بے کلی کسی کے کھونے کی یا غیر مرئی ذات کی نہیں بلکہ ڈپریشن کی علامت ہے۔
اور یہ جو بے نام اداسی ہے یہ ہارمونل پریشر ہے۔ وقت عجیب نہیں ہے بلکہ ہماری سوچ نئے در کھول دیتی ہے۔ کچھ بھی بے معنی نہیں ہے صرف کھوجنے کی ضرورت ہے۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو میں نے تمہیں اپنے سو کالڈ آخری خط میں لکھا تھا کہ احساسات کا آپریشن ان کا چارم ختم کر دیتا ہے۔ لیکن ان دوسالوں میں میں جان گئی ہوں ایسا نہیں ہے۔ جاننا اور کھوجنا انسانی ضرورت ہے۔
تم اپنی جگہ ٹھیک ہو۔ تخیل کی طاقت کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ اگر یہ یو ٹوپیا نہ ہو تو بہت سے لوگ تلخیوں سے مر ہی جائیں۔ لیکن پیارے حقیقت کا تقاضا ہے اسے سمجھو۔ زندگی کو کون سمجھ پایا ہے لیکن یہ قبول کر لو کہ ہم سب نہیں جان سکتے۔ اسی بات کو ماننے میں بھلائی اور حقیقت پسندی ہے۔ تمہیں میرے یوٹیلٹریرین ویو پوائنٹ سے اختلاف ہے۔ تو بات یہ ہے کہ ہر بات میں مفاد نہیں تلاشا جاتا لیکن در اصل مفاد تو ہر جگہ ہے دیکھو نا انسان کے مفاد کی بات تو آسمانی کتب میں بھی کی گئی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ میں شاید سمجھا نہیں پاتی لیکن اس میں کوئی برائی نہیں۔ ہمیں سماجی حیوان کیوں کہا جاتا ہے اسی لیے کہ کسی نہ کسی مفاد سے بندھے ہم ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ مفاد نہ ہو تو یہ سماج ہو گا نہ ہی کو سماجی اقدار۔
تم کہتے ہو میری حقیقت پسندی ایک تصور ہے جس میں جدید دور کا نسان بندھا ہے تو سنو حقیقت پسند ہونے کا مطلب تخیل و خواہش سے محرومی نہیں ہے بلکہ لمحہ موجود کی اہمیت کو سمجھنا ہے۔ یہاں تم اختلاف کرو گے کہ لمحہ موجود کو اہم سمجھنے والے اخلاق و اقدار سے بے پرواہ ہو کے وقتی فائدے کا سوچتے ہیں۔ تو میرے پیارے مسئلہ یہ نہیں کہ ہم باتوں کو ایک خاص تناظر میں دیکھتے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
چلو میں آج بتاتی ہو کہ حقیقت پسندی اور لمحہ موجود کو میں کس نظر سے دیکھتی ہوں یہ ایک سیدھا سا فارمولا ہے کہ ہم ماضی کے تجربے سے تو سیکھیں لیکن اس کی تلخی کو گلے کا طوق نہ بنائیں مستقبل کو تو نظر میں رکھیں لیکن اس کے خوف کو پاوں کی بیڑی نہ بنائیں۔ اور موجودہ وقت کا درست فیصلہ کریں۔ نہ ماضی پہ ہمارا اختیار ہے کہ اسے بدل پائیں نہ مستقبل پہ گرفت کے اس کی ہیت تبدیل کریں۔ میں اس خیال کو بدھا کے کسی نظریے یہ گڈ مڈ کروں گی نہ یہ کہوں گی لمحہ موجود کی اہمیت کا فلسفہ ہے۔ یہ انسانی شعور کی ضرورت ہے۔
اب بات ہے محبت کی۔ محبت سے کسے مفر ہے۔ بس دیکھنے کا انداز مختلف ہے۔ میں مانتی ہوں کہ مجھے ہر حسین چہرے، خوبصورت لہجے، دلفریب سوچ، چونکا دینے والے خیال، بے ریا مسکراہٹ، بے ساختہ ہنسی، ذہانت سے چمکتی آنکھوں، نئے خیال، بے لوث احساس سے محبت ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے جو ہماری آنکھوں میں خواب سجاتی ہے ہمیں جینے کا حوصلہ دیتی۔ وہ محبت جو کسی کے ہمت بھرے جملے میں ہوتی ہے، جو نرم لمس میں ہوتی ہے، جوش بھری تھپکی میں ہوتی ہے، جاندار مسکراہٹ میں ہوتی ہے، جو اس کندھے کی نرمی میں ہوتی ہے جس پہ سر رکھ کے ہم بنا کہے سب غم بہا سکیں۔
مجھے اس کی طاقت سے انکار نہیں۔ تم کہتے ہو کہ زندگی میں ایک محبت ایک عشق ایک پیار ایک محبوب ہونا چاہیے میرا ماننا ہے کہ زندگی تو خود عشق، محبت، محب، محبوب ہے اسے لاڈ اٹھوانے بھی آتے ہیں اور لاڈ اٹھانے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ یہ آنکھوں آنسو سے لبریز بھی کر سکتی ہے اور اپنی نرم پوروں میں سب آنسو جذب بھی کر سکتی ہے۔ محبت ماں کا روپ ہے تو کبھی باپ کا، کہیں اولاد کا تو کہیں بہن بھائیوں کا کہیں استاد کا تو کہیں دوست کا اور محبوب کا۔
ایک ہی شخص کو محبوب بنانے کی میں قائل نہیں مجھے تو ہر حسین چہرے روشن دماغ خواب بھری آنکھوں دلنشین لہجے خوبصورت الفاظ سے محبت ہے ویسی ہی سچی اور خالص محبت جتنی تم سے ہے۔ تم کہتے ہو کہ سب جذبے اپنے محبوب کے لیے سنبھال رکھو۔ میرے پیارے یہ کیونکر ممکن ہے۔ محبت کو جتنا تقسیم کرو گے اتنا بڑھے گی۔ اسی کسی ایک شخص سے کیسے مختص کیا جاسکتا ہے۔ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایسے کے انتظار میں اس خوشبو کو چھپایا جا سکے۔ خوشبو کاراستہ روکنا ممکن نہیں اس پہ پیرہ بٹھانا ناممکنات میں سے ہے۔ اسے کوئی روک سکا نہ روک سکے گا۔ ہاں ایسی غیر فطری کوشش سے گھٹن ضرور بڑھتی ہے۔ مسائل بڑھتے ہیں الجھنیں پھیلتی ہیں۔
تمہیں یاد ہے میں نے کہا تھا ہم دو مختلف دنیاوں کے لوگ ہیں۔ لیکن پیارے میں جان گئی ہوں ہم دو مختلف دنیاوں کے نہیں ایک ہی دنیا کے رہنے والے لیکن اس دنیا کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے والے لوگ ہیں۔ مجھے جدید و قدیم، روایت و بغاوت، کی تقسیم منظور نہیں۔ ہمارے ہونے اور سوچنے سے سب ہے اور اس سب کو اسی محبت سے قائم رہنا چاہیے۔
ڈھیروں محبتیں
تمہاری اپنی
دور جدید کی محبوبہ