عزیز دوستو: امریکہ میں یہ سن 2018 کی بالکل آخری ساعتیں ہیں۔ ارادہ تو یہی تھا کہ اس گئے سال کو خوش گپیوں کی نظر کرتے اور بادہ و ساغر کی روایت سے الوداع کہتے۔ بھلا ہو ”ہم سب“ کا کہ ایڈیٹر صاحبان نے آزادیء اظہار کا پرچم اونچا رکھا اور محترم محمد عباس خان صاحب کا مضمون ”آٹھ مہینوں میں لاہور میں ستتر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا انکشاف“ چھاپ دیا۔ میں صاحب تحریر کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نہایت اہم موضوع کی جانب توجہ دلائی ہے جو ”ہم سب“ کے توسط سے ہمارے پاس پہنچا۔ دوستوں پہ ”ہم سب“ کا احسان ہے اور شکرانہ بھی واجب ہے کیونکہ کئی مضامین سے واضح ہے کہ آزادیء اظہار کی راہ میں کیسی آبلہ پائی ہے اور بات کو بین السطور کہنے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
آپ تمام دوستوں کا قرض واجب ہے مگر اس سال کے اختتام میں، آج معاملہ کچھ اور آن پڑا ہے۔ ”ہم سب“ کے ایڈیٹر صاحبان کی مہربانی سے محترم عباس خان صاحب کا مضمون اور آنجناب کی دلیل سامنے آئی۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کچھ کہنا باقی ہے۔
ریپ جسے جنسی زیادتی کہہ سکتے ہیں، جنسی ناآسودگی سے بہت مختلف بات ہے۔ ریپ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جنگوں میں ہر زمانے سے جہاں ہتھیار استعمال ہوتے تھے، وہیں عورتوں کا ریپ بھی اتنا ہی عام تھا۔ اس لئے اگر ریپ کو ناآسودگی کا نام دیا جائے تو دلیل کچھ یوں سمجھ میں آتی ہے کہ جنسی آزادی ریپ جیسے جرائم کو کم کر سکتی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہمارے ممدوح کے مضمون میں طوائف کے کردار کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اگر یہ ناچیز دلیل کو صحیح سمجھ پایا ہے تو یہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔
ریپ کو جنسی ناآسودگی تصور کرنا ہی بنیادی غلطی ہے۔ ریپ دراصل جنس کے ساتھ بندھا ہوا تشدد آمیز رویہ ہے جو ظاہر ہے انفرادی ہے۔ اگر اسے معاشرتی تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک سنگین جرم بن کر سامنے آتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی جگہ پر ریپ بکثرت ہوں تو کیا اس سوسایٹی اور اس کی زیریں لہر کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے اور شاید اس کے سماجی محرکات کے بارے میں بھی؟
مجھے اپنا ایک مریض یاد آیا۔ بات کئی سال پرانی ہے۔ بتایا گیا کہ مریض پر فالج کا حملہ ہوا تھا اور وہ تکلیف میں ہے۔ سامنے کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ وہ جیل میں قید تھا۔ وہ قیدی مریض ایک آرٹست اور مجسمہ ساز تھا۔ اس نے بتا یا کہ ریپ کی وجہ سے جیل میں قید تھا۔ علاج کی تفصیل تو چھوڑیے، اعتراف کرنے دیں اور شاید اسے میری پروفیشنل نالائقی بھی کہیں کہ اس مریض سے بات کرتے ہوئے مجھے نفرت تو نہیں مگر گھن سی آتی تھی جسے کم کرنے میں مجھے کئی مہینے لگے اور میں خاموشی سے مریض کی بیماری اور علاج، اس کی سیاہ کاری اور اپنے لاشعور کی کلفتوں سے بھی الجھتا رہا۔
میں اس بات کو خود نوشت سوانح عمری بنانا نہیں چاہتا۔ خود نوشت سوانح عمری کے بہت سے لوازمات ہیں جنہیں کئی مصنفین بس صرف نظر ہی کرتے ہیں۔ اس کی بات کسی اور دن سہی۔ مگر لگے ہاتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری ایک مریضہ نے بتایا کہ وہ بیس بائیس سال کی عمر میں ریپ کا شکار ہوئی تھی اور ساتھ ہی حاملہ بھی ہو گئی۔ اس کے گھر میں سب نے اس معاملے کو خاموشی سے طے کیا۔ مگر اب اس خاتون کے گھر میں اصول طے ہے کہ گھر میں سب باتیں کھلے عام طے ہوں گی۔ وہ خاتون اس سے بہت نالاں ہے کہ جو اس کا اپنا تجربہ تھا، جس میں خاموشی ہی سب سے بہتر علاج سمجھا جاتا رہا ہے۔ خاموشی پرانے کلچر کا حصہ تھی۔
کلچر اور انفرادی نفسیات کی جڑیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہے۔ پچھلی صدی کے کلچر نے بہت سی تحریکوں کو جنم دیا، جن میں سے ایک فیمنسٹ تحریک بھی تھی۔ فیمنسٹ تھیوری سے سماج کے کئی رویوں کی تشریح ممکن ہوئی مگر تشدد آمیزی کے بہت سے رویے اس تھیوری کے باوجود تشنہ سے رہے۔ اور بھی سماجی مسائل ہیں جو شاید اس تھیوری سے طے نہ ہو سکے ہوں مگر اسس بات کے اعتراف بنا چارہ نہیں کہ فیمنسٹ تھیوری نے ریپ کو ذاتی اور انفرادی سطح سے اٹھا کر ہم سب کی توجہ ریپ کے سماجی تشدد آمیز رویے کی طرف مبذول کرائی۔ خیال ہے کہ اس کے بعد ریپ کے معاملے میں ہماری عقل سمجھ صرف جنسی ناآسودگی سے آگے بڑھ گئی ہے کہ جس میں طوائف کے کردار کی ضرورت نہیں۔
ریپ ایک تشدد آمیز رویہ ہے جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے اور جنس اس کا آلہ کار ہے اور حقیقتاً یہ نفرت آمیز ہے۔ اس کے محرکات میں طاقت کا استعمال اور طاقت کا پر تشدد اظہار ہے۔ دوسرے لفظوں میں ریپ کرنے والے کے ذہنی محرکات میں جنسی ناآسودگی سے زیادہ تشدد ہے۔ اور اب تو تشدد ہی ہمارے کلچر کی شناخت ہے۔ ریپ یا جنسی تشدد جب اس تناسب سے ہو رہا ہے کہ ہمارے پیارے ملک میں ہر شہر، گلی محلے میں تواتر کے ساتھ ہو تو کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ ریپ یا تشدد ہی ہمارے ملکی کلچر کی بنیاد ہو گئی ہے۔ یہ تو شیکسپئر کی ٹریجڈی کی یاد دلاتا ہے، جس میں سب کردار انجام سے واقف سے ہوتے ہیں اور واقف ہونے سے باوجود وہی رویہ رکھتے ہیں کہ جو ڈرامے کے ٹریجک اخیر کے لئے ضروری ہو۔ شیکسپیر کا ڈرامہ۔ سرراہ یہ بات ہو گئی۔ چلیں اسے چھوڑیں۔
ریپ کی سماجی نفسیات کو دیکھنا ہو تو کئی حوالے سامنے آتے ہیں۔ ایرک فرام مشہور نفسیات دان ہیں، اپنی کتاب Anatomy of Human Destructiveness میں کہتے ہیں تشدد آمیز شخص دراصل اپنی شخصیت میں ناکارہ ہوتا ہے۔ جسے وہ اپنے آپ کو دوسروں پر مسلط کر کے ہی اپنی طاقت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ اب اسی بات کو سماجی رویوں کی طرف لے جائیں کہ جہاں سے جمہوریت کی باتیں نکلنے لگتی ہیں۔ جمہوریت، جو انسان کی شخصی آزادی کی ضامن ہے۔
میں تو بس یہی سمجھ سکا ہوں کہ آمریت، فوجی بالا دستی اور ڈکٹیٹرشپ سماج اور کلچر کا ریپ ہے جو انسانی معاشرے اور سیاست کی راہ میں حائل ہے۔ طاقت کے پر تشدد استعمال میں یہ رویے ہی حائل ہیں اور یہی تو سماجی رویے ہیں کہ جو معاشرتی اور سیاسی ریپ کے مجرم ہیں۔ لکھنا تو اور بھی بہت کچھ تھا مگر آ پ یقین مانے کہ ابھی ایک سکنڈ ہوا کہ نئے سال کا گھنٹہ بجا ہے۔ آپ سب کو نیا سال اور آپ کی عمریں مبارک ہوں۔