اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کے اچھے یا برے رویے اس کے ارد گرد رہنے والے افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اکثر و بیشتر وہ اپنے جذبات چھپانے کے معاملے میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہتی ہے خاص طور پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں۔ میری ذاتی رائے اور تجربے کے مطابق انسان کو گھر اور آفس سے نکلتے ہوئے اپنے گھریلو اور ورکنگ مسائل اپنی اپنی جگہوں پر چھوڑ کر آنا چاہیے ورنہ دونوں طرف کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر اپنے ورکنگ مقام پر انسان کو نہ صرف برداشت بلکہ خوش اخلاقی کا لبادہ ضرور اوڑھناچاہیے تاکہ کوئی بھی آپ کی کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
یہ 19 نومبر 2012 کی بات ہے جب میرے بڑے بھائی 36 سالہ عفان ہاشمی کوایک ڈاکٹر کی غفلت اور لاپروائی کا شکار ہونے کے بعد سر گنگا رام ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں ڈاکٹروں نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوششیں کیں تاہم 23 نومبر کو سینئر ڈاکٹر بھائی جان اور مجھ پر یہ واضح کر چکے تھے کہ ان کی زندگی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر ہم ان کی اذیت کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
صبح میں اور امی کوئی ساڑھے سات بجے تک بھائی کے پاس پہنچ جاتے تھے اور شام تک وہیں رہتے تھے۔ بھائی جان شام 6 بجے سے صبح تک وہیں ہوتے تھے۔ سارا دن وہاں ہونے کی وجہ سے میری پورے وارڈ اور خواتین وارڈ میں بھی مریضوں اور ان کے لواحقین سے ہیلو ہائے ہو گئی۔ نوائے وقت کے ایک پرانے گارڈ بھی وہاں پر موجود تھے۔
کینسر کی آخری سٹیج پر کھڑا دلدار، اپنڈکس کے بگڑنے پر لایا گیا۔ سولہ سالہ مختار، شوگر کی زیادتی کی وجہ سے بے بس و لاچار رشیدہ آنٹی جن کی خدمت کے لیے ان کی بہن وہاں موجود تھی۔ زنانہ وارڈ میں عصمت کی بہن فاخرہ جس نے شوہر کے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر زہر پی لیا تھا۔ الیاس انکل، حولدار امتیاز اور بہت سارے لوگ۔
ہم سب ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی تھے۔ سب کے پیارے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور جن چار مریضوں کو ڈاکٹر جواب دے چکے تھے ان میں عفان بھائی بھی شامل تھے اور اس بات سے پورا خاندان بے خبر تھا اور جو جانتے تھے وہ سب کو سنبھال رہے تھے اور بھائی کے سامنے پورے دل اور مسکراہٹ سے کھڑے ہوتے تھے۔
سر گنگا رام ہسپتال سرجیکل یونٹ ون کے سبھی ڈاکٹر اور نرسیں اچھی اور تعاون کرنے والی تھیں جبکہ نچلے طبقے کو تابع رکھنے کے لیے نرمی اور روپے سے بڑی کوئی طاقت نہیں تھی، میں نے سو اور پچاس روپے کی کرشمہ سازی بارہا آزمائی۔ میرا خیال ہے یہ کوئی دو دسمبر کی بات تھی، میں نیچے امی کے لیے چائے لینے گئی، واپس آئی تو دیکھا کہ ایک نرس امی پر برس رہی ہے، بھائی اپنی کمزور آواز میں التجا کر رہا ہے، دونوں بے بس نظر آئے۔ اس نرس کو پہلے نہیں دیکھا تھا، میں کچھ کہتی، اس سے پہلے ہی امی نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا، موصوفہ بول بال کر چلی گئیں مگر جاتے جاتے میرے چہرے کے تاثرات دیکھ گئی۔
میں نے ایک دو دن اس نرس کے رویوں کا مشاہدہ کیا اور اسے تقریباً وارڈ کے تمام مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ بد تمیزی کرتے ہوئے پایا۔ انتہائی درشتگی سے انجکشن لگاتی کہ وہ چیخ اٹھتے اور اگر کوئی دوسری نرس اسے نرم رویہ اختیا ر کرنے کا کہتی تو وہ ان سے بھی بد تمیزی کرتی۔ سوائے ایک بہت ہی ہینڈ سم نوجوان مریض کے جو کہیں باہر سے آیا تھا اور یہاں کسی حادثے کا شکار ہو گیا تھا، اس کے ساتھ اس کا بھائی بھی تھا جو خود بھی کافی ہینڈ سم تھا، موصوفہ دونوں بھائیوں پر بہت مہربان تھیں تاہم وہ دونوں اس کے ساتھ سرد رویہ ہی اپنائے ہوئے تھے۔
متعلقہ نرس نے وارڈ میں جا کر امی سے بات کی، باقی سب مریضوں اور ان کے لواحقین سے پوچھا، شکایت جائز ہونے کے بعد اس نرس کو اس وارڈ سے ہٹا دیا گیا اور امی سے کافی معذرت کی گئی۔ بعد میں سارے وارڈ والوں نے مجھے داد دی اور امتیاز بھائی نے باقاعدہ مٹھائی منگوا کر کھلائی۔ اگلے دن جب میں بھائی کے ایک ٹیسٹ کی رپورٹ لینے گئی تو نیچے اترتے ہی میری سٹاف نرس سے ملاقات ہوئی، بھائی کا حال پوچھنے کے بعدوہ مجھے کہنے لگیں کہ وہ نرس بہت پریشان رہتی ہے اورا سی وجہ سے وہ اکثر غصے میں آجاتی ہے۔ میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس قدر مضحکہ خیز تھی کہ مجھے اور غصہ آ گیا۔
وجہ جاننے کے بعد مجھے اس نرس پر رحم نہیں آیا بلکہ میرا دل کر رہا تھا کہ اس کا لائسنس منسوخ کروا دوں۔ تاہم بہت تحمل سے جواب دیا کہ شادی نہ ہونے پر اس کے یہ حالات ہیں، اور اگر شادی کے بعد بھی اسے ”وہ مطلوبہ سکھ“ نہ ملا تو وہ پھر سب کو قتل کر دے گی اس لیے پہلے اس کا نفسیاتی علاج کروائیں اور پھر کام پر لگائیں۔
یہ صرف ایک نرس ہی نہیں بلکہ شاید ایسے بہت سارے واقعات ہوں مگر میر ے اپنے حلقہ احباب میں، خاندان میں عمریں چالیس تک پہنچ گئیں ہیں مگر شادی نہیں ہو پا رہی مگر میں نے کسی کا رویہ اس قسم کا نہیں دیکھا جیسا اس نرس کا تھا۔ آج یونہی ایک بات کی کسی نے، کسی نرس کے رویے کی تو یہ واقعہ اور ایسے کئی واقعات یاد آ گئے جو ہسپتال میں دیکھے اور محسوس کیے۔ تاہم میں آج بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہونا چاہیے اور ہسپتال انتظامیہ کو اپنے عملے کے رویوں پر نظر رکھنی چاہیے اور ریگولر بنیادوں پر مریضوں کے ساتھ بہتر سلوک رکھنے اور برداشت پیدا کرنے کے لیے ورکشاپس کروانی چاہیں۔