صحافت ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے۔ انبیائے کرام سے منسوب یہ متبرک پیشہ پوری دنیا میں رائج ہے۔ صحافت سے وابستہ شخص خواہ وہ مسلمان ہو یا ہندو، عیسائی ہو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، وہ دیانت دار اور غیر جانبدارانہ صحافت کو ترجیح دے گا۔ ہمارے مُلک میں لوگ قلم کو لکھنے سے زیادہ ازاربند ڈالنے کے لیے استمال کرتے ہیں۔ بھلا وہ قوم سماجی، معاشی اور تعلیمی ترقی کیسے کرے گی جو میراثی کو اپنا اُستاد، کپڑے بنانے والے درزی کو ماسٹر، جاہل کو درویش، ظالم کو طاقتور، کم ظرف کو میر، وڈیرے کو ابا سائیں، داداگیر کو بھائی اور کسی بھی ننگے پاگل شخص کو بابا جی مانتی ہو۔
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہونے کے باوجود صوبہ بلوچستان میں ﺳﺐ ﺳﮯ زیادہ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﺷﻌﺒﮧ بن گیا ہے۔ میرے خیال سے ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ شہید ﮐﯿﮯ گئے ہوں گے کیونکہ اب تک بلوچستان میں چالیس ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺻﺤﺎﻓﯽ اپنی آواز بلند کرنے کے نتیجے میں شہید کیے جاﭼﮑﮯ ہیں۔
بلوچستان کے خبر بنانے والوں کے کیا تاثرات ہیں اور وہ کن کن مشکلات سے دوچار ہیں؟ انتظامیہ کے خلاف خبر کیسے چلاتے ہیں اور رشوت خور پولیس اہلکاروں سے کیسے ٹکر لیتے ہیں؟ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم نے ان خبر بنانے والوں (یعنی صحافیوں ) کی خبر دی ہے۔
بلوچستان کے دو عظیم خبر نگار نور محمد جمالی اور سینئر صحافی ستار ترین سے بات چیت کا موقع ستار ترین صاحب کے گھر پر ملا۔ ستار ترین نے بتایا کہ میں نے فکری و فنی تربیت اپنے آبائی شہر اوستہ محمد میں حاصل کی۔ میں باضابطہ طور پر کسی ادارے سے وابستہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بلوچستان کے صحافی نہایت اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں ان کو جائز مقام کبھی میسر نہیں رہا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج بھی بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں خبر بنانے والوں کو زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔ اب ان حالات میں ایک رپورٹر بدامنی کو کیسے کنٹرول کر سکتا ہے؟
قلم میں بہت طاقت ہے، ایک دو لائن کی خبر بھی معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صحافیوں کو ہر معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خبریں بنانے والوں کی موجودگی میں عوامی نمائندے بہت سنبھل کر بات کرتے ہیں۔ بلوچستان میں اچھے پیشہ ور صحافیوں کی کمی نہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض صحافی حضرات بغیر تحقیق و تصدیق کے من گھڑت اور خوشامدی خبریں بھی دیتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کا اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، سوشل میڈیا کی بدولت اخبارات سے پہلے خبریں پھیل جانے کی وجہ سے اخبارات کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے لیکن پھر بھی اخبارات کی شہ سرخیوں اور ادارتی صفحوں نے ہزاروں لوگوں کو ہر صبح اخبارات دیکھنے کا عادی بنایا ہوا ہے۔
نور محمد جمالی نے، جو عرصہ بیس سال سے کالم نگاری کے شعبے سے وابستہ ہیں، بتایا کہ اخباری مالکان ہمیشہ اپنے کارکنوں کا استحصال کرتے ہیں۔ خود تو اشتہارات و مراعات کے مزے لوٹتے ہیں لیکن ورکرز کو وقت پر ان کی جائز اجرت بھی نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی طے کردہ کم سے کم تنخواہ کے مطابق خبر بنانے والوں کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ضرور ہونی چاہیے، مگر معاملہ یہ ہے کہ اخباری دفاتر میں کام کرنے والے سب ایڈیٹرز اور کمپیوٹر آپریٹرز شام پانچ بجے سے لے کر رات گئے تک اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں، مسلسل کئی کئی گھنٹوں تک کام کرتے ہیں اس کے باوجود مالکان کا رویہ ان کے ساتھ مبنی بر زیادتی ہوتا ہے۔ اخباری مالکان کو چاہیے کہ قلم کاروں کو ان کا جائز منصب اور عزت و احترام دینے کے ساتھ ساتھ وقت پر ان کی اجرت بھی ادا کریں تاکہ خبر نگار بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سکون کی زندگی گزار سکیں۔
پڑھو اخبار کے ایڈیٹر سعید نور اور ان کے معاونین نے کہا کہ چاہے کسی کو برا لگے یا بھلا، ہم چپ نہیں رہ سکتے۔ خدا نے ہمیں خبر بنانے کا جو ہنر دیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کریں۔ ہم سب سچ لکھتے رہیں گے، چاہے ہمارے ہاتھ ہی قلم کیوں نہ کردیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا سے وابستہ ہر فرد کو اپنی فٹنس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان میں آئے روز ہونے والے بم دھماکوں کے واقعات سے صحافی بھی محفوظ نہیں۔ لہٰذا احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
قارئین کی بڑی تعداد مختلف وجوہ کی بنا پر گزشتہ چند سال میں اخبارات پڑھنے سے محروم رہی ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے، سوشل میڈیا نے کسی حد تک اس کمی کو پُر کیا ہے مگر آج بھی لوگوں کی بڑی تعداد اخبار ضرور پڑھتی ہے۔
بلوچستان کے صحافیوں نے ہمیشہ اپنے فرائض غیر جانبداری سے انجام دیے ہیں، اس کے لیے انہیں بڑی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ موجودہ دور کی صحافت کا موازنہ پچھلے دور سے کیا جائے تو واضح فرق نظر آئے گا۔ ماضی میں صحافی ذاتی، لسانی، سیاسی اور مذہبی عناد اور تعصب کو خاطر میں لائے بغیر مکمل جانچ پڑتال اور خبر کی حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے، لیکن اب صحافت ذاتی مفادات اور کاروباری مقاصد کے لیے ہونے لگی ہے۔ ہم نوجوان قلم کاروں سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ زرد صحافت کے بجائے اصولی صحافت اپنائیں اور اپنے صحافتی اقدار اور قلم کی حرمت کو یوں سرِبازار رسوا نہ کریں تو یہ ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔
شاہ محمد مری جو کئی سال سے ماہنامہ رسالہ ”سنگت“ بلوچستان سے نکالتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ بعض صحافی حضرات صحافت کو کاروبار اور بینک بیلنس بنانے کا اچھا اور آسان ذریعہ بناچکے ہیں۔ بلوچستان میں شعبہ صحافت اور صحافی برادری کو اظہار رائے کی آزادی کے لیے انتہائی نامصائب اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافی کا کارڈ گلے میں لٹکانا ہی کافی نہیں بلکہ ایک ذمہ دار اور پروفیشنل صحافی ہی اس بات کو بہتر جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ صحافتی زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے۔ ایک ورکنگ جرنلسٹ کی زندگی اس قدر مشکل ہوتی ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں تک کے لیے بھی وقت نہیں نکال سکتا۔ ایک ذمہ دار صحافی عوام الناس کو ہی اپنی فیملی اور اس ملک کو اپنا سب کچھ مان کر ان کے حقوق اور تحفظ کی جنگ لڑتا ہے، اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کسی کو اس بات کی قدر اور تحسین ہے یا نہیں۔
دین محمد وطن پال جو کم عمری میں ہی کیمرہ مین بن گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ آج کل ناتجربہ کار کیمرہ مین صحافیوں نے صحافت کے اصولوں کو پامال کرکے صحافت کو داغدار کردیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ چند صحافی حضرات کیمرہ مین کو صحافی تک نہیں مانتے، حالانکہ بلوچستان میں بم دھماکوں میں سب سے زیادہ کیمرہ مین صحافی ہی شہید ہوئے ہیں۔ اس لئے کیمرہ مین کو بھی صحافی ماننا ضروری ہے۔ جب کوئی خبر بغیر تصویر کے جاتی ہے تو قارئین اس خبر کو نسبتاً کم اہمیت دیتے ہیں۔ کیمرہ مین بھی صحافت کا ایک اہم حصہ ہیں، رپورٹر کیمرہ مین کے بغیر ادھورا ہوتا ہے، اس لیے کیمرہ مین کو بھی صحافت کی دنیا میں شامل کیا جائے اور ان کا استحصال بند کیا جائے