شبنم گل
انسانی ذہن جادوئی چراغ کی مانند ہے۔ مگر ہم ذہن کی قوت یعنی سوچ و خیال کی افادیت سے محروم ہیں۔ یہ طاقت، اندر کی بے یقینی کھودیتی ہے۔ احساس محرومی، و کمتری یا بے بسی کا دیمک عمل کی طاقت کو پنپنے نہیں دیتا۔ لہذا خیال تناور درخت نہیں بن پاتا۔
ذہن اور تصور کے درمیان تضاد یا ہم آہنگی کا تعین، ذاتی تجزیے کی صلاحیت اور خودآگہی مل کر کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسانی ذہن ہے کیا چیز؟ ذہن میں موجود نیورو ٹرانسمیٹرز (کیمیائی اثر) جنھیں معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ کہا جاتا ہے، جنھیں Neuropeptides بھی کہا جاتا ہے، جن کی ساٹھ کے قریب تعداد ہے۔
یہ مختلف جذبوں کا اظہار کرتے ہیں، جیسے غم، خوشی، اداسی، خوف، غصہ وغیرہ۔ یہ بہت جلد پھلتے پھولتے ہیں۔ خلیاتی تحرک کا سبب بنتے ہیں۔ کسی غصے یا خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے تو خلیے اپنی مناسب جگہ پر واپس آ جاتے ہیں۔ اور پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ بصورت دیگر خلیے تباہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ذہن و جسم کی فعال کارکردگی موثراظہار کی طاقت پر منحصر ہے۔ وہ اچھا پیغام جو ذہن جسم کو دیتا ہے۔ جس میں اطمنیان، تشکر، احسانمندی، رواداری، محبت اور تعاون کے احساسات نمو پاتے ہیں۔ ایک اچھا احساس زندگی کے چند لمحے بڑھادیتا یے اور برا احساس سلو پوائزن کا کام کرتا یے۔
ذہن کے چار ردھم تمام تر رویوں، ردعمل، کارکردگی و فعالیت کا تعین کرتے ہیں۔ مثال بیٹا ردھم فعالیت، یکسوئی و ادراک سے تعلق رکھتا ہے۔ ذہنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے یورپ میں کئی تربیتی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ جب کہ الفا ردھم سکون، تصور اور تخلیق کا حامل ہے۔ اب اگر ہم مستقل کام کرتے رہیں یا ذہن مستقل تھکتا رہے تو اسے سکون اور تصوراتی عمل کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ ذہن فقط مشین بن کر رہ جاتا ہے اور تخلیق کا عمل براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ تھیٹا ویو کا کیا کام ہے۔
ذہن کی اس رو کا کام غور و فکر، ادراکی صلاحیت اور یادداشت وغیرہ ہے۔ مگر یہ اس وقت بہتر کارکردگی دکھاتا ہے جب ہم پرسکون حالت میں رہیں، یا کام کی طوالت کو ختم کرکے اچھا سا وقفہ لیں۔ تھیٹا کے بہت سے کام ہیں۔ اعلیٰ تخلیق، تصورات، تحرک یا وجدانی کیفیات وغیرہ۔ آج کل یورپ میں تھیٹا ویوز کی کارکردگی بڑھانے کے لیے کئی تربیتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ جس میں موسیقی، رنگ، مراقبہ و ارتکاز کی مشقیں شامل ہیں۔ مابعداز نفسیات بھی ڈیلٹا و تھیٹا ویوز سے مدد لیتی ہے، جب کہ ڈیلٹا ویو کا کام لاتعلقی، علاج و نیند کی فراہمی ہے۔ یہ لاشعور کی جڑوں سے پھوٹ نکلتی ہیں۔ لاشعور جو اعلی سوچ کا مرکز کہلاتا ہے۔
آپ کسی بھی شخص کی ذہنی کارکردگی اور عادات کا اندازہ لگا کے جان سکتے ہیں کہ اس کے ذہن میں کس لہر کی اجارہ داری ہے۔ مثال متحرک اور ہمہ وقت کام میں، مصروف لوگ بیٹا ردھم کے حامل افراد ہیں۔ جب کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ الفا ویوز سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ انسانی ذہن ہر وقت ایک کیفیت میں نہیں رہ سکتا۔ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا رخ بدلتا ہے۔ کبھی انسان ایسی طرز زندگی اپنا لیتا ہے جس میں اس کا ذہن سکون اور یکسوئی سے غافل ہوجاتا ہے جس کے مضر اثرات ڈپریشن، اینگزائٹی یا جسمانی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ہم ذہن کی آواز بعض اوقات نہیں سنتے اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ آج کل بچوں، نوجوانوں و بڑوں کی یکسوئی شدید متاثر ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ بجلی سے چلنے والے آلات کا استعمال ہے۔
انسانی ذہن ایک طرف مشینی کارکردگی دکھا رہا ہے تو دوسری طرف احساسات، جذبات و تخلیقی صلاحیتوں کا مرکز ہے۔ جذبے، احساسات و ردعمل، ذہن کا کیمیائی عمل ہیں۔ ذہنی سوچ وتصور جسم کی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تو دوسری طرف صحت مند جسم بہتر ذہنی کارکردگی کے پس پردہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا ذہن جسم کے ہر خلیے میں سانس لیتا ہے۔
اگر حالات مزاج کے برعکس ہوں تو رویے بے لچک، خودغرض اور پریشان کن ہونے لگتے ہیں۔ کھانے کے طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ ذہنی دباؤ کی صورت میں ذہن کے چاروں ردھم متاثر ہوتے ہیں۔ اور یادداشت کے خلیے تباہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں علاج اور جسمانی مشقیں انتہائی ضروری ہیں۔ ورنہ ذہن کے منفی رویے براہ راست جسم کو متاثر کرتے ہیں اور انسان مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ذہن کی کارکردگی اور سوچ کی فعالیت کو شراب نوشی، کافی، چائے، چینی اور سگریٹ نوشی کی زیادتی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ چالیس سال کی عمر سے خلیوں کی توانائی اور مایع تکسید کا عمل زوال پذیر ہونے لگتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ذہن کو فعال رکھنے کی غذائیں و مشروب کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
ذہنی سکون، ارتکاز سے تصور کی طاقت جنم لیتی ہے۔ جسم پر انسانی سوچ کی حکمرانی ہے۔ یہ سوچ ہر خلیے میں منفی و مثبت اثر مرتب کرتی ہے۔ لہٰذا منفی سوچ ذہن و جسم کی کارکردگی کو ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں Memory Brain کو سدھانا پڑتا ہے۔ یہ Temporal Lobesآنکھوں کے پیچھے براجمان ہیں۔ جو مزاج پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ یادداشت، زبان، روحانیت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ٹیمپورل لوبس کی غیر فعالیت منفی سوچ، واہمے اور جارحیت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ چاہے یادداشت کے مسائل ہوں یا تشویشی امراض و سر درد کی شکایت۔ کام کی کارکردگی و سوچ متاثر ہوتے ہیں۔
ہم اکثر بچوں یا نوجوانوں کی پڑھائی کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔ ان کی سستی، کاہلی و لاتعلقی کے تذکرے اکثر گھروں میں زیر بحث رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ موبائل کا بے جا استعمال ہے۔ یہ الفا اور تھیٹا لہروں کو متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے سماجی اور غیر عقلی رویے فروغ پاتے ہیں۔ الیکٹرو میگنیٹ ریڈیئیشن کے مضر اثرات، ذہن کے کئی امراض کی وجہ بنتے ہیں۔
تصوراتی قوت کو فروغ دینے میں سرسبز ماحول بہترین کردار ادا کرتا ہے۔ خیال کو خوبصورتی کا تحرک چاہیے۔ اس تحرک کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کوئی بھی دلکش سوچ، احساس، رویہ، محور اور تحرک سے خیال نمو پاتا ہے۔ جس کے لیے سوچ کی گہرائی میں اترنا پڑتا ہے۔ اور سوچ میں جاذبیت اور انفرادیت پیدا ہوتی ہے۔ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ سوچ کا کینوس وسیع تر کردیتے ہیں۔ مشاہدے کے سفر میں ہم بہت سی چیزوں پر دھیان نہیں دیتے۔ ایک دن کا مستقل مشاہدہ، فطری رویوں سے قریب تر کردیتا ہے۔ مشاہدہ، ادراکی سوچ کی پرواز کا تعین کرتا ہے۔
سوچ نہ فقط جسم پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اس کی وسعت ذہن میں تصور کا خاکہ بننے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ تصور، جسمانی حالت کو تبدیل کرسکتا ہے۔ جس طرح زندگی کا تصور ذہن میں لایا جاتا ہے، زندگی اس رخ پر سفر کرنے لگتی ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ذہن پرسکون اور سوچ میں یکسوئی ہو۔ ذہن اور تصور ہماری اہلیت، کارکردگی اور تخلیقی صلاحیت کو فروغ دیتے ہیں۔ بشرطیکہ ذہن و جسم میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز، ان کی اہمیت، نوعیت اور موافقت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
ایک شخص برا نہیں ہے مگر ہماری سوچ، اسے برا بنانے پر مصر ہے تو اس کا ہر عمل ہمیں برا اور اپنے خلاف محسوس ہوگا۔ یہ سوچ کا مغالطہ ہر صورتحال، ہماری ذہنی کیفیت کے مطابق تخلیق کرے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مثبت نتائج پانے کے لیے وقف کردیں۔ تصور کا سہارا لے کر ایسی حقیقت تخلیق کریں جو ہماری رکاوٹوں کا رخ اطمینان اور کامیابی کی طرف موڑ دے