جب اندرا گاندھی کو خون کی 80 بوتلیں لگیں


انڈیا کی ریاست اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور سے ملک کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی بہت سے یادیں وابسطہ تھیں لیکن ان میں سے بیشتر ناخوشگوار تھیں۔
یہ وہی شہر ہے جہاں ان کے والد اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو شدید بیمار ہوگئے تھے اور جس کی وجہ سے مئی 1964 میں ان کی وفات ہوگئی۔ اسی شہر میں 1967 میں ایک انتخابی ریلی کے دوران اندرا گاندھی کے اوپر کسی نے ایک پتھر پھینکا تھا جس سے ان کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔
30 اکتوبر1984 کی دوپہر کو اندرا گاندھی نے انتخابی ریلی سے جو خطاب کیا تھا اس خطاب کو ہمیشہ کی طرح ان کے عوامی رابطے کے مشیر وائی شاردہ پرساد نے تحریر کیا تھا۔
لیکن اندراگاندھی نے اچانک تیار شدہ تقریر سے ہٹ کر بولنا شروع کردیا۔ ان کے بولنے کا طریقہ بھی بدل گیا۔
اندار گاندھی نے کہا ‘میں آج یہاں ہوں، کل شاید یہاں نہ رہوں۔ مجھے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ میں یہاں رہوں یا نہ رہوں۔ میں نے ایک طویل زندگی جی ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں گزاری ہے۔ میں اپنی آخری سانس تک ایسا ہی کرتی رہوں گی۔ اور جب میں مروں گی تو میرے خون کا ایک ایک خطرہ بھارت کو مضبوط کرنے کا کام کرے گا’۔
کبھی کبھی قدرتی طور پر ایسے الفاظ منہ سے نکلتے ہیں جو مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اس تقریر کے بعد جب وہ بھونیشور میں گورنر ہاؤس پہنچی تو اس وقت گورنر وشمبھرناتھ پانڈے نے کہا کہ آپ نے اپنی پرتشدد موت کا ذکر کرکے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
اندراگاندھی نے کہا کہ وہ تو ایمانداری سے بات کررہی تھیں۔
اس رات جب اندرا گاندھی دلی واپس لوٹی تو وہ کافی تھکی ہوئی تھیں۔ اس رات وہ بہت کم نیند لے پائیں تھی۔
سامنے کے کمرے میں سوئی ہوئی سونیا گاندھی جب صبح چار بجے دمہ کی دوائی لینے کے لیے اٹھ کر باتھ روم گئیں تو اس وقت اندرا گاندھی جاگی ہوئی تھیں۔
سونیا گاندھی اپنی کتاب ‘راجیو’ میں لکھتی ہیں کہ اندرا گاندھی بھی ان کے پیچھے پیچھے باتھ روم میں آگئیں اور دوا ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرنے لگیں۔
انہوں نے سونیا سے کہا کہ اگر تمہاری طبیعت پھر خراب ہو تو مجھے آواز دے دینا۔ میں جاگ رہی ہوں۔
اندرا گاندھی
Getty Images
سونیا گاندھی اپنی کتاب ‘راجیو’ میں لکھتی ہیں کہ اندرا گاندھی بھی ان کے پیچھے پیچھے باتھ روم میں آگئیں اور دوا ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرنے لگیں۔

ہلکہ ناشتہ

صبح ساڑھے سات بجے تک اندار گاندھی تیار ہوچکی تھیں۔ اس دن انہوں نے زرد رنگ کی ساڑھی پہنی تھی جس کا بارڈر کالا تھا۔
اس دن ان کی دستاویزی فلم ہدایت کار پیٹر استینو سے ملاقات طے تھی۔ پیٹر اندراگاندھی پر ایک ڈاکومینٹری فلم بنارہے تھے اور اس سے ایک دن پہلے وہ اڑیسہ میں بھی اندرا گاندھی کی فلم بندی کر رہے تھے۔
دوپہر میں انہیں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جیمس کیلگھن اور ریاست میزورم کے ایک سیاسی رہنما سے ملاقات کرنی تھی اور شام کو وہ برطانیہ کی شہزادی این کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کرنے والی تھیں۔
اس دن انہوں نے ناشتے میں دو ٹوسٹ، سیریل، سنترے کا تازہ جوس اور انڈے کھائے۔
ناشتے کے بعد جب ان کے میک اپ مین ان کے چہرے پر پاؤڈر اور بلش اون لگا رہے تھے تو ان کے ڈاکٹر کے پی ماتھر انہیں دیکھنے پہنچے، وہ روزانہ اسی وقت انہیں دیکھنے آتے تھے۔
انہوں نے ڈاکٹر ماتھر کو بھی اندر بلالیا اور دونوں باتیں کرنے لگے۔
انہوں نے امریکی صدر رونلڈ ریگن کے ضرورت سے زیادہ میک اپ کرنے اور 80 سال کی عمر میں کالے بالے ہونے کا مذاق بھی اڑایا۔
نو بج کر 10 منٹ پر جب اندرا گاندھی باہر آئیں تو بہت خوبصورت دھوپ چمک رہی تھی۔
اندراگاندھی
Getty Images
اندر گاندھی کی سوانح عمری لکھنے والے اندر ملہوترا بتاتے ہیں کہ خفیہ اداروں نے متنبہ کیا تھا کہ اندرا گاندھی پر حملہ ہوسکتا ہے
انہیں دھوپ سے بچانے کے لیے سپاہی نارائن سگنگھ کالی چھتری لیے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
ان سے چند قدم پیچھے تھے کانگریس کے اہم سیاسی رہنما آر کے دھون اور ان کے تھوڑا پیچھے تھے اندرا گاندھی کے ذاتی خادم ناتھو رام۔
سب سے پیچھے تھے ان کے ذاتی سیکورٹی اہلکار سب انسپکٹر رامیشور دیال۔ اسی درمیان ایک ملازم ایک ٹی سیٹ لے کر سامنے سے گزرا جس میں استونیو کو چائے پیش کی جانے والی تھی۔ اندرا نے اسے بلاکر کہا کہ استونیو کے لیے چائے کی پیلایوں کا دوسرا سیٹ نکالا جائے۔
جب اندرا گاندھی اس وقت کے وزیر اعظم ہاؤس 1 اکبر روڈ کے گیٹ پر پہنچی تو وہ آر کے دھون سے باتیں کررہی تھیں۔
دھون ان کو بتارہے تھے کہ اندرا گاندھی کے حکم کے مطابق انہوں نے یمن کے دورے پر گئے ہوئے صدر گیانی زیل سنگھ کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ سات بجے تک دلی لینڈ کرجائیں تاکہ ان کو پالم ہوائی اڈے پر خو ش آمد کہنے کے بعد وہ برطانیہ کی شہزادی این کے اعزاز میں ہونے والے ڈنر میں شامل ہوجائیں۔
اندراگاندھی
Getty Images
اچانک وہاں تعینات سیکورٹی گارڈ بے انت سنگھ نے اپنی ریولور نکالی اور اندرا گاندھی پر نشانہ لگایا۔ اندرا گاندھی کے پیٹ میں گولی لگی۔
اندرا نے چہرہ بچانے کے لیے دائیاں ہاتھ اٹھایا لیکن تبھی بے انت نے بالکل پوائنٹ بلینک رینج سے دو اور فائر کیے۔ یہ گولیاں اندرا کی بغل، سینے اور کمر میں لگیں۔
وہاں سے پانچ فٹ کی دوری پر ستونت سنگھ اپنی ٹامسن آٹومیٹک کاربائین کے ساتھ کھڑا تھا۔
اندرا گاندھی کو گرتے ہوئے دیکھ کر وہ دہشت زدہ ہوگیا اور اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں۔ تبھی بینت نے چلا کر کہا گولی چلاؤ۔
ستونت نے تبھی اپنی آٹومیٹک کاربائین کی سبھی 25 گولیاں اندرا گاندھی کے جسم میں اتار دیں۔
بے انت سنگھ کو فائر کیے 25 سیکنڈ گزر چکے تھے اور وہاں تعینات سیکورٹی دستے کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
ابھی ستونت گولی چلا ہی رہا تھا کہ سب سے پیچھے چلنے والے رامیشور دیال نے آگے دوڑنا شروع کیا۔ لیکن وہ اندرا گاندھی تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ ستونت سنگھ کی گولی ان کی ران اور پیر میں لگی اور وہ وہیں گر گئے۔
اندرا گاندھی کے عملے نے ان کی یہ حالت دیکھی اور ایک دوسرے کو احکامات دینے لگے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے باہر تعینات ایک پولیس افسر دنیش بھٹ یہ دیکھنے باہر آئے کہ یہ کیسا شور مچا ہے۔

ایمبولنس ندارد

اسی وقت بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ دونوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے۔ بے انت سنگھ نے کہا ‘ہمیں جو کرنا تھا ہم نے کردیا ۔ اب تمہیں جو کرنا ہے کرو’۔
تبھی نارائن سنگھ نے آگے کود کر بے انت سنگھ کو زمین پر پٹخ دیا۔ قریب کے گارڈ روم سے آئی ٹی بی پی کے جوان دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے ستونت سنگھ کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیا۔
اندرا گاندھی
Getty Images
ستونت نے تبھی اپنی آٹومیٹک کاربائین کی سبھی 25 گولیاں اندرا گاندھی کے جسم میں اتار دیں۔
حالانکہ وہاں ہر وقت ایک ایمبولنس کھڑی رہتی تھی۔ لیکن اس دن اس کا ڈرائیور وہاں سے غائب تھا۔ تبھی اندرا کے سیاسی مشیر ماکھن لال فوتیدار نے چلا کر کار نکالنے کے لیے کہا۔
اندرا گاندھی کو آر کے دھون اور سیکورٹی اہلکار دنیش بھٹ نے سفید ایمبیسڈر کار کی پیچھے والی سیٹ پر رکھا۔
آگے کی سیٹ پر دھون، فوتیدار، اور ڈرائیور تھا۔ جیسے ہی کار چلنے لگي سونیا گاندھی ننگے پاؤں، اپنے ڈریسنگ گاؤن میں ممی ممی چلاتے ہوئی بھاگتی ہوئی آئیں۔
اندرا گاندھی کی حالت دیکھ کر وہ اسی طرح کار میں بیٹھ گئیں۔ انہوں نے خون سے لتھ پت اندرا گاندھی کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
اندرا گاندھی
Getty Images
اندرا گاندھی اور ذولفقار علی بھٹو کی یادگار تصویر
کار بہت تیزی سے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یعنی ایمز کی جانب روانہ ہوئی۔ چار کلومیٹر کے سفر کے دوران کوئی بھی کچھ نہیں بولا۔ سونیا کا گاؤن اندرا کے خون سے بھیگ چکا تھا۔

سٹریچر غائب

کار نو بج کر 32 منٹ پر ایمز پہنچی۔ وہ اندرا گاندھی کے بلڈ گروپ او آر ایچ نیگیٹو کا سٹاک موجود تھا۔
لیکن وزیر اعظم ہاؤس سے کسی نے ایمز کے عملے کو فون کر یہ نہیں بتایا کہ اندرا گاندھی کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا جارہا ہے۔
ایمرجنسی وارڈ کا گیٹ کھلنے اور اندرا کے کار سے اتارنے میں تین منٹ لگ گئے۔ گیٹ پر ایک سٹریچر تک موجود نہیں تھا کیونکہ کسی کو اس بات کی اطلاع ہی نہیں تھی کہ اندرا گاندھی کو گولی لگنے کے بعد ہسپتال لایا جارہا ہے۔
کسی طرح ایک پہیے والے سٹریچر کا انتظام کیا گیا۔ جب ان کو کار سے اتارا گیا تو اندرا کو اس حالت میں دیکھ کر گھبرا گئے۔
انہوں نے فورا ہسپتال کے سینئیر کارڈیولوسجٹ کو اطلاع دی۔ چند منٹوں بعد وہاں ڈاکٹر گلیریا، ڈاکٹر ایم اے کپور اور ڈاکٹر ایس بالارام پہنچ گئے۔
الیکٹروکارڈیو گرام میں اندرا گاندھی کے دل میں معمولی سی حرکت دکھائی دے رہی تھی لیکن نبض میں کوئی حرکت نہیں تھی۔
ان کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلی ہوئی تھیں جس سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ ان کے دماغ کو چوٹ پہنچی ہے۔
ایک ڈاکٹر نے ان کے منہ کے ذریعے ان کی سانس کی نالی میں ایک ٹیوب ڈالی تاکہ پھیپھڑوں میں آکسیجن پہنچ سکے۔ ان کے ایک پھیپھڑے میں گولی لگی تھی اور گولیوں کی طاقت سے ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی۔ صرف ان کا دل کام کررہا تھا۔
اپنے سیکورٹی گارڈوں کے ہاتھوں گولی مارے جانے کے چار گھنٹے بعد دو بج کر 32 منٹ پر اندرا گاندھی کی موت کا اعلان کیا گیا۔
لیکن سرکاری نشریاتی اداروں نے اس خبر کو چھ بجے تک نشر نہیں کیا۔
اندرا گاندھی کی سوانح عمری لکھنے والے اندر ملہوترا بتاتے ہیں کہ خفیہ ادراوں نے متنبہ کیا تھا کہ اندرا گاندھی پر اس طرح کا حملہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے سفارش کی تھی کہ وزیر اعظم ہاؤس پر تعینات سکھ سیکورٹی گارڈ کو ہٹا دیا جائے۔
لیکن جب یہ فائل اندرا گاندھی کے پاس پہنچی تو انہوں نے بہت غصے میں تین الفاظ فائل پر لکھے ‘ آر وی نوٹ سیکولر’ کیا ہم سیکولر نہیں ہیں؟
اس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ ایک ساتھ دو سکھ سیکورٹی گارڈوں کو ایک ساتھ اندرا گاندھی کے قریب ڈیوٹی پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔
31 اکتوبر کے دن ستونت سنگھ نے یہ بہانہ بنایا کہ ان کا پیٹ خراب ہے اس لیے انہیں بیت الخلا کے قریب تعینات کیا جائے۔ اس طرح بے انت اور ستونت سنگھ دونوں ایک ساتھ تعینات ہوئے اور انہوں نے اندرا گاندھی سے سکھوں کے خلاف ہونے والے آپریشن بلو سٹار کا بدلہ لیا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔