(یاد رکھا جائے یہ بلاگ ہم سے لیا گیا ہے،اور یہ ادارتی نوٹ ہم سب کا ہے جس سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔)
نوٹ: ہم سب کا ادارتی عملہ محترم میاں محمد بن عاشق کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔ تاہم ان کی تحریر دو اسباب کی بنا پر شائع کی جا رہی ہے۔ اول ہمیں ان کے حق رائے کا احترام ہے۔ دوسرے انہوں نے ریاست، اقدار، عقیدے اور فرد کی آزادی کے بارے میں کچھ بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اور ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان معاملات پر منقسم رائے رکھتی ہے۔ ہم سب کے محترم لکھنے والوں سے گزارش ہے کہ فریقین کے شخصی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس اصولی بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ آگر جناب میاں محمد صاحب کے موقف میں کوئی قانونی، معاشرتی اور سیاسی سقم ہے تو اسے دلیل اور شواہد کی روشنی میں واضح کیا جائے۔ اور جو اصحاب ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں وہ اپنے دلائل بلا جھجھک پیش کریں۔ مقصد اس بحث کا یہ طے کرنا ہے کہ کیا ہم پاکستان کو ایک ایسا روادار اور متنوع معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں شہریوں کو کسی دوسرے کے حقوق اور آزادیوں میں مداخلت کئے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہو یا ہم پاکستان کے رہنے والوں پر اقدار اور رہن سہن کا کوئی خاص نمونہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ صرف ایک گزارش ہے کہ بحث کا مقصد اپنی رائے پیش کرنا ہوتا ہے۔ کسی کی کردار کشی یا کسی پر حکم لگانے سے گریز کیا جائے تو ہمیں خوشی ہو گی۔ (مدیر)
٭٭٭ ٭٭٭
میں نے ٹیوٹر پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک لڑکی نیم برہنہ لباس پہن کر ناچ رہی تھی۔ایک ٹویٹر صارف نے لکھا کہ یہ کیلیفورنیا نہیں بلکہ پاکستان کے دارالحکومت میں واقع ایک تعلیمی ادارہ ہے میں اس ادارے کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ اس کے جواب میں ایک خاتون صحافی نے لکھا کہ اس کو جو پسند ہے اس نے وہ پہنا ہے اور جو پسند ہے وہ کر رہی ہے۔ اور ان محترمہ نے لکھا کہ ضیاء الحق والی مسلم لیگ نون اب ماضی بن گئی ہے اور اب ہم بائیں طرف جا رہے ہیں۔
میں ان محترمہ کی بہت عزت کرتا ہوں کیوں کہ میں نے ان کو کافی بار انڈین چینلز پر دیکھا ہے وہ جس انداز سے پاکستان کا مؤقف بیان کرتی ہیں وہ قابلِ ستائش ہے۔ میں نے ان کا نام اس وجہ سے نہیں لکھا کیوں کہ میرا لکھنے کا مقصد کسی کی ذات پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے مؤقف کی نفی کرنا ہے۔
میں جب ان کی یہ ٹویٹ دیکھی تو میں بہت حیران ہوا کہ کیا یہ ایک مسلم خاتون کا مؤقف ہے کہ آپ کا جو دل کرتا ہے وہ کریں۔ کیا اسلام نے ہمیں نہیں بتایا کہ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے؟
میں اس بات کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کیا پہننا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔ انسان کی وضع قطع اور لباس سے انسان کے ثقافت واضح ہوتی ہے۔ ہمیں مسلمان ہوتے ہوئے ایسا لباس زیب تن کرنا چاہئے جس سے انسان کا ستر واضح نہ ہو اور خواتین جو بھی لباس پہنیں مگر قرآن مجید کے اس حکم کو لازمی مدِ نظر رکھیں کہ “اپنی اوڑھنی اپنے سینے پر ڈالو”۔
میں اس بات پہ حیران تھا کہ کیا نیم برہنہ لباس پہننے والے کا دفاع کرنا چاہیے یا پھر اسے سمجھانا چاہئے۔ ماننا یا نا ماننا کسی کی بھی اپنی مرضی ہے۔ ہمیں کسی پر اپنا فیصلہ تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام میں دائیں کو بایئں پر فوقیت حاصل ہے تو ہمیں دائیں طرف ہونے میں فخر محسوس کرنا چاہئے۔
یہ اس وڈیو کا لنک ہے جس کے بارے میں محترم خاتون صحافی نے مذکورہ بالا ٹویٹ کیا تھا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر
حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔