کے فتوے بھی کانوں تک پہنچ رہے ہیں شکر ہے کہ مفتی صاحبان بھی نیند سے بیدار ہوئے اور انھیں بھی پتہ چلا کہ ملک میں حرام کام ہونے جا رہا ہے سوچتی ہوں اگر وہ اصحاب کہف کی طرح غاروں میں سوئے رہتے تو انھیں علم ہی نہ ہوتا کہ باہر کیا ہورہا ہے جانے کتنا عرصہ بیت جاتا جب ان کی آنکھ کھلتی تو منظر ہی بدل چکا ہوتا، حکومت بدل چکی ہوتی، حواری بدل چکے ہوتے، لیکن انھیں تو تب سمجھ آتی جب ان کا ”سکہ“ نہیں چلتا۔
آپ بھی تصور کیجیئے اور اس بات کا لطف لیجیے جب ہم ان اصحاب سے پوچھتے کہ صاحب آپ کون، کہاں سے آئے ہیں، کس زمانے سے تعلق ہے، یہاں تو تبدیلی آکر گزر بھی چکی۔ آپ کون سے زمانے کی بات کرتے ہیں اور یہ جیب سے اپنا ”سکہ“ نکال کر کہتے اس زمانے کی۔ تو ہم فرماتے آپ کا ”سکہ“ اب نہیں چلنے کا کہ یہ سکہ اب رائج الوقت نہیں۔ اس پر کبھی وہ ہمیں اور کبھی اپنے سکے کو دیکھتے۔ لہذا وہ شکر ادا کریں کہ ان کی آنکھ جلد کھل گئی اور ان کا سکہ ضائع ہونے سے بچ گیا۔
ایک مفتی صاحب دوسرے مولانا صاحب کو بتاتے پھر رہے ہیں کہ وہ حرام فعل انجام دینے جا رہے ہیں۔ اب آپ حرام فعل انجام (دھرنا )دینے والے مولوی کو، ”ہلال“ دیکھنے والے مولوی صاحب نہ سمجھ لینا کہ ان کا تذکرہ تو اب عدالتوں میں ہوتا ہے۔ کہ یہاں دوسرے مولانا صاحب کا ذکر ہے جو دھرنا دینے جارہے ہیں۔ اور چند مفتی صاحبان پورا زور لگا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا دھرنا حرام ہے۔ تو صاحب اگر آپ میں کوئی مرد مجاہد ہے جو آگے بڑھے اور انتہائی ادب سے بے ادبی کرنے کی جرات کر لے کہ قبلہ اب سے پہلے جو دھرنے دیے گئے ہیں کیا وہ بھی حرام تھے یا یہ بگاڑ صرف موجودہ دھرنے سے وابستہ ہے۔
اگر یہی دھرنا حرام ہے تو گذشتہ دھرنے حلال کیسے ہوئے؟ اس سوال سے مفتی صاحب جلال میں آسکتے ہیں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عقل و دانش کا دامن ہاتھ سے جانے دیں اور روانی میں انھیں بھی حرام کہہ دیں تو پھر ہم آپ کیا کہہ سکتے ہیں کہ ہر بندہ اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہے۔ اگر وہ ایسا کہہ دیں تو بنا تاخیر ان سے ایک سو چھبیس روز کے دھرنے کا کفارہ معلوم کر لیں قبل اس کے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔
دھرنوں کی تاریخ کوئی اتنی پرانی نہیں یہی کوئی چار دہائی قبل چار الٹے دماغ کے کالے لوگوں نے امریکی سفید فاموں سے پنگا لے لیا۔ یہ احمق طالب علم امریکی ریاست میں اپنے لئے مساوی حقوق کا مطالبہ خاموش رہ کر رہے تھے۔ ان معصوموں کو کیا پتہ تھا کہ دھرنے تو پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اچھے لگتے ہیں خاص کر اس وقت جب ساتھ میوزک کا تڑکا بھی ہو۔
انھیں نہیں علم تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ورائٹی آجائے گی۔ اور یہ دھرنے حکومتوں کو مصیبت ڈال دیں گے، تو کہیں حق مانگنے کی آڑ میں لوگوں کو انٹرٹین کریں گے اور راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائیں گے۔ پاکستان میں پہلے حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکلتے تھے لیکن اب جلوس اولڈ فیشن ہو چکے اب دھرنوں کا رواج ہے۔
پاکستان میں آئے روز دھرنے ہوتے رہتے ہیں اساتذہ، مزدور دھرنا دیتے ہیں نرسوں اور ڈاکٹرز کا دھرنا تو اب معمول کی بات ہے۔ ہزاروں کی مد میں تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود یہ ہر سال سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ان کے سالانہ دھرنوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پورے ملک میں بس انھی کے حقوق سلب ہوتے ہیں باقی عوام تو بہت سکون سے ہیں۔ پتہ نہیں پولیس والوں نے اپنے حق کے لئے آج تک دھرنا کیوں نہیں دیا۔ شاید یہ اپنا حق خود ہی وصول کر لیتے ہیں اور ان کی ضروریات دھرنوں کے بغیر ہی پوری ہوجاتی ہیں۔
سیاسی لوگ بھی توجہ کھینچنے کے لئے اب دھرنوں ہی کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔ ان کے دھرنوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ لوگ حقوق کے لئے نہیں ریکارڈ بنانے کے لئے دھرنے دیتے ہیں۔ دو ہزار چودہ سے قبل لانگ ٹرم دھرنے کا ٹریلر پیش کیا گیا۔ یہ دھرنا لوگوں کی نبض چیک کرنے کے لئے تھاکہ طے کیا جا سکے طویل مدت کا دھرنا دیا جائے یا نہیں۔ قادری صاحب آئین کی شق باسٹھ تریسٹھ پر عمل کروانے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے جس پر کوئی سیاستدان متفق تو نہیں تھا پھر بھی حکومتی وفد علامہ صاحب کے پاس مذاکرات کے لئے آیا تو انھوں نے جھٹ سے مہاریں موڑ لیں ورنہ حکومت وہ معاہدہ (جس پر کبھی عمل نہیں ہونا تھا) بھی نہ کرتی اور انھیں سردی میں بیٹھا رہنے دیتی تو بھلا کیا کر لیتے قادری صاحب۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اس سندیس کے لئے موصوف نے خاص دعائیں کی ہوگی کہ سندیس لے کے کوئی ”کاں“ ہی آجائے تو وہ واپسی کی راہ لیں۔ واپسی جلدی ہو گئی تھی لیکن حکومت اور دھرنا قائد کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سواد آ گیا تھا۔ اسی سواد کا ذائقہ بڑھانے کے لئے دو ہزار چودہ میں پھر دھرنا شروع ہوا۔ قادری صاحب اور خان صاحب ایک ساتھ میدان میں کودے دونوں لوگوں کا ”جم غفیر“ اکھٹا کر لائے اس دوران دھرنے میں محبتیں عروج پر پہنچیں اور چشم فلک کے ساتھ چشم میڈیا کے ذریعے دنیا نے بھی دیکھا کہ دھرنے میں سیاسی رشتے بھی بنے اور ازدواجی بھی۔
کوئی کفن لپیٹے ملتا تو کوئی ٹھنڈی راتوں کو اپنے جوش خطابت اور ڈی جے کے گانوں سے گرماتا۔ رات ہوتے ہی اسلام آباد جاگ اٹھتا۔ پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کرنے کے باوجود ان دونوں رہنماؤں کا دعوی تھا کہ دھرنا پر امن ہے اس میں ایک گملہ تک نہیں ٹوٹا وہ الگ دھرنا والوں نے ایس پی کا سر توڑنے میں کسر نہیں چھوڑی تھیں۔ اس دھرنے سے ملک کو نقصان تو اتنا نہیں ہوا تھا جتنا فائدہ بہت سارے لوگوں کو ہو گیا، کتنوں کے کاروبار چمکے اس دھرنے میں اور کتنے کنواروں کی قسمت۔
حجام سے لے کر ایزی لوڈ والوں کی چاندی لگ گئی۔ کھانے کا اہتمام بھی اچھا تھا سو لوگ رج کے کھاتے اور سر عام نہاتے۔ کئی بچے اس دھرنے میں جنم لے کر کچھ نہ کر کے بھی تاریخ میں اپنا نام بنا گئے۔ خان صاحب کو بھی اصل فائدہ اسی دھرنے سے ہوا۔ اتنا فائدہ جتنا ان کی سولہ سالہ سیاست سے بھی ان کو نہ ہو سکا۔ دھرنا والوں نے خوب رونق میلہ لگائے رکھا بچے بڑے، بوڑھے سبھی خوش تھے اگر اندر سے کوئی پریشان تھا تو وہ دھرنا قیادت ہی تھی کہ اب اس دھرنے سے چھٹکارا کیسے پایا جائے۔
واپسی کی کوئی راہ نہیں سجھائی دے رہی تھی کہ آرمی پبلک سکول میں خود کش حملہ ہوا اور دھرنا والوں کی جان بخشی ہوئی۔ اب دھرنا سیزن تھری شروع ہونے والا ہے مولانا فضل الرحمن اس دھرنے کے لئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں شاید انھیں یقین ہو گیا ہے کہ دھرنا دینے کے بعد دھرنا قائد وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ یہ مولوی صاحبان کا دھرنا ہے لہذا عوام اس دھرنے سے گذشتہ دھرنے جیسی توقعات نہ لگائے کہ یہاں ماحول گرمانے کے لئے وہ رونق میلہ ہوگا جو پچھلے دھرنے میں تھا۔ اس حساب سے تو اس کے حرام ہونے کے خدشات جاتے رہتے ہیں پھر بھی اگر کوئی اس پر حرام کا فتوی لگا دے تو پھر مفتی مفتی ہوتا ہے وہ حلال کو بھی حرام کہہ دے تو پھر حلال بھی حرام ہو جاتا ہے باقی سب چھوڑیئے صاحب ہمیں تو یہ جاننا ہے کہ شوہر کے خلاف بیویوں کا دھرنا حرام ہوگا یا حلال؟