جہانگیر ترین نے سنہری حرفوں سے لکھی جانے والی بات کہی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اپوزیشن کا مائنس ون فارمولا عمران خان پر لاگو نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں بدعنوانی اور سیاست میں شخصیت پرستی کا رجحان ختم کرنے کے لئے ہی عمران خان نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے دو دہائی تک جد وجہد کی تھی۔ اب جہانگیر ترین ، عمران خان کو ایسی شخصیت کے طور پر پیش کررہے ہیں جس کا کوئی متبادل میسر نہیں ہے۔ سپریم کورٹ انہی جہانگیر ترین کے بارے میں یہ قرار دے چکی ہے کہ وہ ’صادق و امین ‘ نہیں رہے۔ جہانگیر ترین کے پاس حکومت یا پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن حکومت اور پارٹی کا کام ان کے بغیر چلتا بھی نہیں ہے۔ البتہ حامد خان جیسے دیرینہ سیاسی ساتھی کی پارٹی میں گنجائش باقی نہیں رہتی۔ گو کہ عمران خان کا بدستور یہ دعویٰ ہے کہ وہ عدالتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ویسے وہ دعویٰ تو یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ این آر او نہیں دیں گے اور بدعنوانی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم کے منہ سے نکلے ہوئے فرمودات سے کون اختلاف کرسکتا ہے۔
نواز شریف کو ملک سے روانہ ہونے کے لئے ’این آر او‘ دینے کے معاملے پر عمران خان اور ملک کے چیف جسٹس نے بیانات کا تبادلہ ضرور کیا لیکن لگتا ہے کہ یہ مقابلہ کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا ہے۔ اسی لئے این آر او والے نعرے کو حسب ضرورت زندہ کرلیا جائے گا۔ فی الوقت ملک ریاض سے براستہ برطانیہ وصول ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ کا معاملہ تازہ ہے۔ یہ کثیر رقم ملک ریاض ایک خفیہ معاہدے کے تحت برطانوی حکام کے حوالے کر چکے ہیں اور برطانیہ نے پاکستانی عوام کے لئے اسٹیٹ بینک کو بھیج دی تھی۔ لیکن بیرسٹر شہزاد اکبر کے بیان کے مطابق یہ رقم نہایت دیانت داری سے سپریم کورٹ میں ملک ریاض کے کھاتے میں جمع کروا دی گئی ہے۔ حکومت کا یہ بھی اصرار ہے کہ ملک ریاض کو بدعنوان نہ کہا جائے کیوں کہ انہوں نے ایک سول معاہدہ کے تحت یعنی مہذب طریقہ سے یہ رقم برطانوی کرائم ایجنسی کے حوالے کی تھی۔ اس معاملہ میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہؤا اور ملک ریاض پر کوئی شبہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس کام کے لئے اپوزیشن لیڈروں کی پوری قطار موجود ہے۔ انہیں کسی بھی الزام میں کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے آج ایک ٹوئٹ میں لندن میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کی ملاقات کو بھگوڑوں کا اکٹھ قرار دیا اور کہا کہ ’اگر کسی قیدی کو علاج کروانے کا حق حاصل ہے تو قانون کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ جرم کرنے والوں کی گرفت کرے‘۔
فردوس عاشق اعوان کا یہ بیان بھی دراصل سنہرے الفاظ سے ہی لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس بیان میں وزیر اعظم کی منہ زور مشیر اطلاعات نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ نواز شریف کو ان کی اصل پہچان یاد دلوا دی اور حکومت کے اس عزم کا اظہار کردیا کہ وہ انصاف کے نام پر جسے چاہے چھوڑ دے اور جسے چاہے گرفت کر لے۔ اس کی مرضی ہو تو برطانیہ میں درپردہ معاہدہ کرنے والے ملک ریاض کو قوم کا محسن اور قانون پسند شہری قرار دے اور ان کی دولت انہی کو واپس کرتے ہوئے کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہ کرے۔ اور جب چاہے کسی بھی سیاسی مخالف کے خلاف قانون اور عدالت کا فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ہی اس کو یوں ’چور اور لٹیرا‘ پکارے کہ وہ زبان زد عام ہوجائے۔ سیاست ہو یا سماجی رویے، بات تو وہی ’سچ‘ سمجھی جاتی ہے جس کے برحق ہونے پر عام لوگوں کو یقین دلوا دیا جائے۔ فردوس عاشق اعوان اور کابینہ میں ان کے ساتھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو چور ثابت کرنے کے بعد اب بعض لوگوں کو دیانت دار اور محسن قوم ثابت کرنے کا کامیاب تجربہ کر رہے ہیں۔
اسی اصول کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود جہانگیر ترین کو محسن قوم کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسی لئے وہ عمران خان اور تحریک انصاف کو لازم و ملزوم قرار دے کر حق خدمت ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے فردوس عاشق اعوان، شیخ رشید اور جہانگیر ترین جیسی مصاحبت میں گھرے عمران خان کو یوں بھی تحریک انصاف کے ساتھ لازم قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر نہیں ہو گا تو وہ تحریک انصاف کے ساتھ اکیلے ہی ہوں گے۔ ان کے مصاحبین تو نئے آشیانوں میں پناہ گزین ہو چکے ہوں گے۔ تب ہی عمران خان کو اپنی حقیقت اور ساتھیوں کی دور اندیشی کا یقین آئے گا۔ اس وقت جو کھوٹے سکے انہیں قیمتی اور انمول لگتے ہیں ، آنے والے دنوں میں وہ ان کے ڈنگ پر تلملائیں گے تو کوئی ان کی آہ و زاری سننے والا بھی نہیں ہو گا۔
آج کل حکومت اور تحریک انصاف کے قائدین کا کل زور بیانات پر ہے۔ بیان جاری کرنے کا نسخہ چونکہ آسان اور منظور شدہ ہے لہذا ہر لیڈر بلاخوف تردید بیان جاری کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ البتہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس کا مسالہ ذرا تیکھا ہو تاکہ ٹیلی ویژن کا ٹکر بھی بن سکے اور ’تازہ ترین‘ کے دھماکے کے ساتھ نشر بھی کروایا جا سکے۔ جس طرح سینیٹر فیصل جاوید خان کا یہ بیان کہ مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جائے گا، لندن میں نواز شریف کے بیٹے ان کی دیکھ بھال کے لئے موجود ہیں۔ لیکن فیصل جاوید نوجوان سہی ، سیاست دان تو ہیں، اسی لئے اس تیکھے بیان کے ساتھ باہر نکلنے کا راستہ بھی کھول لیا کہ ’حکومت عدالتوں کے ہر فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائے گی‘۔ واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ سوموار سے مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کرنے والی ہے۔
ملک ریاض کے معاملہ نے اگرچہ تحریک انصاف کے نعروں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے لیکن جس حکومت کو کرنے کے لئے کوئی کام نہ ہو اور وہ جس کام میں ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کرے، اسے خراب کرنے کا اہتمام کرنا ہی اس کا ٹریڈ مارک بن چکا ہو۔ خواہ وہ کام آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسی حکومت کے لیڈر بدعنوانی اور سابقہ حکمرانوں کی چور بازاری کے بیانیہ کے علاوہ کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔ اگرچہ ملک ریاض کے 38 ارب روپے والا بھوت تحریک انصاف اور اس کی حکومت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے لیکن وہ نہایت ڈھٹائی سے بدعنوانی کو ختم کرنے کا عزم دہراتے ہیں۔ جیسا کہ سینیٹر موصوف نے فرمایا ہے کہ ’عمران خان کرپشن اور منی لانڈرنگ کی لعنت کو ختم کرکے ہی دم لیں گے‘۔ ملک ریاض کے معاملہ میں بعینہ یہی کیا گیا ہے۔ منی لانڈرنگ کی لعنت کے ذریعےبرطانیہ بھیجے گئے سرمائے کو جب برطانوی ایجنسی نے حکومت پاکستان کو لوٹایا تو حکومت نے پوری دیانت داری سے یہ دولت اس کے اصل ’حقدار‘ تک پہنچا دی۔ اسی لئے شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ ملک ریاض کو بدعنوان نہ کہا جائے اور نہ ہی قصور وار سمجھا جائے۔
کوئی عام ملک ہوتا یا اس کا انتظام واقعی قانون کا پابند ہوتا تو دن دہاڑے کی جانے والی اس دھوکہ دہی پر قیامت برپا ہو چکی ہوتی۔ میڈیا سراپا احتجاج ہوتا اور حکومت کا ناک میں دم کردیتا اور اپوزیشن پارلیمنٹ میں حکومتی نمائندوں کی زندگی تلخ کرچکی ہوتی۔ لیکن میڈیا اور اپوزیشن کے حلق میں ملک ریاض کا نام کسی ہڈی کی مانند اٹک جاتا ہے۔ اسی لئےملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں ’حکومت گرانے‘ کی ترکیبیں تو سوچتے ہیں لیکن ملک ریاض کا ذکر آتے ہی شرمانے لگتے ہیں۔ نہ بھئی ’ان‘ کا نام نہ لیا جائے۔
اور روزنامہ ڈان کے باہر پے در پے مظاہروں سے اڑھائی اینٹ کی مسجد بنا کر میڈیا کی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے والوں کو پیغام دے دیا جاتا ہے۔ اب ڈان اپنے اداریے میں چلاتا رہے کہ ’ہمارے منتخب وزیر اعظم کو گلا پھاڑ کر آزادی صحافت کے لئے آواز اٹھانا چاہئے‘۔ عمران خان تو وہی کہیں گے جو وہ جانتے ہیں کہ ’سچ ‘ ہے۔ یعنی میڈیا آزاد ہے اور حکومت آزادی رائے پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرے گی۔ حکومت کے بیانات کی نشر و اشاعت کے حوالے سے یہ سو فیصد درست بیان ہے۔
کیا اس خوف، ہراس اور زور زبردستی سے پاکستانی عوام کے ساتھ کئے جانے والے دھوکہ کو جائز قرار دیا جا سکے گا؟ سوشل میڈیا مباحث اور گلی کوچوں میں ہونے والی گفتگو اس کا واضح جواب فراہم کرتی ہے۔ اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے برطانوی حکام سے ملک ریاض کے معاملہ میں مزید معلومات فراہم کرنے اور شفافیت کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک ریاض بلاشبہ نیک اور محب وطن پاکستانی ہوں گے لیکن حکومت کے چال چلن کا سرٹیفکیٹ تو اس کی کارکردگی اور فیصلوں کی روشنی میں ہی دیا جاسکے گا۔
عمران خان کو جان لینا چاہئے کہ سیاسی لیڈر اپنی باتوں سے نہیں بلکہ اعمال نامہ سے پہنچانے جاتے ہیں۔ عمران خان کے دامن پر ملک ریاض کے 38 ارب روپے کا داغ تادیر نمایاں رہے گا۔