کہتے ہیں ادیب اپنے دور کا عکاس ہوتا ہے۔ جو کچھ اس کے اردگرد ہوتا ہے وہ اسے زبان دیتا ہے۔ جو دیکھتا، سنتا اورمحسوس کرتا ہے اسے بیان کرتا ہے۔ بات سچ ہے۔ اب ادیب کے اپنے رحجان پہ ہے کہ وہ کس جانب جھکتا ہے اور اس پہ بات کرتا ہے۔ پچھلے دنوں ڈائیلاگ لکھنے کے حوالے سے مشہور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے خواتین کے برابری کے حقوق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت کو برابری کا دعوی کرنا ہے تو وہ بھی گینگ ریپ کر کے دکھائے۔ موصوف نے برابری کا معیارخوب طے کیا ہے۔ گویا کہ ہر مرد یہی کرتا ہے اس لیے عورت کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ ساری مرد برادری کی بھی تذلیل کی اور ایک قبیح عمل کو اپنے طور پہ سراہا بھی۔
اس پہ مختلف ردعمل سامنے آئے۔ کچھ نے مذمت کی، کچھ نے کہا کہ یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی، اور کچھ نے کہا کہ بالکل درست فرمایا ہے۔ یہ ردعمل جو اس بات کی تاکید کر رہا ہے، یاپھر اس کی مذمت کر رہا ہے یا ڈھکے چھپے انداز میں اس کا ساتھ دے رہا ہے اسی سماج کا ہے۔ ایک بات تو واضح ہو گئی کہ ایک ڈرامہ ٹسٹ ہونے کے ناتے خلیل الرحمن سماج کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں۔ اسی کی سوچ کو زبان دے رہے ہیں۔ یہ اتنابدبودار سماج ہے کہ جو ایک غلط اور غیر انسانی عمل کی حمایت کر رہا ہے۔ میں ایک پل کو بھی گھٹن کو اس کا الزم نہیں دوں گی۔ یہ منافق اور کنفیوژن کا شکار لوگوں کا ہجوم ہے جو بنا سوچے سمجھے اپنی گندگی باہر انڈیلتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک لمحے کو مان لیا جائے کے یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے تو کیا یہ ایسا موضوع ہے کہ جسے مزاحیہ انداز میں پیش کیا جائے۔ کیا آپ اس تذلیل اور بے بسی کا اندازہ، جسمانی اور جنسی تکلیف کا تصور اور نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کو ہلکا سا بھی سمجھ سکتے ہیں جو ویکٹم کے حصے میں آتی ہیں۔ یہ روز کی معصوم بچوں اور بچیوں کی کٹی پھٹی تصاویر جنہیں چند لمحوں کی لذت کے لیے ذلیل و رسوا کر کے مار دیا جاتا ہے۔
ان خواتین اور لڑکیوں کی تباہ حال زندگیاں جو اس قیامت سے گزری ہیں، ان لڑکوں اور مردوں کی کہانیاں جو اس جرم کا شکار ہوئے لیکن ایک لفظ تک نہ بول سکے۔ یہ سب ایک مذاق ہے؟ کوئی ہوش مند انسان ایسا سوچ بھی کیونکر سکتا ہے؟ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ایک پوسٹ نظر سے گزری جو کرکٹ میچ سے متعلق تھی کپشن تھا آسٹریلیا میں بچوں سے زیادتی جاری۔ اور سکور لکھا گیا تھا۔ پروفائل میں بچے کے ساتھ تصویر تھی۔ یہ کون سی بستی کے باشندے ہیں جو سمجھ نہیں پاتے کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔
کس گری ہوئی سطح پہ مذاق کر رہے ہیں۔ کون سی نفسیات کی ترویج کر رہے ہیں۔ ویسے بھی انسان مذاق میں وہی بات کہتا ہے جو اس کے لاشعور میں کہیں موجود ہوتی ہے لیکن کسی خوف کے بنا پہ اس کا کھل کے اظہار نہیں کر سکتا۔ ہم ذمہ داری سے کس قدر عاری ہوچکے ہیں کہ جانتے تک نہیں جرم کیا ہے۔ اس کی مذمت کیسے کرناہے، اس پہ آوازکیسے اٹھاناہے۔
جو لوگ سماج کی خامیوں پہ آواز اٹھاتے ہیں ان کے احتجاج کو کیا رنگ دیا جاتا ہے سامنے کی بات ہے اصل بات کہیں کھو جاتی ہے۔ بے معنی اور لایعنی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔ می ٹو کی مہم بھی اس کی زد میں آئی۔ مہم جنسی ہراسمنٹ کے خلاف تھی لیکن لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہراسمنٹ سہنا عین اخلاقی عمل ہے اس پہ بولنا گناہ اور بد تہذیبی۔ بجائے اس کے کہ اس بات کو سمجھا جاتا کہ سماج میں جو گھناونا عمل دبا دیا جاتا ہے۔
مجرم خوش باش رہتا ہے اور ویکٹم تکلیف اٹھاتا ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ مجرم کو جرم کی سزاملنا چاہیے اور ویکٹم کو ذلالت کا احساس نہیں دلواناچاہیے۔ اسے اس کے برعکس یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ مہم چند سر پھری فیمنسٹ خواتین کی ہے جو اس پوتر سماج کو بدنام کرنے کی سازشی تھیوری پہ عمل کر رہی ہیں۔ یہ عالمگیر تحریک ہے لیکن برصغیر کے لوگوں نے حسب عادت اسے پرسنل لیا۔ پھر جب ریپ کی، ہراسمنٹ کی اور اس کے بعد قتل کی خبریں سامنے آتی ہیں تب تبصرے مزید اس سماج کی ذہنیت کو عیاں کرتے ہیں۔
جیسا کہ ایک عام بات ”کیا یورپ میں ایسا نہیں ہوتا۔ کیا دوسرے ممالک میں یہ سب نہیں ہو رہا؟ “ کس نے کہا نہیں ہو رہا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے؟ اسے برائی نہ سمجھا جائے؟ اس کے مجرم کو پھولوں کے ہار پہنائے جائیں؟ اپنے بچے، بچیوں، لڑکوں لڑکیوں، کو ہراسمنٹ کا شکار ہونے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ آپ کیوں غلط بات کو جسٹیفائی کرتے ہیں؟ کیوں سمجھتے ہیں کہ آنکھیں بند کرلینے سے سب بدل جائے گا؟ ایسا نہیں ہوتا۔
مسئلے کو حل کیا جاتاہے تبھی حل ہوتا۔ اس کے مدارج ہوتے ہیں۔
پہلا مرحلہ سچ تسلیم کرنے کاہے کہ ہاں یہ مسئلہ شدت سے موجود ہے۔ جب یہ تسلیم کر لیا جائے گا تب معاملہ آگے بڑھتا ہے۔
دوسرا مرحلہ مسئلے کے تجزیے کا ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس میں کون کون سے سماجی، نفسیاتی، جذباتی عوامل شامل ہیں
تیسرا مرحلہ اس کا ٹھوس حل ڈھونڈنے کا ہے۔ اسے کیسے ختم کیا جائے
پھر آخری مرحلہ پہلے سے موجود ویکٹمز اور مجرموں کی کونسلنگ کا ہے کہ انہیں کیسے ان الجھنوں سے نکالا جائے۔
جب ہم سمجھ لیں گے کہ ہر بچہ ہمارا ہے۔ ہر عورت ہمارے لیے محترم ہے۔ ہر انسان کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری ہے تب اس طرح کے جرائم ختم ہوں گے۔ آپ ایسے کسی بھی حساس موضوع کو مزاح کے رنگ میں نہیں لے سکتے۔ اس پہ جو دل میں آئے نہیں کہہ سکتے جب تک آپ مان نہ لیں کہ آپ اخلاقی، ذہنی اور جذباتی طور پہ انسانیت کے درجے سے گر چکے ہیں۔