عورت کی جنسی زندگی اس کا پرلطف اثاثہ ہے، بوجھ نہیں


وہ مرد بہروپیے ہیں

جو سمجھتے ہیں

کہ انہوں نے عورت کو تخلیق کیا

اپنی ایک پسلی سے

عورت مرد کی پسلی سے نہیں آئی، کبھی نہیں

مرد عورت کی کوکھ سے نکلتا ہے

جیسے کوئی مچھلی پانی کی گہرائیوں سے نکلتی ہے

جیسے دریا میں ‌ سے ندیاں ‌ نکلتی ہیں

یہ وہ ہے جو اس کی آنکھوں کے سورج کے گرد چکر لگاتا ہے

اور تصور کرتا ہے کہ وہ مستقل ہے

(نظار قبانی)

میں کلینک میں مریض دیکھ رہی تھی جب میری اچھی دوست ہما دلاور نے مجھے ہم سب میگزین پر چھپا ہوا ایک آرٹیکل بھیجا جو پاکستان میں ہم جنس خواتین کے بارے میں تھا۔ اس کو پڑھ کر میں بہت ہنسی تھی۔ وہ ایک معصوم سا مضمون تھا جو بنیادی طور پر ایک پدرانہ معاشرے کے اندر یہ کہہ رہا تھا کہ دیکھئیے آج کی بداخلاق دنیا میں میں کتنی اچھی بچی ہوں۔ حالانکہ دیگر بالغ افراد اپنی نجی زندگی میں کیا کررہے ہیں وہ ہمارا بزنس نہیں بلکہ ان پر اعتراض کرنا تعصب کے دائرے میں آتا ہے جس پر آپ کئی ممالک میں قانونی طور پر مسائل کا شکار بن سکتے ہیں۔ کافی ساری میڈیکل ریسرچ سے ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر خواتین دنیا میں یا تو ہم جنس پسند ہیں یا بائے سیکچؤل ہیں۔ لیکن وہ اپنے بارے میں یہ بات نہیں جانتیں۔ ریسرچ سے یہ بھی سامنے آیا کہ ہم جنس پسند خواتین میں آرگیزم زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ چونکہ وہ اپنے جسم کو جانتی ہیں اس لیے انہیں پتا ہوتا ہے کہ اپنی پارٹنر کو کیسے خوش کرنا ہے۔ یہ بات ایک آدمی کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔

بچہ ماں کے پیٹ میں ہی اپنے جنسی اعضا سے کھیلنے لگتا ہے۔ یہ لڑکے اور لڑکیوں میں ایک نارمل بات ہے۔ ایک عورت کے کلیٹورس میں آٹھ ہزار نرو اینڈنگز ہوتی ہیں اور ایک مرد کے آلہ تناسل میں چار ہزار نرو اینڈنگ ہوتی ہیں۔ جس طرح ایک عورت جنسی مسرت محسوس کرسکتی ہے اور بار بار کر سکتی ہے، وہ کوئی مرد کبھی جان نہیں سکتا کیونکہ اناٹومی بالکل مختلف ہے۔ اس کو سمجھنا اور اپنی پارٹنر کو آسودہ محسوس کروانا مشکل کام ہے اسی لیے دنیا میں ہزاروں تو کیا لاکھوں خواتین ایسی ہیں جن کے کلیٹورس کاٹ کر نکال دیے گئیے ہیں۔ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری! اس کام کو کئی ممالک میں مذہبی سرپرستی حاصل ہے۔ ان خواتین میں جنسی تعلق سے کچھ مسرت تو کیا الٹا شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال کئی بچیاں اس پروسیجر کے دوران مر جاتی ہیں۔ تصور کیجئیے کہ آٹھ ہزار چاقو اکھٹے مار کر جان سے مارا جائے تو کیسا محسوس ہوگا؟ جو خواتین اپنی بچیوں کی اس طرح ختنے کروانے کے جرم میں شامل ہیں، شاید یہ الفاظ ان کا ضمیر جھنجھوڑیں۔

خواتین میں ریفریکٹری پیریڈ نہیں ہوتا یعنی کہ مردوں کی طرح ان کو دوبارہ آرگیزم کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر خواتین انہی ساتھیوں کے ساتھ جنسی تعلق سے خوشی حاصل کرسکتی ہیں جنہیں وہ پسند کرتی ہوں۔ جن کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق ہو۔ ایک عورت کا اس آدمی سے حاملہ ہونا زیادہ ممکن ہوتا ہے جس سے وہ محبت کرتی ہو کیونکہ اس جنسی تعلق میں بچہ دانی زیادہ متحرک ہوتی ہے۔ جب ایک خاتون کسی شخص سے محبت کریں اور ان کے کامیاب اور پرمسرت جنسی تعلقات بھی ہوں تو ان کو اس کی عادت یا لت بھی پڑ سکتی ہے جس کو چھوڑنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان میں سے کئی خواتین ایک پر تشدد تعلق آسانی سے ترک نہیں کر پاتیں۔

دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور خاص طور پر سامی مذاہب کی بنیاد عورت کی جنسیت اور اس کے جسم کو قابو میں کرنے پر کھڑی ہے۔ اس کے لیے بہت لوگوں سے نے ہزاروں سال کام کیا ہے۔ ہر لحاظ سے پوری کوشش کی گئی ہے کہ خواتین خود کو کبھی نہ جان پائیں۔ اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ آج ایک اوسط خاتون خود کو نہیں جانتی۔ وہ خود کو اور اپنی قدر کو اپنی زندگی میں موجود مردوں سے ناپتی ہے۔ اور مرد بھی اس کی اہمیت کو اس کے دوسرے مردوں کے تعلق کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ یعنی کہ ایک عورت کا شوہر اس کی اہمیت اس کے بھائیوں، اس کے باپ اور وہ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں، اسی پیمانے سے ناپتا ہے۔ مردوں نے ایک مکمل نظام ترتیب دیا جس میں وہ عورتوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں۔ عورتیں بھی یہ سجمھنے لگیں کہ ان کی زندگی کا مقصد مردوں کو خوش کرنا ہے۔ اسی لحاظ سے ان کی بچپن سے تربیت ہوئی اور اسی طرح وہ اپنی بیٹیوں کی بھی تربیت کرتی ہیں۔

اس پدرانہ نظام کو معاشروں میں عزت حاصل ہے اور اس کو چیلنج کرنے والی خواتین خود بخود وہ عزت کھو دیتی ہیں جو ان خواتین پر نچھاور کی جاتی ہے جو اس نظام کی حامی ہوں۔ خواتین چونکہ ملکیت ہیں اس لیے وہ کیا پہنیں گی، کیا کھائیں گی، کہاں آ اور جا سکتی ہیں ان تمام باتوں پر ان کے خود ساختہ سرپرست آدمیوں کے کنٹرول کو عزت، قومی حمیت، جنت دوزخ اور غیرت کے تصورات سے جوڑا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خواتین کے حقوق سے متعلق کسی بھی موضوع پر بات کریں تو تان خدا اور بھگوان پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔ آخری جملہ ہمیشہ یہاں ہی ختم ہوتا ہے کہ سب خدا کی مرضی ہے۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے اور اس کو کیسے ناپا جائے؟

ہم بچپن میں بہت مذہبی کتابیں پڑھتے تھے جو کہ نناوے اعشاریہ نناوے فیصد آدمیوں کی ہی لکھی ہوئی تھیں۔ یہ آدمی ایک دوسرے کے لیے کتابیں لکھتے ہیں جب کہ ان کی زندگی میں خواتین ان کے لیے کھانے پکانے، کپڑے استری کرنے اور ان کے بچے پالنے میں مصروف ہوتی ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر کام خواتین ہی کر رہی ہیں۔ پھر میڈیسن پڑھی جس میں انسانی جسم کی اناٹومی، فزیالوجی اور سائکالوجی پڑھی اور اس کے بعد بہت سارے مریض بھی دیکھے جو دنیا کے ہر پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے معلوم ہوا کہ مذہبی کتابیں کیا ہیں؟ وہ گزرے ہوئے زمانے کے سفید فام ادھیڑ عمر آدمیوں کا فلسفہ ہیں۔ ابراہیمی مذاہب خواتین کو جو سبق سکھاتے ہیں، ان میں شادی تک کنواری رہنا، باپ کی مرضی سے شادی کرنا، مرد کے لیے اولاد پیدا کرنا، شوہر کے لیے ہر وقت جنسی تعلقات کے لیے تیار اور راضی رہنا اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک مرد کا سہارا لینا شامل ہیں۔ حالانکہ حقیقی دنیا میں، اصلی زندگی میں کسی بھی خاتون کو ان میں سے کسی بھی چیز کی کوئی لازمی ضرورت نہیں ہے۔ ژاں پال سارتر نے بھی یہی بات کہی کہ دنیا میں انسانوں نے خود کو قائل کیا ہوا ہے کہ وہ مقید ہیں لیکن بنیادی طور پر انسان بالکل آزاد ہیں۔ ایک مختلف زندگی اکثر صرف ایک فیصلے کے فاصلے پر ہوتی ہے۔


حال ہی میں جس دن سعودی عرب سے باہر سفر کرنے پر سے پابندی ہٹی، سینکڑوں خواتین ملک چھوڑ گئیں۔ مذاہب میں خواتین کے بارے میں کچھ باتیں بالکل حقیقت کے متضاد ہیں جو نسل در نسل بار بار دہرائی جارہی ہیں۔ بہت سارے لوگ ان خیالی باتوں کو باربار سن کر سچائی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اس کے الٹ ہیں۔ جیسا کہ خواتین کے کم عقل ہونے کی کہانی، چادر اور چاردیواری کی حفاظت کی کہانی۔ خواتین کم عقل نہیں ہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں میں ذہانت ماں کے ذریعے ہی منتقل ہوتی ہے۔ چونکہ ہر انسان میں مایٹوکونڈریا ماں سے ہی آتے ہیں جن میں وہ جین ہوتے ہیں جن پر ہماری ذہانت کا دارومدار ہے، نہ صرف یہ کہ خواتین ذہین ہیں بلکہ تمام انسانیت کو یہ ذہانت دینے کی ذمہ دار بھی ہیں۔

سب سورج کی روشنی انسانوں کے جسم پر پڑتی ہے تو ان الٹرا وایولیٹ شعاعوں سے جلد میں کولیسٹرول سے وٹامن ڈی بنتا ہے۔ خواتین میں خاص طور پر وٹامن ڈی کی کمی سے ان کے کولہوں کی ہڈیاں سکڑ جاتی ہیں اور بچہ پیدا کرنے میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔ خواتین کا لباس کسی خدا یا خلائی مخلوق نے نہیں بلکہ آدمیوں نے طے کیا ہے۔ قدرتی دنیا اور خیالی دنیا میں فرق کرنا سیکھنا ہوگا۔

ایک عجیب و غریب کام جو آدمی کرتے ہیں وہ اپنی حاملہ پارٹنر کا قتل ہے۔ دنیا کے دوسرے جانور ایسا نہیں کرتے۔ حاملہ خواتین کی موت کا دنیا میں سب سے بڑا سبب اپنے شوہروں کے ہاتھوں ان کا قتل ہے۔

اگر ایک مہذب معاشرے میں ایک خاتون کے پاس تعلیم ہے اور اپنے پیسے بھی تو نہ ہی ان کو شادی کرنے کی ضرورت ہے، نہ بچے پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی آدمی کے سہارے کی ان کو کوئی ضرورت ہے۔ وہ جب چاہیں سو سکتی ہیں، جب چاہے جاگ سکتی ہیں، جو دل چاہے کھا پی سکتی ہیں، جہاں دل چاہے سفر کرسکتی ہیں، مردوں، عورتوں یا دونوں سے جنسی تعلقات رکھ سکتی ہیں۔ نہ چاہیں تو کسی سے بھی نہیں۔ اصل میں تو دنیا میں ایسا ہی ہے۔ سارا نظام انسانوں کا اپنا بنایا ہوا ہے اور وہ جانتے بھی ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ اگر یہ سب کچھ نہ چلتا رہا تو دنیا کا کیا بنے گا؟ حالانکہ دنیا اس نظام سے پہلے بھی چل رہی تھی اور اس کے بعد بھی چلتی رہے گی۔

یہ بات ہم روز ہی دیکھتے ہیں کہ لوگ غریب لڑکیوں کو سہارا دینے کے بہانے ان سے شادیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ غریب لڑکیوں کو سہارا دینے کے لیے ان کی اسکول کی فیس دینا زیادہ مناسب ہو گا ان کے ساتھ سونا اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ عورت میں معاشی طور پر کمزوری پیدا کرنا اس نظام کو سہارا دیتا ہے جس میں آدمیوں کو محنت کیے بغیر زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے۔ چونکہ بچے پیدا کرنے کا نظام عورت کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی، خواتین کے جسموں پر اس طرح کنٹرول ہے کہ ایک طرف بچے باپ کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں اور دوسری طرف ابارشن اور برتھ کنٹرول سے محروم خواتین کی صحت جواب دے دیتی ہے۔ تیس چالیس سال کی عمر میں وہ خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگتی ہیں۔ جن خواتین کی صحت ٹھیک نہ رہے اور وہ جنسی تعلق ایک مذہبی اور ازدواجی ڈیوٹی سمجھ کر ہی نبھاتی رہیں ان کو کیسے پتا چلے گا کہ زندگی میں کیا ممکن تھا؟ یہ نظام ہزاروں سالوں سے کام کر رہا ہے اور بہت سی خواتین خود کو گوشت پوست کا نہیں بلکہ پلاسٹک سے بنا ہوا سمجھتی ہیں۔

یہ بات لوگ سمجھ گئے تھے کہ وہ ناکافی اور کمزور ہیں، وہ ایک عورت کو بھی خوش نہیں رکھ سکتے اس لیے انہوں نے شادی کا نظام ترتیب دیا جس میں جنسی تعلقات، بچے پیدا کرنے اور گھر کی دیکھ بھال کے معاوضے میں مالی سہارے کا وعدہ کیا گیا۔ شروع سے خاتون کو ایسی تعلیم دینی شروع کی جس سے وہ جنسی تعلق کو ذاتی خوشی کے بجائے ازدواجی تعلق اور اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھنے لگے۔ اسی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو شروع سے بہت سے لباس پہنائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان ملبوسات کی تہوں کے بغیر خود کو برہنہ محسوس کریں۔ ان کو شروع سے بتایا جاتا ہے کہ اپنے جنسی اعضاء کو چھونا گناہ ہے۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا جسم کسی اور کی امانت ہے۔ سوچئیے تو یہ کتنا مضحکہ خیز خیال ہے لیکن بہت ساری خواتین اس بات پر یقین کرتی ہیں کہ ان کا جسم ان کا اپنا نہیں ہے۔

عیسائی خواتین کے علاج سے مجھے معلوم ہوا کہ کچھ مذہبی خواتین جنسی مسرت کو گناہ سمجھتی ہیں اور کچھ اس کو گندہ کام بھی کہتی ہیں۔ تمام خواتین کو اپنے جسم کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا آپ کی زندگی، آپ کی صحت اور آپ کی مسرت سے گہرا تعلق ہے۔ خواتین کے لیے اسپورٹس کھیلنا اور رقص سیکھنا اچھا ہے اس سے آپ کے اندر اپنے جسم کے بارے میں عزت نفس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے آپ کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواتین کی جنسیت کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کے لیے تمام سنجیدہ طالب علم سنجیدہ ویب سائٹس سے رجوع کرسکتے ہیں۔ پورن ایک بیچنے کے لیے ڈرامہ ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ پورن سے کچھ سیکھنے کے بجائے غلط معلومات اور توقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔

OMGyes۔ com۔ The Science of Women ’s Pleasure<https://www۔ omgyes۔ com/؟ hv= 2 &pv= 2 <d=true&utm۔ expid=۔ VmnOIp۔ IR 2 afu 5 LRN 0 fc 4 A۔ 1 &utm۔ referrer=>

خواتین کی جنسیت کو قابو میں کرنے کے لیے پتھر مارنے اور کوڑے مارنے کی سزائیں قائم کی گئیں حالانکہ دو برابر کے بالغ افراد کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق ان کا نجی معاملہ ہے۔ دنیا کے کافی علاقوں میں شادی کی رات کنوار پن کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جو کہ ایک اور ذلیل رواج ہے جس کی کوئی سائنسی بنیاد بھی نہیں ہے۔ لوگ نئی دلہنوں کو شک کی بنیاد پر جان سے بھی مار دیتے ہیں۔

جینڈر سیگریگیشن یعنی لڑکے اور لڑکیوں کو الگ الگ پالنے اور ان کو اپنی ملکیت سمجھنے کی وجہ سے یہ بچے بڑے ہو کر جب مرد اور عورتیں بنتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ نارمل تعلقات نہیں رکھ سکتے۔ کچھ کے بچپن میں ریپ ہوجاتے ہیں، کچھ نے محبت کی ہوتی ہے، کچھ کے بچے ہوتے ہیں، کچھ کی پہلے بھی شادی ہوچکی ہوتی ہے۔ کچھ ماضی کے جنسی صدمات کے بعد پی ٹی ایس ڈی کی مریضہ ہوتی ہیں لیکن جہاں یہ بات خفیہ رکھنی ہو وہاں ذہنی علاج حاصل کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اس بارے میں بات نہیں کرسکتے۔


کچھ خواتین کو خود کو کنواری ثابت کرنے کے لیے سرجری تک کروانی پڑ جاتی ہے۔ شادی ایک جیون بھر کا ساتھ۔ ایک اعتبار کا رشتہ۔ اس کی بنیاد ہی جھوٹ پر کھڑی کیوں کی جائے؟ خواتین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ کیا آپ کو پیسہ، تعلیم اور طاقت حاصل کرنے کے بعد ان آدمیوں کی ضرورت ہے جو آپ کی توہین کریں اور جن سے آپ جھوٹ بولنے پر مجبور ہوں؟ ان کے لیے ڈرامہ کریں اور خود کو آٹے کی بوری کی طرح ظاہر کریں؟ کس لیے؟

جنسی تعلق انسان محض بچے پیدا کرنے کے لیے نہیں کرتا بلکہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ تمام انسانوں کو محبت کی، جذباتی تعلق کی، چھوئے جانے کی ضرورت ہے۔ سو سال پہلے کیے گئے یتیم خانے کے بچوں پر تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ نئے پیدا ہوئے بچے جن کو صرف دودھ پلانے اور صاف کرنے کے لیے چھوا گیا، وہ مر گئے تھے۔

ایک اور بات کافی لوگ سمجھتے ہیں اور اردو میں کہتے رہتے ہیں کہ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور خواتین بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ حالات بالکل الٹ ہیں۔ مینوپاز کے بعد خواتین کے بچے نہیں ہوسکتے لیکن وہ جنسی طور پر ٹھیک ہی رہتی ہیں، آدمیوں کو پرفارمنس کے لیے ہارمون اور دواؤں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ جو عمر رسیدہ مرد یا خواتین جنسی طور پر فعال رہتے ہیں، وہ خوش باش رہتے ہیں، ان کی صحت اچھی رہتی ہے اور ان کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ جو مینوپاز کے بعد جنسی طور پر فعال ہوں، ایسی خواتین میں اپنے جوان بچوں کی زندگی جینے کی خواہش نہیں ہوتی۔ جو جنسی طور پر ناآسودہ ہوں وہ اپنی بہو کو دیکھ کر مزید تکلیف محسوس کرتی ہیں اور اپنے بیٹوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ان نوجوانوں کی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔

عمر رسیدہ خواتین کو بزرگ یا دیوی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان تمام خواتین کو اپنے بالغ بچے فارغ کرنے کے بعد اپنی جنسی اور جذباتی زندگی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اور ہم یہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ شعور بڑھ رہا ہے اور کئی مشہور خواتین شخصیات نے بڑھاپے میں شادیاں کی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ، محبت اور کمپینین شپ کی انسان کو اور بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں بیمار اور تنہا ڈپریشن کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ سفر کریں، ساتھ میں نئی چیزیں سیکھتے رہیں اور اپنی بقایا زندگی کے دن ہنسی خوشی بسر کریں۔

پولی گیمی یعنی ایک آدمی کی کئی شادیوں کے بارے میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کا بایولوجی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک سوشل کانسٹرکٹ یعنی سماج کا بنایا ہوا نظام ہے۔ حقیقی دنیا میں اناٹومی اور فزیالوجی کے مطابق ایک خاتون کے کئی شوہر یا پارٹنرز ہونا حیاتیاتی لحاظ سے زیادہ ممکن ہے۔ اصلی زندگی میں اگر ہمیں یہ تولنا ہو کہ ایک برتن میں کتنا دودھ ہے تو اس کو ترازو پر رکھتے ہیں۔ آپ دس خواتین اور دس مرد طوائفوں کا سروے کرلیں۔ ایک دن میں انہوں نے کتنے گاہک دیکھے؟ معلومات حاصل کرنے کا یہی صحیح طریقہ ہے ورنہ سچائی کبھی نہیں جان پائیں گے۔ دنیا کو سمجھنے کے لیے دنیا کا مطالعہ لازمی ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کے فلسفے پر حقیقی جواب حاصل نہیں ہوسکتے۔

امریکہ میں آج چار میں سے تین کالج کی اسٹوڈنٹس خواتین ہیں۔ شادی کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی شادی سستی اور طلاق مہنگی پڑتی ہے۔ گھر بار، پیسہ سب ختم ہوجاتا ہے۔ کافی خواتین اسپرم بینک سے اسپرم خرید کر اس سے اپنے بچے خود پیداکرکے پال رہی ہیں۔ اس طرح اگر بوائے فرینڈ سے نہ بنے تو اس سے ترک تعلق سے نہ بچے چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی بینک بیلنس کے کم ہونے کا۔ بچے کے باپ کا نام تقریباً تمام دنیا میں اہم ہے۔ جس کے باپ کا نہ پتا ہو اس کو گالی دی جاتی ہے۔

حالانکہ نہ صرف یہ کہ وہ بچہ معصوم ہے بلکہ اس کی ماں اس کی زندگی میں زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس بات کا تعلق بھی معاشی سمجھوتے سے ہے۔ جہاں خواتین مردوں پر معاشی انحصار نہ کرتی ہوں، ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بچے شادی کے اندر پیدا کیے یا باہر۔ نئی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ جو خواتین تمام عمر شادی نہیں کرتیں اور ان کے بچے نہیں ہوتے، وہ زندگی میں زیادہ خوش رہتی ہیں اور ان کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

ہم اپنی زندگیاں کس طرح بتانا چاہیں یا دوسرے لوگ اپنی زندگیوں میں کیا چن رہے ہیں وہ ہر کسی کا اپنا ذاتی معاملہ ہے لیکن ہمیں سچ اور جھوٹ کو الگ الگ پہچاننے کی صلاحیت کھو نہیں دینی چاہیے۔