ڈاکٹر صاحب۔ سلامت رہیں۔
آپ کی کتاب کا اگلا باب تصوف ہے آج اس پر بات ہو جائے۔
انسانوں میں شروع ہی سے دو رجحان بہت عام رہے ہیں۔ ایک رجحان دنیا پرستی کا اور ایک ترک دنیا کا۔ جیسا کہ خود آپ نے بھی لکھا ہے کہ ہر ثقافت میں تصوف کا تصور کسی کہ کسی صورت رہا ہے۔
تصوف نے ہر مذہب کے اندر جگہ بنا لی۔ قدیم مذاہب میں بدھ مت، ہندو مت اور ایران کا زرتشتی مذہب اس کی مثال ہیں۔ اور اسلام میں بھی تصوف اتر آیا۔ ۔ تصوف کی دنیا کا بنیادی اصول یہ طے پایا کہ اس راہ میں چلنے والا ہر شخص اپنی شخصیت کو مٹا کر کسی مرشد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے اور اس کا غلام بن کر خود کو مکمل طور پر اس کے سپرد کر دے۔
تصوف کی اخلاقی اقدار کو علمِ کے حصول اور مقاصدِ کی تکمیل کے لئے انسانی محبت کو عام کیا جانا چاہیے تھا۔ اور اس انسانی محبت میں انسانوں کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ان کی اقتصادی بہتری کے تصور کو بھی شامل رکھا جانا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مسلم صوفیوں نے شاعری خوب کی۔ سحر انگیز موسیقی، وجد میں آئے ترکی کے صوفی رقاص بڑا سا لبادہ اوڑھے گول گول گھوم کر لوگوں کو تفریح مہیا کر رہے ہیں۔ سہون شریف کے ملنگ اپنی ہی دنیا میں ہیں۔ مزاروں سجادہ گاہوں پر نشہ میں دھت فقیروں کا ہجوم جو خود کو اللہ والے کہتے اور کہلاتے ہیں۔
آپ نے بھی کافی تفصیل سے اس پر بات کی ہے۔
میرے سوالات۔ صوفیوں نے انسانیت کی کیا خدمات انجام دی ہیں؟ ۔ لیکن کیا آج کی دنیا میں تصوف اور صوفیانہ طرز زندگی ممکن ہے؟ اگر اس درجے پر پہنچنے کے لئے کسی مرشد کا ہونا ضروری ہے تو کیا ہم خود کو مکمل طور پر مرشد کے آگے پیش کر سکتے ہیں؟ کیا صوفیانہ طرز زندگی ایک مکمل غیر فطری اور غیر فعال زندگی نہیں کیا مرشد کے آگے خود سپردگی غلامی کی ایک شکل نہیں؟ کیا اپنی شخصیت کی نفی کرنا درست ہے؟ جوگیوں اور صوفیوں کو اعلی درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے۔ کیا خود کو یوں مٹا دینا ایک مثبت عمل ہے؟ کیا صوفیوں کا یہ دعوی کہ وہ خدا کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں درست اور قابل اعتبار ہے؟ کیا ان کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں؟
لوگ آج بھی ان پیروں فقیروں کی کرامات پر آنکھیں بند کیے اعتقاد رکھتے ہیں۔ کیا یہ دھوکا دہی ہے یا قوم کے مزاج کی سہل پسندی کہ ہمیں خود نہ کچھ کرنا پڑے۔ پیر صاحب مشکل حل کر دیں گے۔ ۔ کیا روحانیت کے لئے مذہب کی موجودگی ضرری ہے؟ کیا خدا کے وجود کو نہ ماننے والے بھی تصوف کو حقیقت مانتے ہیں؟ کیا مسلسل ریاضت سے کوئی بھی یہ مقام حاصل کر سکتا ہے؟ تصوف اور ایک گونہ بے خودی میں کیا فرق ہے، ؟
کیا استاد اور طبیب بھی صوفی یا مرشد ہوتے ہیں؟ کیا شاگرد اور مریض کو ان کے آگے خود کو سپرد کر دینا چاہیے؟
بشریات (anthropological) اور تحلیل نفسی (psychoanalytical) کا ساتھ کہاں تک ممکن ہے؟
درویشی و عاشقی بہم سلطانیست
گنجست غم عشق ولی پنھانیست
ویران کردم بدست خود خانہ دل
چون دانستم کہ گنج در ویرانیست
رومی
نادرہ مہرنواز
٭٭٭ ٭٭٭
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
محترمہ نادرہ مہر نواز صاحبہ!
آپ اتنے مشکل گنجلک اور پیچیدہ سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے تفصیلی اور تسلی بخش جواب دینے کے لیے ایک پوری کتاب نہیں تو کتابچہ تو ضرور لکھا جا سکتا ہے۔ میں اس کالم میں روحانیات کے بارے میں چند بنیادی اعتقادات ’نظریات‘ تجربات اور ان کے بارے میں مذہبی اور سائنسی ’روحانی اور نفسیاتی تصورات پر اپنی توجہ مرکوز کروں گا تا کہ ہمارے قارئین ان کے بارے میں چند بنیادی معلومات سے واقف ہو سکیں۔
انسانی سائیکی۔ روح یا ذہن؟
انسانی تاریخ کا ایک وہ زمانہ تھا جب human psyche کا ترجمہ soul اور روح کیا جاتا تھا۔ روح پر ایمان لانے والوں کے دو گروہ تھے۔
پہلا گروہ ان لوگوں کا تھا جن کا عقیدہ تھا کہ روح انسانی جسم سے علیحدہ اپنا وجود رکھتی ہے جو عالمِ ارواح میں رہتی ہے۔ وہ روح رحمِ مادر میں بچے کے جسم میں داخل ہوتی ہے ’ساری عمر اس کے ساتھ رہتی ہے اور موت کے بعد جسم سے جدا ہو کر قیامت کا انتظار کرتی ہے۔ قیامت کے دن اس کے اعمال کا حساب ہوگا۔ اگر اس شخص نے اپنی زندگی میں نیکیاں زیادہ کی ہیں تو وہ روح جنت میں چلی جائے گی اور اگر اس شخص نے زندگی میں بدیاں زیادہ کی ہیں تو وہ روح جہنم میں چلی جائے گی۔ بہت سے مسلمان‘ عیسائی اور یہودی آج بھی انسانی روح ’یومِ حساب اور جنت دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جن کا عقیدہ تھا کہ انسانی روح باربار اس دنیا میں آتی ہے اور پچھلے جنم کے اعمال کی بنیاد پر کسی جانور یا انسان کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ جب کوئی انسان جنم جنم کے ریاض کے بعد نروان حاصل کر لیتا ہے تو اس کی روح روحِ کل کا حصہ بن جاتی ہے اور دوبارہ دنیا میں نہیں آتی۔ بہت سے بدھ ازم اور ہندو ازم کے پیروکار آج بھی اواگون پر ایمان رکھتے ہیں۔
ان دونوں گروہوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ ایک ابدی زندگی پائیں، اس ابدی زندگی کی خواہش نے تاریخ کے مختلف ادوار اور ثقافتوں میں ایک ابدی روح ’ازلی و ابدی خدا‘ عالمِ ارواح اور روحِ کل کے تصورات ’نظریات اور اعتقادات کو جنم دیا۔
پچھلی دو صدیوں میں ایک تیسرا نظریہ مقبول ہو رہا ہے۔ یہ سیکولر اور سائنسی نظریہ ہے۔ اس نظریے کو ماننے والے سائیکی کا ترجمہ روح نہیں ذہن اور mindکرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ انسانی ذہن کا تعلق انسانی دماغ اور شخصیت سے ہے۔ یہ ذہن انسانی جسم سے جدا کوئی چیز نہیں جو انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ مر جاتا ہے۔ ذہن کا یہ تصور پچھلی دو صدیوں کے سائنسدانوں ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات کی تحقیق کا مرہونِ منت ہے۔ اسی لیے وہ تمام طلبا و طالبات جو جدید PSYCHOLOGY، PSYCHIATRY، PSYCHOTHERAPY کے علوم کا مطالعہ کرتے ہیں وہ سائیکی کا ترجمہ ذہن کرتے ہیں روح نہیں۔ وہ انسان کے انفرادی ’سماجی اور اجتماعی نفسیاتی مسائل کو سمجھنے اور ان کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
روحانی تجربات اور ان کی تفہیم
ایک وہ دور تھا جب روحانیات کا باب صرف مذہبی کتابوں میں پایا جاتا تھا لیکن اب وہ طب ’سائنس اور نفسیات کی کتابوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ ماہرین جو انسانی دماغ کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس پر سائنسی تحقیقی کرتے ہیں طب کی زبان میں NEUROLOGISTS کہلاتے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ کے دوحصے ہیں۔ دایاں دماغ اور بایاں دماغ۔ دائیں دماغ کا تعلق تخلیقی اور روحانی تجربات سے ہے۔
کینیڈا کے ڈاکٹر رابرٹ بکمین نے اپنی کتاب CAN WE BE GOOD WITHOUT GOD میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ میں یہاں ان کی تحقیق کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ بائیں دماغ کا تعلق زبان اور گفتگو سے ہے جبکہ دائیں دماغ کا تعلق اپنی ذات اور کائنات کے شعور اور انسانی لاشعور سے ہے۔ 1940 کی دہائی سے انسانی دماغ کی لہروں کا ٹیسٹ ’جو EEG۔ ELECTRO ENCEPHALO GRAPHYکہلاتا ہے‘ ہمیں اس معمہ کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بکمین ہمیں بتاتے ہیں کہ دائیں دماغ کی حساسیت کی وجہ سے ہم انسانوں کو تین گروہوں مین تقسیم کر سکتے ہیں۔
پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور خود بخود فعال ہو جاتے ہیں جس سے ان انسانوں پر مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مرگی کے دوروں میں بھی ایسے تجربات ہوتے ہیں جو روحانی تجربات کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال فیودور ڈوستوسکی کے تجربات تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’میرے شعور میں اچانک ایک حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے ذہن میں ایک در کھل گیا ہو اور اس میں روشنی داخل ہو رہی ہو‘ ۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے دائیں دماغ کا ٹمپورل لوب حساس ہے لیکن حد سے زیادہ نہیں۔ ایسے لوگ شاعر اور فنکار بنتے ہیں۔ ایک خیالی دنیا مین جا کر شاعری کرتے ہیں اور ڈرامے لکھتے ہیں۔
تیسرا گروہ عام لوگوں کا ہے جن کے دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب حساس نہیں ہوتے ان کو نہ تو مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور نہ ہی وہ شاعری کرتے ہیں۔
سائنسدان Michael Persinger نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ اگر ہم عام انسانوں کے دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب لیبارٹری میں فعال بنائیں تو انہیں بھی وہ تجربات ہو سکتے ہیں جو روحانی تجربات کہلاتے ہیں۔ وہ پرسکون محسوس کرتے ہیں اور انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی مافوق الفطرت طاقت سے جڑ گئے ہوں۔ بعض کو تو فرشتوں یا خدا کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ مرزا غالب کا مشہور شعر ہے
؎ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال ہے
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
غالب کا خیال تھا کہ شاعر کو فرشتے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جو اسے شعر کا تحفہ لا کر دیتا ہے۔ شعر اسے آمد کہتے ہیں۔ یہ آمد دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب کو کرشمہ اور کرامت ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جب شعر یا روحانی تجربہ دائیں دماغ سے بائیں دماغ میں جاتا ہے تو بایاں دماغ سمجھتا ہے کہ وہ کہیں باہر سے آیا ہے۔ اگر وہ شخص مذہبی ہے تو وہ اپنے تخلیقی اور روحانی تجربات کا رشتہ خدا اورفرشتوں سے جوڑتا ہے اور اگر وہ انسان سیکولر ہے تو وہ اس کا رشتہ اپنے لاشعور سے جوڑتا ہے۔ سیکولر ماہرین سمجھتے ہیں کہ روحانی تجربات کا تعلق انسان سے ہے، بھگوان سے نہیں۔
SPIRITUALITY IS PART OF HUMANITY NOT DIVINITY
نادرہ مہر نواز صاحبہ!
یہ تو تھا روحانیات کے بارے میں سنجیدہ سائنسی اور نفسیاتی مکالمہ۔ جہاں تک پیروں فقیروں اور مرشدوں کا تعلق ہے اس دور میں بہت سے جعلی پیر پیدا ہوگئے ہیں جو سادہ لوح لوگوں کو ورغلاتے ہین۔ وہ مردوں کا مالی اور ذہنی اور عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
میری نگاہ میں روحانی تجربات اور طرزِ زندگی گزارنے کے لیے کسی پیر فقیر کی ضرورت نہیں۔ ایک درویشانہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اپنی ذات کے سچ کو قبول کرنے اور اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترنے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو جینوئن سنت سادھو صوفی اور درویش ہیں وہ سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں عاجزی اور انکساری ہوتی ہے۔ وہ قناعت پسند ہوتے ہیں۔ وہ مولویوں کی طرح فتوے لگانے کی بجائے لوگوں کو دل سے لگاتے ہیں اور اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
بلھے شاہ فرماتے ہیں
مسجر ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا دے
پر کسی دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا اے
روحانیت کا تعلق اپنی ذات اور کائنات کے سچ سے ہے کسی روایتی مذہب سے نہیں اور بیسویں صدی کے ایک دانشور روحانی رہنما کرشنا مورتی کا کہنا تھا
TRUTH IS A PATHLESS LAND
جانے سے پہلے آپ کی خدمت میں اپنا ایک شعر پیش کرتا ہوں۔ امید ہے پسند آئے گا۔
میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں
اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں
آپ کا درویش دوست
خالد سہیل
3 دسمبر 2019