سن دو ہزار انیس کے خاتمے کے ساتھ چین اور سوویت یونین کی دو بڑی شخصیات کی زندگی کے سورج بھی ڈوب گئے۔ چین کے سابق وزیر اعظم لی پنگ اور سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے بڑے رہنما اناتولی لوکیانوف دونوں نے 1980 کے عشرے میں چین اورسوویت یونین کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آئیے چین اور سابق سوویت یونین کی سیاست پر ایک نظرڈالتے ہیں کیوں کہ اسی دوران ان دونوں ممالک میں اصلاحات کا آغاز ہوا جن کے نتیجے میں سوویت یونین تو ختم ہوگیا مگر چین ایک بدلی ہوئی شکل میں اب بھی ایک متحدہ ملک کی صورت میں موجود ہے۔
سب سے پہلے تو ہم بعض اہم عہدوں اور اصلاحات کا ذکر کرتے ہیں جن کی تفصیل جاننا ضروری ہے مثلاً ایک کمیونسٹ ملک میں سربراہ کون ہوتا ہے۔ سربراہ مملکت، سربراہ حکومت یا سربراہ کمیونسٹ پارٹی؟ اور اصل طاقت کس کے پاس ہوتی ہے۔
اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ پولٹ بیورو، پری زیڈیم، سپریم سوویت اور سینٹرل کمیٹی کیا ہیں اور ان کے کردار کیا ہوتے تھے یا ہوتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ زیادہ تر کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔ مثلاً سوویت یونین میں اصل قیادت سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ زیادہ تر یہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہوتے تھے جو کبھی کبھار سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت بھی بن جاتے تھے۔ سربراہِ مملکت سپریم سوویت کی پری زیڈیم کا چیئرمین ہوتا تھا جس کو ہم دیگرملکوں کے صدر کے برابر کا عہدہ سمجھ سکتے ہیں۔
اب یہ سپریم سوویت کیا تھی؟ سپریم سوویت بنیادی طور پر ایک قانون ساز ادارہ تھا جسے آپ مقننہ کہہ سکتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں قومی اسمبلی ہوتی ہے۔ گویا سپریم سوویت کو قومی اسمبلی قرار دیا جاسکتا ہے جو پورے سوویت یونین سے منتخب ہوکر آتی تھی مگر اس کے اجلاس سال میں دو چار سے زیادہ نہیں ہوتے تھے اور اس کا زیادہ تر کام پری زیڈیم انجام دیتی تھی جو مستقل ماسکو میں مقیم ہوتی تھی یعنی پری زیڈم کے ارکان ہی زیادہ تر قانون سازی کرتے تھے جو پھر سال میں ایک یا دو بار سپریم سوویت کے اجلاس میں منظور کرلیے جاتے تھے۔ سپریم یونین کا چیئرمین ایک طرح اسپیکر ہوتا تھا۔
لینن 1917 میں سوویت انقلاب کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ تھے جو انقلاب کی کامیابی کے بعد سربراہ حکومت بھی بن گئے اس وقت جنرل سیکریٹری کا عہدہ نہیں تھا لیکن استالن نے بتدریج کمیونسٹ پارٹی میں اپنی حیثیت مستحکم کی اور پارٹی کے روز مرہ معاملات دیکھتے دیکھتے لینن کی موت کے بعد جنرل سیکریٹری بن گئے اور اس عہدے پر 1924 سے 1952 تک قائم رہے۔
لینن کی موت کے بعد سربراہ حکومت جسے ہم وزیر اعظم کے برابر قرار دے سکتے ہیں ریکوف بن گئے جو چھ سال اس عہدے پر رہے پھر 1930 میں مالوتوف وزیر اعظم بنے جو گیارہ سال رہے۔ اس دوران استالن جنرل سیکریٹری تھے مگر ان کے پاس سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کے عہدے نہیں تھے۔ 1941 میں استالن نے خود وزیر اعظم بھی بننے کا فیصلہ کیا اور مولوتوف کو فارغ کردیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اکتوبر 1952 میں یعنی اپنی وفات سے صرف چھ ماہ قبل استالن نے پارٹی سیکریٹری کا عہدہ چھوڑ کر اس عہدے کوختم کردیا۔
مارچ 1953 میں استالن کی موت کے بعد مالینکوف وزیر اعظم اور کمیونسٹ پارٹی کے اول سیکریٹری بن گئے مگر صرف دو ہفتے بعد خرو شیف آگے آئے اور پارٹی کے فرسٹ سیکریٹری بن گئے۔ دو سال بعد 1955 میں مالینکوف کو وزیر اعظم کے عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا اوربلگانن نئے وزیر اعظم بن گئے۔ خرو شیف 1953 سے 1964 تک کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کے جنرل سیکریٹری رہے اور اس دوران انہوں نے بلگانن کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹاکر 1958 میں خود اس عہدے پر بھی فائز ہوگئے۔
یاد رہے کہ اس دوران سربراہ مملکت کے عہد ہ استالن کے پاس رہے اور نہ خروشیف کے کیوں کہ سپریم سوویت کا سربراہ یا چیرمین سربراہ مملکت تو کہلاتا تھا مگر اس کے پاس صرف رسمی عہدہ تھا اور کوئی بڑے اختیارات نہیں تھے جوکہ پارٹی جنرل سیکریٹری اور وزیر اعطم کے پاس ہوتے تھے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ میخائل کالینن 1919 سے سے 1946 تک ستائس سال سپریم سوویت کے چیئرمین یا سربراہ مملک رہے اور اس دوران وہ اسٹالن کے زبردست حامی اور دست راست رہے مگر انہیں کچھ زیادہ اختیارات نہیں تھے۔ ان کے بعد استالن نے 1946 میں نکولائی شیورنیک کو سربراہ مملکت بنایا جو 1953 تک رہے پھر استالن کی موت کے بعد جب مالینکوف اور خروشیف کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو شیورینک کو ہٹاکر واراشی لوف کو سربراہ مملکت اور سپریم سوویت یونین کا چیئرمین بنایا گیا جو 1960 تک اس عہدے پرفائز رہے۔
1960 میں شاید خرو شیف نے اپنی زندگی کی دو بڑی غلطیاں کیں ایک تو انہوں نے واراشی لوف کو ہٹاکر بریژنیف کو سپریم سوویت کا چیئرمین اور سربراہ مملکت بنادیا اور دوسرے انہوں نے کوسی گن کو اپنا دوسرا نائب وزیر اعظم بنا دیا۔ خیال رہے کہ اس وقت ایک اور کامریڈ میکویان پہلے ہی نائب وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تھے۔ اس طرح اب دو نائب وزیر اعظم ہوگئے اور خروشیف پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور وزیر اعظم تھے۔ اب خرو شیف کے علاوہ تین اہم لوگ ہیں یعنی بریژنیف، کوسی گن اور میکویان، 1964 میں خروشیف نے یہ کیا کہ بریژنیف کو سربراہ مملکت کے رسمی عہدے سے ہٹاکر وہاں میکویان کو بٹھا دیا اور بریژنیف کو پارٹی کا نائب سربراہ بنا دیا۔ اس طرح بریژنیف کے ہاتھ خود خروشیف نے مضبوط کیے۔ بالآخر اکتوبر 1964 میں خروشیف کے نائبین نے کے جی بی کے سربراہ سیمی چاست نی (SEMICHASTY) کے ساتھ مل کر خروشیف کو استعفے پر مجبور کیا۔ اس میں میکویان کا کردار اتنا خرو شیف مخالف نہیں تھا۔ لیکن وہ رسمی عہدے پر تھے تو خروشیف کی مدد نہ کر سکے۔ اب فیصلہ کیا گیا کہ تینوں بڑے عہدے تین مختلف افراد کے پاس ہوں گے۔ اس طرح بریژنیف خود پارٹی سربراہ بن گئے۔ کوسی گین کو وزیر اعظم بنایاگیا اور اگلے سال یعنی 1965 ءمیں میکویان کو بھی ہٹاکر ان کی جگہ پدگورنی کو سپریم سوویت کا چیئرمین یعنی سربراہ مملکت بنادیا گیا۔ اس طرح ایک ٹرائیکا (Troika) وجود میں آیا جو 1977 تک چلا جب پڈگورنی کو ہٹاکر خود بریژنیف سربراہ مملکت بن گے۔
جب 1977 میں سوویت یونین کا نیا آئین بنایا گیا جس کے بنانے میں لوکیانوف نے اہم کردار ادا کیا تھا اس کے تحت پارٹی کے جنرل سیکریٹری کو ہی سربراہ مملکت کا عہدہ بھی دے دیا گیا۔ کوسی گن 1980ء تک وزیر اعظم رہے۔ اس طرح ہم سوویت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے کا اعزاز کوسی گن کو حاصل ہے جو 1964 سے 1980 تک سولہ برس وزیر اعظم رہے جبکہ دوسرے نمبر پر مالوتوف تھے جو 1930 سے 1941 تک گیارہ برس وزیراعظم اور پھر مزید دس سال استالن کے نائب وزیر اعظم رہے۔
اسی طرح سربراہ مملکت کی طوالت کا اعزاز کالینن کو حاصل ہے جو 1919 سے 1946 تک ستائس سال سپریم سوویت کے چیئرمین یا سربراہ مملکت رہے جو ایک رسمی اور بے اختیار سا عہدہ تھا۔ اختیارات کے لحاظ سے سب سے طویل عرصہ استالن نے تقریباً تیس سال پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے طور پر گزارا جس دوران وہ بارہ سال وزیر اعظم بھی رہے۔
دوسرے نمبر پر بریژنیف ہیں جو پہلے 1960 سے 1964 تک سربراہ مملکت یا سپریم سوویت کے چیئرمین رہے پھر اٹھارہ سال یعنی 1982 میں اپنی موت تک کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی رہے اور آخری پانچ سال سربراہ مملکت بھی رہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین کی کل ستر سالہ زندگی میں ساٹھ سال صرف تین افراد کی حکومت رہی یعنی استالن، خروشیف اوربریژنیف کی۔ گوکہ خروشیف کے بعد ایک ٹرائیکا برسراقتدار رہا جو بریژنیف، کوسی گن اور پدگورنی پر مشتمل تھا۔
گوربا چوف سوویت یونین کے واحد رہ نما تھے جنہوں نے صدر کا عہدہ متعارف کرایا اور 1990 میں اس عہدے پر فائز ہوئے جبکہ وہ 1985 سے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چلے آرہے تھے۔ اس وقت سربراہ حکومت یا وزیر اعظم نکولائی رژکوف تھے جو 1985 سے 1991 تک وزیر اعظم رہے۔ یہ دونوں حضرات ابھی حیات ہیں اور گربا چوف اٹھاسی برس کے جبکہ رژکوف 90 سال کے ہیں۔
اب اس پس منظر میں ہم کمیونسٹ سیاست کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ چین نے بھی سوشلسٹ انقلاب کے بعد کم وبیش سوویت یونین والا نظام ہی اپنایا تھا گوکہ ماؤزے تنگ اپنے لیے جنرل سیکریٹری کے بجائے چیئرمین کا عہدہ پسند کرتے تھے۔ 1949 میں چین کے انقلاب کے بعد چیئرمین ماؤنے چو این لائی کو وزیر اعظم مقرر کیا جو اس عہدے پر 1976 میں اپنی وفات تک فائز رہے۔ چیئرمین ماؤ خود سربراہ مملکت بھی تھے مگر پھر 1958 میں انہوں نے لیو شاؤچی کو یہ عہدہ دے دیا۔ مگر پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے تمام اختیارات کا مرکز وہ خود ہی رہے۔ تقریباً دس سال بعد ثقافتی انقلاب کے دوران 1968 ءمیں ماؤنے لیو شاؤچی کو برطرف کرکے سربراہ مملکت عہدہ ہی ختم کردیا۔
1976 میں چو این لائی کی وفات کے بعد ماؤنے ہواگوفینگ کو وزیر اعظم بنایا جو 1973 سے پولٹ بیورو کے رکن چلے آرہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ خود چواین لائی اپنے نائب وزیر اعظم ڈینگ سیاؤپنگ کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے مگر ماؤنے نہ صرف ہواگوفینگ کو وزیر اعظم بنایا بل کہ پارٹی کا نائب چیئرمین بھی بنادیا گوکہ یہ عہدہ اس سے قبل موجود ہی نہیں تھا۔ ماؤنے خاص ہواگوفینگ کے لیے یہ عہدہ تخلیق کیا تاکہ انہیں ماؤکا جانشین سمجھا جائے۔ صرف آٹھ ماہ بعدماؤکی بھی وفات ہوگئی اور حسب توقع ہواگوفینگ کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین بن گئے۔
اس کے ساتھ ہی ہوا نے مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ اس کے بعد ہواگوفینگ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ ”چارکے ٹولے“ کا خاتمہ کیا جس کی قیادت ماؤ کی بیوہ کررہی تھی جس کے ساتھ پارٹی کا ایک رہ رنما وانگ ہونگ وین بھی تھا۔
اس چار کے ٹولے پر ثقافتی انقلاب کے دوران 1966 سے 1976 کے دوران ہزاروں لوگوں پر تشدد اور قتل کے الزامات تھے۔ ماؤ کی وفات کے بعد اسی چارکے ٹولے نے اقتدار پر قبضے کی کوشش بھی کی تھی جسے پولٹ بیورو نے ناکام بنادیا تھا کمیونسٹ پارٹی کی گیارہویں قومی کانگریس جو اگست 1977 میں ہوئی اس نے ثقافتی انقلاب کے خاتمے کا اعلان کرکے چار کے ٹول کے استبداد کو بے نقاب کیا تھا اور ان کے جرائم سے پردہ اٹھایا لیکن اس ٹولے کے کسی بھی رکن کو قتل نہیں کیا گیا۔ خود ماؤ کی بیوہ کے بارے میں متضاد اطلاعات آتی رہیں کہ یاتو انہیں قتل کردیا گیا ہے یا انہوں نے خود کشی کرلی۔
اسی طرح پارٹی کے چیئرمین، وزیر اعظم اور فوجی کمیشن کی سربراہی کے تین اہم ترین عہدے چین کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی فرد یعنی ہوا گوفینگ کے پاس آگئے۔ حتیٰ کہ خودماؤ کے پاس بھی یہ تینوں عہدے نہیں تھے گوکہ سوویت یونین میں ہم نے دیکھا کہ استالن نے 1941 سے 1953 تک وزیر اعظم کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا تھا۔
پہلے استالن اور پھر ماؤکی اموات کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ جب کوئی مرد آہن فوت ہوتا ہے تو کمیونسٹ پارٹی اجتماعی قیادت کی طرف جاتی ہے تاوقتیکہ ایک نیا مرد آہن آکر پھر اختیارات کا ارتکاز کرلیتا ہے۔ ہواگوفینگ کے کے پاس تینوں عہدے تھے مگر وہ مرد آہن نہ بن پائے۔ ہوا یہ کہ ان کے سیاسی و معاشی منصوبے میں سوویت طرز کی صنعتی بحالی شامل تھی جو 1950 کے عشرے کی باقیات تھی۔
پھر ہواگوفینگ نے خود اپنا شخصی حصار قائم کرنا بھی شروع کردیا جو پارٹی کو پسند نہ آیا۔ مثلاً انہوں نے ماؤ کی تصاویرکے ساتھ خود اپنی تصاویر کو بھی دفاتر اور تعلیمی اداروں میں آویزاں کرنے کا حکم دیا۔ 1978 کے اوائل میں ہواگوفینگ نے ایک نیا آئین پیش کیا جس میں ”مسلسل انقلاب“ اور ”پرولتاری بین الاقوامیت“ کے حوالے دیے گئے۔ ہواگوفینگ نے خود اپنے لیے ”عقل مند رہ نما“ کی اصطلاح کی حوصلہ افزائی کی۔
یہ سب پولٹ بیورو کے دیگر ارکان کو پسند نہ آیا اور وہ پرانی اصطلاحات کے استعمال پر بھی ناخوش تھے۔ ان حالات میں ڈینگ سیاؤپینگ ابھرنا شروع ہوتے ہیں جو نائب وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور اب فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف بھی تھے۔ اب ڈینگ سیاؤپینگ اور ہوگوفینگ کے درمیان جو رسہ کشی شروع ہوئی تو بتدریج ڈینگ کا پلڑا بھاری ہوتاگیا۔ پھر فوج کی حمایت میں ڈینگ کی طرف ہوتی گئی جس سے ہواگوفینگ کو کنارے لگانے میں مدد ملی۔
ڈینگ سیاؤپینگ کے ساتھیوں نے ہواگوفینگ کا منصوبہ رد کردیا اور ڈینگ کی منڈی کی معیشت کا فارمولا منظورکیا۔ 1978 میں پارٹی نے ڈینگ سیاؤپینگ کو سیاسی مجلس مشاورت کا سربراہ بنادیا۔ یہ مجلس ایک طرح کی ایوان بالا تھی یعنی اب وہ سینیٹ کے سربراہ بن گئے جس سے ان کی حیثیت مضبوط ہوئی اور وہ اب نئے مرد آہن کے روپ میں سامنے آنے لگے گوکہ تین اہم ترین عہدے اب بھی ہواگوفینگ کے پاس تھے بالآخر ان کا زوال شروع ہوا اور 1980 میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹاکر ژاؤژیانگ کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔ اب ہواکا دس سالہ معاشی منصوبہ بالکل مسترد ہوچکا تھا جس میں سوویت طرز کی بھاری صنعت کاری پر زور دینا تھا۔
اس کے مقابلے میں ڈینگ کا زیادہ عملی پانچ سالہ منصوبہ مقبول ہوا جو ہلکی صنعتوں اور عوامی اشیائے صرف کے گرد گھومتا تھا۔ اس کے بعد ہواگوفینگ 1981 تک کمیونسٹ پارٹی کے رسمی سربراہ رہے۔ اسی برس ڈینگ سیاؤپینگ مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ بن گئے اور ایک اور رہ نما ہو یاؤبانگ کو پارٹی چیئرمین بنا دیا گیا۔ پھر 1982 میں کمیونسٹ پارٹی کی بارہویں کانگریس میں ڈینگ سیاؤپینگ کونوتشکیل شدہ مرکزی مشاورتی کمیشن کا سربراہ بھی بنادیا گیا۔
ڈینگ کا آئین جو 1982 ءمیں منظور ہوا اس نے پارٹی سربراہ کے لیے چیئرمین کے بجائے جنرل سیکریٹری کا عہدہ دیا اور ہویاؤبانگ پارٹی چیئرمین سے جنرل سیکریٹری بن گئے۔
اس دوران سوویت یونین میں چھہتر سالہ بریژنیف 1982 میں وفا ت پاگئے اور ان کی جگہ اڑسٹھ سالہ آندروپوف کو سوویت یونین کا نیا سربراہ بنادیا گیا۔ جو صرف چھ ماہ قبل نائب سیکریٹری بنائے گئے تھے۔ اس سے قبل آندرویوف پندرہ سال کے جی بی کے سربراہ رہ چکے تھے جوکسی بھی کے جی بی کے سربراہ کا طویل ترین عرصہ تھا۔
صرف پندرہ ماہ برسراقتدار رہنے کے بعد آندرویوف بھی تقریبا ً ستر سال کی عمر میں فوت ہوگئے تو ایک ان سے بھی بوڑھے تہترسالہ چرنینکو کو سربراہ بنادیا گیا جو صرف ایک سال بعد 1985 میں فوت ہوگئے۔ اس دوران تین نسبتاً جوان رہ نما سامنے آئے جو پچاس پچپن سال کے تھے۔ لکیانوف، گرباچوف اور رژکوف۔ لکیانوف نے 1977 کا سوویت آئین بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور 1977 سے 1983 تک سپریم سوویت یا قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے۔ ژرکوف پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور سیکریٹریٹ کے رکن تھے اور گرباچوف 1978 سے مرکزی کمیٹی کے سیکریٹری تھے۔
اب ذرا کچھ اصطلاحات کی وضاحت ہوجائے۔ مرکزی کمیٹی کمیونسٹ پارٹی کی ہوتی تھی۔ جس میں تین سو سے زیادہ ارکان ہوتے تھے جو پورے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی شاخوں سے آتے تھے۔ خود سوویت یونین پندرہ ریاستوں یا صوبوں پر مشتمل ملک تھا۔ جس کے قانون ساز ادارے یا مقننہ کو سپریم سوویت کہتے تھے۔ پولٹ بیورو پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت تھی جس کے ارکان پندرہ سے پچپن تک ہوسکتے تھے۔ پولٹ بیورو کو ویسے تو مرکزی کمیٹی منتخب کرتی تھی مگر ایسا زیادہ تر خود پولٹ بیورو کے پرانے ارکان کرتے تھے جن کی قیادت جنرل سیکریٹری کے ہاتھ میں تھی۔
1984 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد چرنینکو نے گرباچوف کو اپنا نائب اور پارٹی کا ڈپٹی سیکریٹری مقررکرلیا جس سے واضح ہوگیا کہ اب سوویت اقتدار میں اگلا نمبر گرباچوف کا ہوگا۔ چرنینکو کے بڑھاپے اور گرتی ہوئی صحت کے باعث وہ اکثر پولٹ بیورو کے اجلاس میں شرکت نہ کر پاتے اور گرباچوف ان کی جگہ لیتے رہے۔ مارچ 1985 میں چرنینکو کے فوت ہونے کے بعد پولٹ بیورو کے پرانے رکن اور وزیر خارجہ چھہتر سالہ گرومیکو نے نئے سربراہ کے لیے گرباچوف کا نام تجویز کیا جو منظور کرلیا گیا۔
اس وقت سوویت قیادت کی ضیعف العمری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1985 کے شروع میں چرنینکو کی عمر چوہترسال، گرومیکو کی عمر چھہتر سال اور وزیر اعظم تیخانوف کی عمر اسی سال کی تھی جو کوسی گن کے بعد 1980 میں پچھتہر سال کی عمر میں وزیر اعظم بنائے گئے تھے۔
ادھرچین میں 1983 میں سربراہ مملکت کا رسمی عہدہ بحال کرکے لی زیان نیان کو صدر بنادیا گیا۔ اس طرح اب ڈینگ سیاؤ پینگ نہ پارٹی کے سربراہ تھے اور نہ ہی وزیر اعظم یا صدر۔ لیکن پھر بھی ایک مرد آہن کی طرح سارے اختیارات کا منبع تھے۔ 1980 کے عشرے کی زیادہ تر سیاست پر ڈینگ سیاؤپینگ چھائے رہے۔ 1987 میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہویاؤبانگ نے کچھ اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی اور ڈینگ کی کچھ پالیسیوں سے انحراف کیا مگر پارٹی نے ڈینگ کا ساتھ د یا کیونکہ وہ ڈینگ کو ہی درست سمجھ رہی تھی۔ نتیجہ یہ کہ پارٹی سیکریٹری کو استعفے پر مجبور کیا گیا اور ان کی جگہ وزیر اعظم ژیاؤژیانگ پارٹی کاسربراہ بھی بنا دیا گیا۔ یہ دونوں عہدے ژاؤژیانگ کے پاس صرف دس ماہ رہے اور پھر نومبر 1987 میں لی پینگ کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔ لی پینگ چین کے چوتھے وزیر اعظم تھے یعنی چو این لائی ( 1949۔ 1976 ) ، ہواگوفینگ (1976۔ 1980) اور ژاؤژیانگ ( 1980۔ 1987 ) کے بعد۔ ویسے بھی ڈینگ سیاؤپینگ تاحیات عہدوں کے خلاف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اہم ترین عہدوں پر ہر پانچ سال بعد انتخاب ہونے چاہئیں اور کوئی بھی فرد ایک عہدے پر دو مدت سے زیادہ نہیں رہنا چاہیے۔
ہویاؤبانگ کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹانے پر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا اور خاص طورپر طلبا اور نوجوانوں میں ان کی اصلاحات کو حمایت حاصل تھی۔ ڈینگ سیاؤپنگ نے 1988 میں صدر لی زیانگ نیان کو راضی کرلیا کہ وہ صرف ایک پانچ سالہ مدت کے بعد سبک دوش ہوجائیں۔ اب انیس سو نواسی آتا ہے طلبا احتجاج شروع ہوتے ہیں۔ اپریل 1989 میں سابق پارٹی سربراہ ہویاؤبانگ فوت ہوگئے تو ان کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے اور اسی دوران اصلاحات کے مطالبے ہوئے۔
ہویاؤبانگ کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ معاشی کے ساتھ سیاسی اصلاحات کے بھی حامی تھے اور چینی جوان بھی اسی کا مطالبہ کررہے تھے۔ اپریل 1989 میں ہویاؤبانگ کے جنازے سے لے کر جون 1989 تک چین میں طلبا سیاسی آزادیوں کے لیے مطالبے اور مظاہرے کرتے رہے اور دارالحکومت بیجنگ میں تو انہوں نے دھرنا دے دیا۔ جب بیجنگ میں یہ دھرنا طویل ہوتا گیا تو پارٹی کے سربراہ ژاؤ ژیانگ نے مذاکرات کی حمایت کی جبکہ ڈینگ سیاؤپنگ اور وزیر اعظم دونوں مذاکرات کے خلاف اور طاقت کے استعمال پر زور دے رہے تھے۔
مئی 1989 میں وزیر اعظم لی پنگ نے ڈینگ سیاؤپینگ کی حمایت کے ساتھ مارشل لا لگادیا جبکہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری ژاؤ ژیانگ اس کے حامی نہیں تھے۔ 1980 کے عشرے کے شروع میں ڈینگ سیاؤپنگ نے ہویاؤبانگ اور ژیاؤ ژیانگ کو اپنے دو بازو قرار دیا تھا مگر جب وقت آیا تو ڈینگ نے ہویاؤ بانگ کو ہٹانے سے دریغ نہیں کیا تھا۔ اب ژاؤ ژیانگ کی باری تھی۔
جون 1989 میں ژیاؤ ژیانگ کو ہٹاکر ان کی جگہ جیانگ زی من کو پارٹی کا نیا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔ اس طرح 1980 کے عشرے کے آخر تک ڈینگ سیاؤ پینگ نے اپنے دونوں بازو تبدیل کرکے نئے بازو لگالیے تھے جو وزیر اعظم لی پینگ اور پارٹی کے سربراہ جیانگ ذی مین تھے۔ 1989 مین لی پینگ جینی حکومت کے سب سے نمایاں نمائندے تھے جنہوں نے نیانن من اسکوائر میں مظاہرین کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کی۔ ڈینگ سیاؤپینگ جوکہ مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ تھے انہوں نے طلبا کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دیا۔
سبک دوش کیے جانے والے ژاؤ ژیانگ سیاسی و معاشی دونوں طرح کی اصلاحات ساتھ ساتھ لانا چاہتے تھے جبکہ ڈینگ سیاؤ پینگ سیاسی اصلاحات پر اتنے پرجوش نہیں تھے جتنے معاشی اصلاحات پر۔ دراصل وہ سوویت یونین میں گورباچوف کا حال دیکھ رہے تھے جنہوں نے سیاسی و معاشی دونوں اصلاحات لانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں دھڑام سے گر پڑے تھے۔ 1989 تک گرباچوف اپنی جنگ میں ناکامی کی طرف بڑھ رہے تھے کیوں کہ انہوں نے بوتل سے جن نکال دیا تھا جو واپس نہیں ڈالا جاسکتا تھا اور اسی جن نے بالآخر سوویت یونین کا خاتمہ 1991 تک کر ڈالا تھا۔
چین میں ژاؤ ژیانگ کی برطرفی کو طلبامظاہروں کو کچلنے کے بعد ڈینگ سیاؤ پینگ، لی پینگ اور جیانگ زی من معاشی اصلاحات کو آگے بڑھاتے رہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی سیاسی بالادستی برقرار رکھی۔ گوکہ مغربی ذرائع ابلاغ نے چینی وزیر اعظم لی پینگ کو بیجنگ کے قصائی کا لقب دیا۔ یہ ہی ذرائع ابلاغ تھے جنہوں نے امریکی صدر جانسن اور نکسن کو کبھی ویت نام کا قصائی نہیں کہا اور نہ بس کو افغانستان اور عراق کے قصائی کے طور پر یاد کیا۔
1990 تک ڈینگ سیاؤپینگ چھیاسی برس کے ہو چکے تھے اور انہوں نے مرکزی فوجی کمیشن کی قیادت بھی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری جیانگ زی من کو سونپ دی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ صدر، وزیر اعظم یا پارٹی سربراہ نہ ہوتے ہوئے بھی ڈینگ سیاؤپینگ سب سے طاقت ور فوجی ادارے مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ رہے تھے اور اسی فوجی حمایت نے انہیں مرد آہن بھی بنایا تھا اور ان کی معاشی اصلاحات کی مکمل حمایت بھی کی تھی۔
چین کا مرکزی فوجی کمیشن چین کی مسلح افواج، پولیس اور ملیشیا سب پر اختیار رکھتا تھا۔ لی پینگ 1987 سے 1998 تک گیارہ سال وزیر اعظم رہے۔ ڈینگ سیاؤ پینگ 1992 میں سرگرم سیاست سے دست بردار ہوگئے جب ان کی عمر اٹھاسی برس تھی۔ 1993 میں جیانگ زی من نے پارٹی سربراہی کے ساتھ صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ یعنی اب ان کے پاس تین بڑے عہدے تھے۔ پارٹی سربراہ، فوج کے سربراہ اور صدر مملکت۔ تیرہ سال پارٹی کی سربراہی کرنے کے بعد جیانگ زی من نے 2002 میں یہ عہدہ ہوجن تاؤ کو دے دیا جو دس سال اس عہدے پر رہے۔
صدارت کا عہدہ جیانگ زی من نے دو ہزار تین میں چھوڑا اورہوجن تاؤ کو صدر بھی بنادیا۔ لیکن زی من سب سے طویل عرصہ یعنی پندرہ سال مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ رہے اور دو ہزار پانچ میں یہ عہدہ چھوڑا پھر یہ تینوں عہدے ہوجن تاؤ کے پاس آگئے۔
اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماؤ کی موت کے بعد تیس سال تک چین پر دو افراد کی بالادستی رہی۔ پہلے پندرہ سال ڈینگ سیاؤپینگ کی اور پھر پندرہ سال جیانگ زی من کی۔ انیس سو اسی کے عشرے کے شروع میں ڈینگ سیاؤپینگ نے خود سے دس پندرہ سال چھوٹے ہویاؤبانگ اور ژاؤ بانگ کو آگے کیا تھا مگر پھر ان دونوں کو برطرف کرکے سیاسی اصلاحات کو لگام دی اور خود سے بیس پچیس سال چھوٹے لی پینگ اور جیانگ زی من کو آگے کیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ماؤزے تنگ کے بعد سب سے طویل عرصے پارٹی کی سربراہی جیانگ زی من نے کی یعنی تیرہ سال 1989 سے 2002 تک۔
اب ہم سوویت یونین کی طرف واپس آتے ہیں جہاں گرباچوف نے سیاسی و معاشی اصلاحات ایک ساتھ شروع کیں۔ ان کے تین نعرے تھے۔ جمہوریت، اظہاررائے کی آزادی اور تعمیر نو۔ اس میں لوکیانوف اور رژکوف ان کے ساتھ تھے۔ لوکیانوف مرکزی کمیٹی کے سربراہ بن گئے اور رژکوف وزیر اعظم۔
گرباچوف نے ڈینگ سیاؤ پینگ کی طرح محتاط انداز اختیار نہیں کیا اور ہر سمت میں بے تحاشا دوڑنے لگے۔ ڈینگ اور گرباچوف میں بنیادی فرق یہ تھا کہ گرباچوف نے آئینی ترمیم کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کی اقتدار پربالادستی ختم کردی جس کے بعد اقتدار اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور فوج بھی کچھ نہ کرسکی کیونکہ بڑی خون ریزی ہوتی۔
خود سوویت کمیونسٹ پارٹی کے لوگ الگ ہونے لگے اور پارٹی کے خلاف بولنے اور عمل کرنے لگے جس سے افراتفری پھیلی اور 1991 تک سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے پندرہ صوبے الگ ہوکر آزاد ممالک بن گئے۔ اس کے برعکس ڈینگ سیاؤ پینگ اور جیانگ زی من دونوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیاسی اقتدار کو مستحکم رکھتے ہوئے منڈی کی معیشت متعارف کرائی۔
جیانگ زی من پر ایک اور تفصیلی مضمون لکھاجانا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے ڈینگ سیاؤ پینگ کی اصلاحات کو آگے بڑھایا۔ اکیسویں صدی میں چین نے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کا سہرا بڑی حد تک ان ہی دو رہنماؤں کو جاتا ہے جنہوں نے ایسی بنیادیں رکھیں جن پر آج کا معاشی طورپر جدید لیکن سیاسی طور پر غیر جمہوری چین کھڑا ہے۔