پاکستان میں جبراً تبدیلی مذہب کو روکنے اور ذمہ دار اشخاص کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لئے صوبہ سندھ اور وفاقی سطح پرحکومت 2016، 2017، اور 2019 میں بل سامنے لائی۔ مگر ان اقدام کے باوجود صوبہ سندھ کے شمالی علاقوں کے آٹھ اضلاع میں بشمول سکھر، خیرپور میرس، گھوٹکی، شکارپور، کشمور ایٹ کندھ کوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ میں ہندو کمسن لڑکیوں کا اغوا اور جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کی شرح میں اضافہ تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔
ہندو کمیونٹی کے ساتھ ساتھ مسیحیوں کی کثیر تعداد جو صوبہ پنجاب کے علاوہ سندھ کے شہروں سکھر، حیدر آباد اور کراچی میں رہتے ہیں، وہ بھی اس جبراً تبدیلی مذہب و نکاح سے یکساں احساس عدم تحفظ میں مبتلا ہوئے ہیں۔ پہلے تو کمسن لڑکیوں کو اغوا کر کے نکاح کیا جاتا ہے اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا ہے اور مسلمان ہو کر شادی کر لی ہے۔ ایسے واقعات کے خلاف عدالتوں اور پریس کلب کے باہر اقلیتوں کو احتجاج کے باوجود انصاف نہیں ملتا اور یہ فیصلہ دے دیا جاتا ہے کہ لڑکی بالغ ہے اور اپنی مرضی کی مالک ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ اور سکول سرٹیفیکٹ سے بھی ثابت کر دیا جاتا ہے کہ لڑکی بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔ لہذا اب وہ اپنے مسلم شوہر کی شرعی بیوی ہے۔ لڑکی کے والدین اور پوری کمیونٹی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو 9 ماہ اپنی کوکھ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ اسے پیدا کیا۔ 13 اور 14 سال تک کتنی مشکل سے اس کی پرورش کی اور وہ لڑکی پل بھر میں ان سے چھین لی جاتی ہے۔ یہ کرب وہ ماں اورلڑکی کا خاندان بہتر بیان کر سکتا ہے جن کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے۔
بہت سارے ہندو اسی وجہ سے پاکستان کو خیر آباد کہہ چکے ہیں۔ حالیہ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندوؤں کی بڑی آبادی کراچی منتقل ہوئی ہے۔ مگر قانون بنا دینے کے باوجود نسل کشی کے ان واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ ہندو تو متاثر تھے ہی مگر اب پنجاب میں بھی جبراً تبدیلی مذہب و نکاح میں تیزی آنا شروع ہو گئی ہے۔ اگر ہندو سندھ میں زیادہ متاثر ہیں تو مسیحی پنجاب میں۔ پنجاب میں مسیحیوں کی کثیر تعداد رہتی ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ستم دیکھیں کہ 3 فروری کو کراچی ہائی کورٹ کے جج محمد اقبال کلہورو اور ارشد علی شاہ نے مسیحی لڑکی ہما یونس کے جبراً مذہب و نکاح کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ شرعی قانون کے مطابق اگر لڑکی کا پہلا حیض واقع ہو جاتا ہے تو وہ شادی کر نے کے لائق ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ہما یونس کراچی کی رہائشی ہے اور 10 اکتوبر 019 2 کو گھر سے زبردستی اٹھالی گئی تھی۔ ججز صاحبان کے ان ریماکس پر مسیحیوں کو ہائی کورٹ سے انصاف کی جو امید تھی۔ یہ ریمارکس سن کربہت مایوسی ہوئی۔ گویا مذہبی اقلیتیں شرعی لاء کا احترام کرتی ہیں۔ مگر ملکی قانون جو عوام الناس کے تحفظ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اْس میں شرعی لاء کا حوالہ دے کر ملکی قانون اور انصاف میں ابہام پیدا کرنا حیرت اور تکلیف دہ بات ہے۔ اسلام اقلیتوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ جہاں ریاست مدنیہ کی دن رات بات کی جاتی ہے تو ریاست مدینہ میں کسی بھی مسلم کو غیر کی عورتوں کو زبردستی اسلام قبول کروانا ممنوع بلکہ سزا بھی مقرر تھی۔
اور سینٹ کیتھرین کانوینٹ کے ساتھ ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا جس میں کسی بھی مسلم کو جبراً تبدیلیِ مذہب اور جبراً نکاح کی اجازت نہ تھی۔ پھر پاکستان میں کیوں تضاد موجود ہے۔ آج تقربیاً تمام اسلامک ممالک میں بھی میڈیکلی اور پوری طرح گھر کے نظم وضبط کو سمجھنے اور چلانے جیسے مسائل کے پیش نظر لڑکی کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کر دی گئی ہے۔ ایسے ریمارکس اور بیانات سن کر یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں دو ہرا عدالتی نظام رائج ہے۔
ایک طرح شرعی کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ملکی آئین کو دیکھتی ہے کہ وہ غیر اسلامی تو نہیں اور وہ اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرتی ہے۔ تو دوسری طر ف پاکستان کا آئین ہے اور قانون پر عمل درآمد اور انصاف کے لئے عدالتیں ہیں۔ ملک کے قانون میں لڑکی کی شادی کی عمر 18 سال مقرر ہے تو شرعی عدالت 12 سال کی لڑکی کو شادی کی اجازت دیتی ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ ایسے دوھرے نظام سے ملک کا قانونی نظام نہ صرف متاثر ہوتا ہے۔
بلکہ انصاف کی رہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ جبراً تبدیلی ِمذہب کا عمل جو صرف نکاح کرنے کی عرض سے کیا جاتا ہے۔ روک تھام ہونے کی بجائے ایسے عناصر کو حوصلہ افزائی ہوگئی۔ جو ملک کی مزید بدنامی کا سبب بھی بنے گا۔ اگراور انصاف مہیا کرنے والی عدلیہ اور حکومت سنجیدہ ہے تو اْسے سنجیدگی سے سوچنا اور اقلیتوں کی داد رسی کے لئے مزید سخت ادام کرنے پڑیں گئے۔ ستم طرفی یہ ہے کہ خصوصاً جب مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی بات ہوتی ہے تویہ شرعی عداتیں ملکی عدالتوں کے فیصلے پر اثر انداز ہوجاتی ہیں۔
جس سے انصاف متاثر بھی ہوتا ہے اور غریب اقلیتوں کو انصاف بھی نہیں مل پاتا۔ جس سے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس شدت سے پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بات عقل و فہم سے باہر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جو اس بل کے مسودے اور سفارشات کو مکمل تیارکر چکی ہے تو اسے اسمبلی میں یا شرعی لا میں سوچ بیچارکرنے اور اس بل کو قانون کا حصہ بنائے جانے سے گریزاں کیوں ہے۔ خدارا صورتحال کو سمجھئے۔ کیونکہ اقلیتوں کو احساس عدم تحفظ سے باہر نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ جبراً تبدیلی مذہب اور جبراً نکاح کو روکا جائے۔ اور اس پر عمل درآمد نہ کرنے والے کی سزا مقرر کرنا بھی ضروری ہے۔ امیدکرتے ہیں کہ حکومت، اسلامی نظریاتی کونسل اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے اور عدلیہ اس پر غیر جانبدارانہ فیصلہ دیں گے۔ اور شرعی عدالتیں بھی وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں گی۔