میں پچھلے تین مہینوں سے پاکستان جانے کا پروگرام بنا رہا تھا اور 24 مارچ 2020 کا ٹورانٹو لاہور کا پی آئی اے کا ٹکٹ بھی خرید لیا تھا۔ دوستوں کو اپنے آنے کی خبر بھی دے دی تھی اور انہوں نے مجھے خوش آمدید کہنے کا اہتمام بھی کر لیا تھا۔
لاہور کے امجد صاحب ’جو سانجھ ادارے کے پبلشرہیں‘ وہ میرے ’ہم سب‘ کے کالموں کا انتخاب ’آدرش‘ چھاپ رہے ہیں۔ امجد صاحب شاعر امیرحسین جعفری کے ساتھ ’جو ایک نظم کے معتبر شاعر اختر حسین جعفری کے بیٹے ہیں‘ مل کر اس کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام کر رہے تھے۔ میں امجد صاحب سے کبھی نہیں ملا لیکن میں نے انہیں فون پر مشورہ دیا تھا کہ وہ اس تقریب میں وجاہت مسعود کو بھئی دعوت دیں۔
لاہور کی طرح اسلام آباد میں بھی میرے دوست کامران احمد نے اپنی دانشور اور سماجی کارکن بہنوں کے ساتھ مل کر لوک ورثہ میں 4 اپریل کو ہماری انگریزی کی کتاب TWO CANDLES OF PEACEکی رونمائی کا اہتمام کیا تھا۔ میں نے اسلام آباد کے دوستوں کو ’جن میں نعیم اشرف‘ فرنود عالم ’حاشر‘ لینہ ’خالدہ نسیم (جو کینیڈا سے پاکستان آ رہی تھیں ) کے علاوہ کئی اور ادیب دوست بھی شامل ہیں‘ اطلاع دی تھی کہ ہم سب ایک شام کے لیے مل بیٹھیں گے اور دل کی باتیں کریں گے۔
لیکن پھر کرونا وائرس نے ساری دنیا میں ایسا تہلکہ مچایا کہ بڑے بڑے پارساؤں کے ایمان متزلزل ہو گئے اور انہوں نے سائنس اور مذہب کو آپس میں برسرِ پیکار بنا دیا۔ حیرت کی بات یہ کہ بعض مولویوں نے قرآن میں کرونا وائرس کی بیماری اورعلاج بھی تلاش کر لیے۔ اصحابِ نظر جانتے ہیں کہ وبا کے دور میں انسانی محبتوں میں نئے موڑ در آتے ہیں اور ملکوں کے رشتوں کے ڈھکے چھپے تضادات سطح پر آ جاتے ہیں۔ چاروں طرف افرا تفری کا سماں بندھ گیا اور مجھے مقامی اور بین الاقوامی دوستوں کے فون ’ای میل اور فیس بک پیغام آنے شروع ہوئے کہ میں پاکستان آنے کا ارادہ ملتوی کر دوں۔
میں نے پہلے تو ان پیغامات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا کیونکہ مجھے یوں لگا جیسے اس وبا کا تعلق طب اور صحت سے کم اور سیاسی مصلحتوں اور معاشی سازشوں سے زیادہ ہو لیکن دھیرے دھیرے وبا کی ہوا نے آندھی اور طوفان کا روپ دھارنا شروع کر دیا جس کی لپیٹ میں سب سے پہلے چین ’ایران اور اٹلی آئے۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ ہر سال COMMON FLU سے سینکڑوں ہزاروں لوگ مرتے ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جویا تو بہت ضعیف اور بزرگ ہوتے ہیں اور یا جن کی قوتِ مدافعت بہت کم ہوتی ہے۔
میں نے کل رات تک اپنا بوریا بستر باندھا ہوا تھا اور میں عازمِ سفر تھا لیکن پھر میری کنیڈین دانا دوست اور رفیقِ کارBETTE DAVIS نے مجھے پاکستان نہ جانے کا قیمتی مشورہ دیا اور اس مشورے کی کئی وجوہات بتائیں۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ کنیڈین گورنمنٹ نے تمام شہریوں سے کہا ہے کہ وہ دنیا کے جس کونے میں بھی ہیں اگلے دس دن میں اپنے گھر واپس آ جائیں۔
دوسری وجہ یہ کہ اگر میرے پاکستان جانے کے بعد پی آئی اے کی فلائٹ طویل مدت کے لیے منسوخ ہو گئی تو کیا ہوگا۔
تیسری وجہ یہ کہ کینیڈا واپس آنے کے بعد بھی مجھے دو ہفتے کلینک سے دور اپنے گھر میں self quarantineمیں اس طرح گوشہ نشین رہنا ہوگا جس طرح کینیڈا کا وزیرِ اعظم جسٹن ٹرودو رہ رہا ہے۔
چوتھی وجہ یہ کہ ہم اپنے کلینک میں جن تین سو مریضوں کا خیال رکھتے ہیں ان میں سے چند بزرگ بھی ہیں اور ضعیف بھی۔ ان غیر یقینی حالات میں میرے جانے کی خبر سے ان کی اینزائٹیANXIETY اور ڈیپریشنDEPRESSION بڑھ گئی ہے ایک دو نے تو ڈراؤنے خواب دیکھے ہیں کہ ان کا مسیحا لوٹ کر نہیں آیا۔ اس واقعے سے پہلے مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ میرے مریض مجھے کس قدر چاہتے ہیں۔
ان تمام وجوہات کی وجہ سے بے ٹی ڈیوس نے مشورہ دیا کہ میں پاکستان نہ جاؤں۔
اس گفتگو کے بعد میں کافی دیر تک گہری سوچ میں ڈوبا رہا اور پھر سو گیا آج صبح اٹھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں پاکستان نہیں جاؤں گا۔
چنانچہ میں نے پاکستان فون کر کے اپنی بہن عنبرین کوثر اوراپنے دوستوں کو مطلع کیا کہ میں پاکستان نہیں آ رہا۔
جب میں نے فون پر اپنی افسانہ نگار دوست رابعہ الربا کو یہ تفصیل بتائی اور پھر کہا کہ اگر چہ میں ایک مرد ہوں لیکن میں نے ایک ذہین عورت کا مشورہ مان لیا ہے تو وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور کہنے لگیں آپ اس موضوع پر نہ صرف کالم لکھیں بلکہ اسے یہ عنوان بھی دیں۔
اب میں نے دو ذہین عورتوں کا مشورہ مان لیا ہے۔ بے ٹی ڈیوس کے مشورے کی وجہ سے میں پاکستان نہیں جا رہا اور رابعہ الربا کے مشورے کی وجہ سے یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ مجھے اندازہ ہے اس کے عنوان کے مشورے میں رابعہ کی دانائی کے ساتھ ان کی ادبی شرارت بھی شامل ہے۔
پاکستان نہ جانے سے میرے دل میں یہ کسک رہ جائے گی کہ کینیڈا کا درویش خالد سہیل اپنے ہاتھ سے پاکستانی درویش وجاہت مسعود کو ’ہم سب‘ کا کالموں کا مجموعہ ’آدرش‘ پیش نہ کر سکے گا۔
یار زندہ صحبت باقی
بعض دفعہ دوریاں محبتوں میں اضافہ بھی کر دیتی ہیں۔