اسلام آباد —
صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' (آر ایس ایف) نے الزام لگایا ہے کہ رواں ماہ دو مارچ کو سوئیڈن سے لاپتا ہونے والے پاکستانی صحافی ساجد حسین کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے اغوا کرایا۔
سوئیڈن کے شہر اپسالا سے دو مارچ کو پر اسرار طور پر لاپتہ ہونے والے بلوچ صحافی ساجد حسین آن لائن جریدے 'بلوچستان ٹائمز' کے کے مدیر ہیں۔ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق سمیت دیگر مسائل پر مضامین لکھتے ہیں۔
آر ایس ایف سویڈن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں یورپی ملکوں میں مقیم پاکستانی صحافیوں پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ لہذٰا اس بات کو خارج ازمکان قرار نہیں دیا سکتا کہ ساجد حسین کو اُن کے صحافتی کام کے باعث اغوا کیا گیا۔
دریں اثنا نیو یارک میں صحافیوں کے حقوق سے وابستہ تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' نے بھی ساجد حسین کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے سوئیڈش حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ساجد حسین کو جلد بازیاب کرائیں۔
کمیٹی کی ایشیا شاخ کے سربراہ اسٹیون بٹلر کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سامنے لانے پر ساجد کو دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے اُنہوں نے پاکستان چھوڑا۔
ساجد حسین سوئیڈن میں اسٹاک ہوم کے قریب واقع شہر اپسالا میں یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کرانے کے بعد بذریعہ ٹرین ہاسٹل جا رہے تھے مگر وہ وہاں نہ پہنچ سکے اور پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔
تاج بلوچ سوئیڈن میں ساجد حسین کے قریبی رفقاء میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ساجد حسین کی سوئیڈن میں معمولات زندگی کے حوالے سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ساجد حسین ستمبر 2017 کو سوئیڈن آئے۔
ان کے بقول "ساجد حسین کے سویڈن آنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات خراب تھے۔ جس کے باعث اُنہوں نے 2012 میں ملک چھوڑ دیا۔ سوئیڈن آنے سے پہلے وہ مسقط، اور دبئی میں مقیم رہے۔
ساجد حسین سوئیڈن کی اپسالا یونیورسٹی سے بلوچی زبان میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ بھی لے چکے تھے اس کے علاوہ ان کی زیادہ تر سرگرمیوں کا مرکز بلوچی زبان کا فروغ تھا اور وہ بلوچی زبان کے لغت پر بھی کام کر رہے تھے۔
تاج بلوچ کے مطابق ساجدحسین نے گمشدگی سے قبل ان سے کسی قسم کی تشویش یا خطرے کا اظہار تو نہیں کیا تھا مگر وہ اکثر 2012 میں ان پر بیتی کہانی کا تذکرہ کرتے تھے۔
تاج بلوچ کے بقول ساجد نے انہیں بتایا تھا کہ جب وہ پاکستان میں صحافت کررہے تھے کہ ایک دن وہ گھر پر موجود نہیں تھے اور مسلح افراد ان کے گھر میں گھس کر ان کے سامان کی کی تلاشی لینے لگے۔ ان کی اہلیہ سے ان کی صحافتی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی پوچھ گچھ کی اور ان کا لیپ ٹاپ ساتھ لے گئے۔
ساجد کے گھر میں ان کی اہلیہ اور دو بچے ہیں جن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ جو کچھ عرصے بعد ساجد کے پاس سوئیڈن پہنچنے والے تھے۔
ملک سراج اکبر امریکہ میں مقیم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سنیئر صحافی اور مصنف ہیں وہ اکثر بلوچستان کے حالات اور واقعات خصوصاً صحافیوں کے حقوق اور مسائل پر لکھتے ہیں۔
ان کے بقول "ساجدحسین سے میری شناسائی اس وقت ہوئی جب میں کوئٹہ میں بطور بیورو چیف ڈیلی ٹائمزکام کررہا تھا اور ساجد کراچی میں دی نیوز کے ساتھ بطور ڈیسک ایڈیٹر منسلک تھے۔"
ملک سراج اکبر کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے متعلق انکے اداریے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے تھے۔ ساجد تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور واقعات کا بڑی باریک بینی سے تجزیہ کرتے تھے۔
ملک سراج کے مطابق جب بلوچستان میں حالات خراب ہوئے تو نہ صرف بلوچستان بلکہ کراچی میں بھی کام کرنے والے بلوچ صحافیوں اور دانشوروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حتٰی کہ کچھ صحافی لاپتا ہوئے اور کچھ کو ہلاک کر دیا گیا۔
انہی حالات کے پیشِ نظر ساجد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے لیے ا ب یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی۔ تاکہ وہ ایک پرسکون ماحول میں اپنی صحافتی سرگرمیاں برقرار رکھ سکیں۔
ساجد نے سوئیڈن ہی میں اپنے آن لائن اخبار بلوچستان ٹائمز کی بنیاد رکھی اس آن لائن جریدے میں انہوں نے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کیا۔
سوئیڈن ہی میں انہوں نے 'پوڈ کاسٹ' کا آغاز کیا جس میں وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شاعر، ادیب اور دانشوروں سے بلوچستان کے اہم مسائل پر بات کرتے تھے۔
ملک سراج کے مطابق ساجد ایک مکمل صحافتی پیکج ہیں جو ایک اچھے لکھاری ہیں، ایک اچھے ایڈیٹر ہیں۔ انہیں بلوچی، اردو اور انگلش تینوں زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اُن کے بقول ایسے بہت کم بلوچ صحافی ہیں جنہوں نے ساجد کی طرح پاکستان کے قومی اخبارات اور دیگر صحافتی اداروں میں کام کیا ہو۔
ملک سراج کے مطابق دو مارچ سے ساجد کے سوئیڈن میں اس طرح پر اسرار گمشدگی تمام صحافیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ سوئیڈش حکام ان کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔