کراچی سے پنجگور اور پنجگور سے کیچ کا طویل مسافت طے کرتے ہوئے چائے کی طلب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ چائے کا چسکا ہر جگہ لے چکا تھا مگر حقیقی ذائقہ دینے سے وہ چائے محروم تھے۔ چائے کی بدمزگی کا برملا ا اظہار میں نہ چاہتے ہوئے پنجگور کے دوستوں کے سامنے کر چکا تھا۔ دوستوں نے سوال کر ڈالا کہ چائے کیسی چاہیے وہی بتا دو ہم بنا لیں گے میں نے جوابا کہا تھا کہ ذائقے کی شکل و صورت کو لفظوں میں کس طرح بیان کیا جاتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ کیچ میں بھی یہی حال تھا۔ شام ہوتے ہی ہم نے نعیم شاد سے فرمائش کی کہ چائے ہمیں وہ پلائیں جو بقول دوستوں کے دماغ کی بتی جلا دے۔ شاد سوچ میں پڑ گیا پھر کہنے لگا چلیں آپ کو سینما چوک لیے چلتے ہیں۔
تربت شہر کے اندر کسی زمانے میں ”پاما“ اور ”دلبر“ کے نام سے دو سینما ہوا کرتے تھے۔ یہ سینما تربت کی افرادی قوت کو تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے۔ وقت کی بے رحم موجوں نے ان سینما گھروں کو نہیں بخشا۔ دونوں سینما یکے بعد دیگر بند ہوگئے۔ پاما سینما کی جگہ اب چاکر مارکیٹ نے لے لی ہے جبکہ دلبر سینما اب مشترکہ ٹرانسپورٹ بن چکا ہے۔ اسی چوک کے اردگرد سینما واقع ہونے کے وجہ سے یہ سینما چوک کے نام سے مشہور ہوا۔
نعیم شاد نے ایک ہوٹل کے سامنے گاڑی رکوا دی۔ جو غلام جان ہوٹل کہلاتا ہے۔ ہوٹل کے اندر داخل ہوتے ہی ہمیں محسوس ہوا کہ جس چیز کی ہم تربت میں محسوس کر رہے تھے۔ وہ موسیقی ہماری سماعتوں کو محظوظ کر رہا تھا۔ موسیقی کے اس نظام کو چلانے کے لیے دو چھوٹے بچے متعین تھے جو گانا بدلنے آواز کم یا اونچاکرنے کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ہوٹل کا اندرونی حصہ پوسٹرز سے مزین تھا۔ نعیم شاد نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ کسی زمانے میں ہوٹل کے اندر گلوکار عارف بلوچ کے بڑے بڑے پوسٹر نمایاں ہوا کرتے ہوتے تھے اور عارف ہی کی آواز سنائی دیتی تھی۔
ہوٹل کے چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ ہوٹل اب بھی اپنا پرانا حلیہ نہیں بھلا پایا ہے۔ یادوں کا سایہ چاروں اطراف منڈلا رہا ہے۔ سب اپنی اپنی یادیں در و دیواروں کو دے کر رخصت ہوئے تھے اور یہ ہوٹل ان یادوں کے نقوش اب بھی مٹا نہیں پایا تھا۔ تربت میں انٹرنیٹ کی بندش کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم نے بزرگ اور نوجوانوں کو ہوٹل کے اندر تاش کے ساتھ محظوظ ہوتے ہوئے پایا اور چند نوجوانوں کو سنوکر کھیلتے ہوئے۔ چائے کی جب چسکی لے رہا تھا تو اس میں موسیقی کا ذائقہ آرہا تھا۔ ایک طویل وقفے کے بعد چائے اور موسیقی سے دماغ کی تھکاوٹ دور کرنے جا رہے تھے۔
موسیقی کے حوالے سے کیچ کی سرزمین کافی زرخیز رہا ہے۔ موسیقی سے لگاؤ نے کیچ کی سرزمین نے بڑے بڑے نام پیدا کیے جنہوں نے ساز و آواز سے سننے والوں کے روح کو گرما دیا۔ زرخیز زمین کا نتیجہ ہی تھا کہ یہاں سے بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز کا آغاز ہوا۔ فن اور فنکاروں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ سرزمینِ مکران اسے بڑے پیمانے کا نہ سہی چھوٹے پیمانے کا صنعتی درجہ دینے میں کامیاب ہوا۔ مگر اکیسویں صدی کا پڑاؤ یہاں موسیقی کی صنعت کے لیے اچھام پیغام نہیں لا پایا جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروا کر کیسیٹ اور وی سی آر سسٹم کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔
پروڈکشن ہاؤسز یکے بعد دیگر بند ہو رہے تھے بڑی کمپنی بلوچستان میوزک سینٹر بھی اس کی زد میں آیا۔ دوسری جانب وہ حالات تھے جنہوں نے شورش کی شکل اختیار کی۔ شادی کی تقریبات اور محافل بند کمروں کے حوالے ہوئے۔ جنگ کی فضا میں موسیقی خاموش ہوچکا تھا۔ گولی بارود کی آواز سماعتوں کا حصہ بن چکے تھے۔ فنکاروں کا معاشی نظام متاثر ہوا۔ فنکار کیسیٹ اور محفل کے جس نظام سے معاشی سانسیں لے رہے تھے نظام دھڑام سے گر چکا تھا۔ کیسیٹ کی جگہ ایم پی تری لے چکا تھا۔ ایک خاموش فضا سراپا احتجاج تھا۔ مگر غلام جان ہوٹل اس خاموش فضا میں دیا کا کام کر رہا تھا سننے والوں کو۔
سینما چوک سے ہوتے ہوئے ہم ایک بار پھر سے النعیم ہوٹل جا پہنچے تھے۔ جہاں مایہ ناز گلوکار سبزل سامگی پہلے سے براجمان بیٹھا تھا۔ موسیقی سے ہم اپنی روح کو گرما چکے تھے۔ جبکہ ناکو سبزل ساز سے نہیں بلکہ اپنی آواز سے ہمیں محظوظ کرنے وہاں محفل جما چکے تھے۔ نازینک اور زہیرونک، ساز و آواز کے ساتھ بلوچی موسیقی پر نصف صدی تک راج کرنے والا سبزل سامگی کے دل کو موسیقی نے اب تک جوان رکھا ہے۔ ہنستے ہیں ہنساتے ہیں۔
جہاں کبھی ان کے چاہنے والوں کا جمگھٹا رہتا تھا اب تنہائی سے اسے تکلیف نہیں ہوتی۔ انہوں نے دنیا دیکھی۔ دنیا کا سیر کیا اپنی آواز کا جادو جگایا۔ زہیرونک کے ذریعے لوگوں کے دلوں کا تار چھیڑتے رہے۔ شہرت کمائی مگر نازاں نہیں ہوئے پیسے کمائے اسی طرح خرچ کیے۔ اب اس کے خزانے میں اس کی آواز کے سوا اب کچھ بھی نہیں۔ النعیم ہوٹل کے ساتھ ملحق اس کے گھر کو کئی لوگ ہتھیانے آگئے مگر سب کو ناکامی ہوئی۔ ایک اور فنکار نے جب زہیرونک کو غیر بلوچی قرار دے دیا۔ اپنی تخلیق کی اس بے حرمتی پر انہیں دلی طور پر تکلیف ہوئی۔
ان کی کمائی کا سب سے اہم ذریعہ شادی کے محافل رہے۔ انہی محافل میں سے ایک محفل کی دلچسپ کہانی وہ یوں سناتے ہیں کہ جب اس محفل سے اچھی خاصی کمائی آئی۔ تو ایک شخص کی نیت میں کھوٹ آئی۔ مگر ایک بزرگ کا دیا ہوا دھاگہ کام آیا۔ اور وہ رقم ہتھیانے سے بچ گئے۔ ایک اور دلچسپ اور مزاحیہ قصہ بتاتے ہیں۔ ناروے میں ایک محفل چل رہا تھا۔ تو ایک خوبرو خاتون سے آمنا سامنا ہوا۔ تو اس نے سبزل کو رشتے کا آفر کرکے کہا کہ اگر ان کی شادی سامگی سے ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں گی جوابا سبزل سامگی نے ان سے کہا کہ بلوچ فنکار خود بھوکا ہے اور تمہیں زندگی بھر بھوکا ہی رکھے گا۔
تب اس خاتون کو بلوچ فنکاروں کی غربت کا احساس ہوا اور اسے اپنا دلی فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ میں نے کہا کہ شادی کر لیتے، کیا پتہ قسمت کھل جاتی۔ تو کہنے لگے قسمت خاک کھل جاتی۔ ”ایک بار بادشاہ نے کسی شخص کو انعام میں ہاتھی عطا کیا تھا۔ تو لوگ مبارکباد دینے اس کے ہاں آئے۔ تو اس شخص نے کہا کہ مبارکباد خاک وصول کر پاؤں اس ہاتھی کا خرچہ کون دے پائے گا؟ “ ناکو سبزل ہمیں کافی دیر تک ہنساتے رہے ہم نے ان سے زہیرونک سننا تھا۔ مگر اگلے روز پتہ چلا کہ ناکو سبزل گوادر میں منعقدہ ایک تقریب میں اپنی زہیرونک سنانے گوادر چلے گئے ہیں۔ ہم زہیرونک سننے سے محروم ہوگئے۔