مقبولِ عام ویڈیو کانفرنسنگ ایپلی کیشن ’زوم‘ نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے اپنی ایپ کا ایک نیا اور بہتر ورژن جاری کرے گی۔
یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ڈیٹا اور صارفین کی راز داری یعنی پرائیویسی کے لیے کمپنی کے اقدامات کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
کمپنی نے کہا ہے کہ زوم کے ورژن 5.0 میں زیادہ بہتر انکرپشن فیچر ہوں گے تاکہ ’زوم بومبنگ‘ یعنی غیر متعلقہ افراد کے کسی ویڈیو کانفرنس میں داخل ہونے کو روکا جا سکے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے آج کل دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور اس پلیٹ فارم کو لاکھوں افراد کام اور اپنے پیاروں سے رابطوں سے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
زوم کے چیف ایگزیکٹیو ایرک یوآن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم اپنے صارفین کا اعتماد جیتیں گے اور انھیں محفوظ ترین پلیٹ فارم فراہم کرنے کی اپنی غیر متزلزل توجہ سے انھیں خوشی پہنچائیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیے
زوم پر رازداری سے متعلق کئی مسائل کے سبب سخت تنقید کی جاتی رہی ہے جس میں صارفین کا ڈیٹا فیس بُک کو بھیجنے، صارف سے صارف تک انکرپٹڈ ہونے کے غلط دعوے اور میٹنگ کے میزبانوں کو شرکا کو ٹریک کرنے کی اجازت ہونا شامل ہیں۔
ایپ کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ’زوم بومبنگ‘ ہے جس میں بن بُلائے مہمان میٹنگز میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی کمپنیوں، سکولوں، اور حکومتوں نے اس پلیٹ فارم کا استعمال روک دیا ہے۔
برطانیہ میں اس حوالے سے بحث جاری ہے کہ آیا حکومت کو کابینہ کے اجلاس کے لیے زوم استعمال کرنا چاہیے یا نہیں، کیونکہ چند دن قبل بورس جانسن نے ایک تصویر ٹویٹ کی تھی جس میں تازہ ترین میٹنگ کا آئی ڈی نمبر درج تھا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایلون مسک نے اپنی کمپنی سپیس ایکس میں میٹنگز کے لیے زوم کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔
سپیس ایکس کے سب سے بڑے گاہکوں میں سے ایک ناسا نے بھی اپنے ملازمین کو اس کے استعمال سے روک دیا ہے۔
اس دوران سنگاپور نے اساتذہ کی جانب سے زوم کے استعمال پر ایک آن لائن کلاس کے دوران ’ایک انتہائی سنگین واقعے‘ کے بعد پابندی عائد کر دی ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں زوم نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی نئے فیچر پر کام کرنے سے قبل پرائیویسی اور تحفظ کے مسائل پر کام کرے گی۔
کمپنی کے سربراہ نے سکیورٹی کے مسائل پر ’پورا نہ اترنے‘ پر معذرت کی ہے اور وعدہ کیا تھا کہ وہ ان خدشات پر کام کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران زوم کا استعمال اس انداز میں بڑھا ہے جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
زوم کے یومیہ صارفین کی تعداد تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ایک کروڑ سے بڑھ کر 20 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔
اسی دوران نیویارک کی اٹارنی جنرل نے کمپنی کو خط میں صارفین کی تعداد میں اضافے سے نمٹنے کی اس کی قابلیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز نے زوم سے پوچھا ہے کہ کیا اس نے اپنی مقبولیت میں اضافے کے بعد اپنے سکیورٹی اقدامات پر نظرِ ثانی کی ہے یا نہیں۔ انھوں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ ماضی میں یہ ایپ مسائل کو حل کرنے میں کافی سست رہی ہے۔
بی بی سی کی جانب سے تبصرے کی ایک درخواست پر کمپنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’زوم اپنے صارفین کی رازداری، تحفظ اور اعتماد کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے۔‘