جنوبی کوریا میں جنسی جرائم کے لیے خفیہ کیمروں کا استعمال لوگوں کی جان لے رہا ہے

(نوٹ: اس رپورٹ میں موجود کچھ مواد آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے)
’ایک روز اس نے صبح سویرے وہی ڈراؤنا خواب دیکھ کر مجھے فون کیا جس میں اس کی ویڈیو بنانے والے شخص کا چہرہ نظر آتا تھا۔ اسے بار بار وہ خواب آتا تھا۔
’ابتدائی دنوں میں اس نے ڈیپریشن کی دوا لینا شروع کی۔ لیکن اس کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
’وہ اس خیال سے مسلسل تکلیف میں مبتلا تھی کہ کیا پتا کب کوئی اس کی جان پہچان والا شخص اس مواد کو دیکھ لے۔‘
جنوبی کوریا میں گذشتہ چند برسوں میں ایک نئے قسم کے جرم نے معاشرے میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے۔ اسے ’مولکا‘ کہتے ہیں۔ کوریائی زبان میں مولکا لفظ کا استعمال خفیہ کیمرے کے لیے ہوتا ہے۔
کچھ خفیہ کیمرے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں جیسے کہ سوئی کی نوک۔ ایسے کیمروں کو لوگوں کی خواب گاہوں، بیت الخلا اور عوامی مقامات پر استعمال کر کے ان کی ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چند برسوں میں مولکا ایک بہت بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔
سنہ 2017 میں پولیس کے پاس اس نوعیت کی 6400 شکایات آئی تھیں جبکہ سنہ 2012 میں پولیس کو ایسی 2400 شکایات موصول ہوئی تھیں۔
جنوبی کوریا میں پورنوگرافی یعنی فحش ویڈیوز پر پابندی ہے۔ تاہم ملک کی 90 فیصد آبادی کے پاس سمارٹ فونز ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی ٹیکنالوجی کیمروں کو لوگوں کی مرضی کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے بڑی تعداد میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی تھری کی ایک تازہ دستاویزی فلم میں سٹیسی ڈولی نے اس معاملے کی تفتیش کی جس کا نام ہے ’سپائی کیم سیکس کرمنلز۔‘
اس میں انھوں نے جنوبی کوریا میں مولکا کے پھیلاؤ کے بارے میں دکھایا ہے اور ایک ایسے خاندان سے بات کی جن کی بیٹی نے مولکا سے متاثر ہونے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔

’میں اس بارے میں سوچنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا‘

سنہ 2019 میں جنوبی کوریا کے ایک ہسپتال کے ایک کلینیکل پیتھالوجسٹ کا معاملہ سامنے آیا جو ایک سوپر مارکیٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گھومتے ہوئے خواتین کی سکرٹ کی تصاویر بناتے پکڑا گیا تھا۔
پولیس کو ان کے فون میں اس کے ساتھ کام کرنے والی متعدد خواتین کی ویڈیوز بھی ملیں۔
متاثرہ خواتین میں سے ایک کے والد نے سٹیسی کو بتایا ’میری بیٹی نے (جو ہسپتال میں کام کرتی تھی) بہت غصے میں مجھے فون کیا۔ اس نے مجھے اپنی خفیہ انداز میں بنائی گئی ویڈیو کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اس کے ساتھ ایسا کرنے والا شخص ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔‘
اس شخص نے خواتین کے لاکر کے سامنے کتابوں والی الماری میں ایک سوراخ کر کے ایک کیمرا چھپایا ہوا تھا۔
اس کیمرے سے خواتین کے کپڑے بدلتے ہوئے ویڈیوز بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے چند خواتین صرف زیر جامہ پہنے ہوئے تھیں جبکہ کچھ بالکل برہنہ۔‘
متاثرہ خاتون کے والد نے کہا کہ ’میں اس (اپنی بیٹی) کی جان بچا سکتا تھا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔‘ خاتون کی والدہ نے بتایا کہ ’اس ویڈیو میں دیگر خواتین کے پرائیویٹ حصے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے خود وہ ویڈیو نہیں دیکھی، ہماری بیٹی نے ہمیں یہ سب کچھ بتایا تھا۔‘
والد نے کہا ’شاید ہماری بیٹی کے جسم کی بھی ویڈیو بنائی گئی تھی لیکن وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تھی شاید اس لیے وہ ہمیں سب کچھ نہیں بتا سکی۔‘
لڑکی کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو بُرے بُرے خواب آنے لگے تھے اور اسے ڈاکٹر نے ڈیپریشن کے علاج کی دوا دی تھی۔
بعد میں اس کا بوائے فرینڈ اس کے ساتھ رہنے لگا تاکہ اس کا خیال رکھ سکے۔ لیکن چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات والدین کو وہ خوفناک فون کال موصول ہوئی۔
وہ اپنی شادی کی تیاریاں کر رہی تھی۔
والد نے بتایا کہ اس نے اونچائی سے کود کر اپنی جان لے لی۔ انھوں نے کہا ’میں دو گھنٹے تک یہی سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا کہ شاید وہ بری طرح زخمی ہوئی ہو۔
’میں پچاس برس کا ہوں لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ اس نے 17ویں منزل سے چھلانگ لگائی ہے، میں پاگل ہو گیا۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس کے بوائے فرینڈ نے اسے چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم نے تو صرف خبر سُنی۔ اس کی تکلیف بہت زیادہ بڑی ہے۔ اب ہم اس سے یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری بیٹی کو بھول جائے۔ بس بھول جائے اسے۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کا قتل کیا‘

متاثرہ لڑکی کے والدین سٹیسی سے بات کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے فلیٹ سے اس کا سامان اٹھا رہے تھے۔ والد نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بچی کو مار ڈالا۔‘
وہ بیٹی کی تصاویر، خطوط اور کچھ نجی سامان الگ کر رہے تھے جس میں اس کی شادی کا کارڈ بھی شمال تھا، تاکہ بودھ مذہب کے طریقوں سے اس کی آخری رسومات میں ان اشیا کو جلا سکیں۔
متاثرہ لڑکی کی والدہ نے مقدمے کے دوران کہنے کے لیے بھی کچھ لکھ رکھا تھا۔ وہ تحریر کچھ یوں تھی ’یور آنر، کیا صرف کسی ہتھیار سے کسی کی جان لینا ہی قتل ہوتا ہے؟ ملزم نے اندھیروں میں لطف اٹھانے کے لیے میری بیٹی کے جسم سے جان نکال لی، جو مسلسل تکلیف میں جی رہی تھی۔‘
آگے لکھا تھا ’ہم اس کی تکلیف کیسے بیان کریں؟ وہ کس قدر دکھ اور تکلیف میں رہی ہو گی کہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے دور چلی گئی۔‘
ان کی بیٹی کو مولکا کا نشانہ بنانے والے شخص کو دس ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
متاثرہ لڑکی کو یہ بھی فکر تھی کہ مولکا کی متاثرہ کے طور پر پہچانے جانے سے اس کا کریئر متاثر ہو سکتا تھا۔
اس کے والد نے کہا ’اس وقت میں نے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں نے اس سے کہا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی نے تمہارا ریپ کر دیا ہو۔ ویسے بھی تم نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، تم مکمل خود اعتمادی کے ساتھ زندگی جیو۔’
انھوں نے کہا ’میں بہت زیادہ عملی اعتبار سے بات کر رہا تھا لیکن میری بیٹی کو شرمندگی کی فکر تھی۔ اس نے مجھ سے اس بارے میں خاموشی اختیار کرنے کو کہا اس لیے میں خاموشی سے سب کچھ ہوتا دیکھتا رہا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا ہو۔ یہ خیال مجھے پاگل کر دیتا ہے۔’
والد کو مسلسل یہ احساس پریشان کرتا رہتا ہے کہ اگر وہ چاہتے تو اپنی بیٹی کو بچا سکتے تھے۔
سٹیسی کے مطابق بعض افراد مولکا کی سنجیدگی کو نہیں سمجھتے، انھیں لگتا ہے کہ چند تنہا زندگی گزارنے والے افراد لڑکیوں کی سکرٹ کے اندر کی چند تصاویر اتار لیتے ہیں۔
سٹیسی کہتی ہیں کہ ’اس کا کتنا بڑا نقصان ہو سکتا ہے یہ احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب ہمیں کچھ سنگین سننے کو ملتا ہے۔ یہ خوفناک ہے۔‘