ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی فاسٹ بولرز کے وہ بولنگ سپیلز جو کبھی بھلائے نہیں جا سکتے

بولر آئے اور چھا جائے۔۔۔ مطلب یہ کہ وہ چند گیندوں سے ہی میچ کا نقشہ بدل دے اور ایسی بولنگ کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی فاسٹ بولرز کے چند سپیل بہت شہرت رکھتے ہیں جن میں انھوں نے حریف کی بیٹنگ لائن کو محض چند گیندوں میں بکھیر کر رکھ دیا۔

سرفراز نواز بمقابلہ آسٹریلیا، میلبرن سنہ 1978

سرفراز نواز کی آسٹریلیا کے خلاف میلبرن کے تاریخی گراؤنڈ میں بولنگ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے چند یادگار ترین بولنگ سپیل میں شمار ہوتی ہے۔
آسٹریلیا کو جیت کے لیے 382 رنز کا ہدف ملا تھا۔ ایلن بورڈر اور کم ہیوز کے درمیان چوتھی وکٹ کی 177 رنز کی شراکت کے نتیجے میں آسٹریلوی ٹیم تین کھلاڑی آؤٹ پر 305 رنز بنا چکی تھی۔
لیکن جیت سے صرف 77 رن کی دوری پر سرفراز نواز نے 33 گیندوں پر صرف ایک رن دے کر 7 وکٹیں حاصل کر ڈالیں اور پاکستان کو 71 رن سے کامیابی دلا دی۔
یہ بھی پڑھیے
سرفراز نواز ڈیو واٹمور اور اینڈریو ہلڈچ کو بولڈ کر چکے تھے لیکن اصل ڈرامہ ایلن بورڈر کے آؤٹ ہونے پر شروع ہوا۔
گریم ووڈ اور پیٹر سلیپ آؤٹ ہوئے تب بھی کم ہیوز کی شکل میں آسٹریلیا کو جیت کی امید تھی لیکن ان کے 84 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد ایک کے بعد ایک بیٹسمین سرفراز نواز کی سوئنگ بولنگ کے جال میں پھنستا چلا گیا۔
سرفراز نوازتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسرفراز نواز کی آسٹریلیا کے خلاف میلبرن کے تاریخی گراؤنڈ میں بولنگ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے چند یادگار ترین بولنگ سپیل میں شمار ہوتی ہے
سرفراز نواز نے اس اننگز میں 86 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کی تھیں جو ُاس وقت پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں بہترین بولنگ تھی۔ یہ ریکارڈ سنہ 1987 میں عبدالقادر نے 56 کے عوض 9 وکٹیں حاصل کر کے اپنے نام کیا۔

سکندر بخت بمقابلہ انڈیا، دہلی سنہ 1979

سکندر بخت نے دلی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 69 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں جس کے نتیجے میں انڈین ٹیم صرف 126 رنز پر آؤٹ ہو گئی تھی۔
سکندر بخت کی یہ کارکردگی اس لحاظ سے بھی غیر معمولی تھی کیونکہ عمران خان ان فٹ ہو کر ڈریسنگ روم میں جا چکے تھے اور ایسے میں سکندر بخت نے تن تنہا انڈین بیٹنگ لائن میں شامل تجربہ کار بیٹسمینوں کو قابو کیا تھا۔
سکندر بخت اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’19 رن پر کوئی وکٹ نہیں گری تھی لیکن 37 رنز کے اضافے پر 5 وکٹیں گر چکی تھیں جن میں سے چیتن چوہان، وینگسارکر گواسکر اور راجر بنی کو میں نے آؤٹ کیا تھا۔ وشواناتھ رن آؤٹ ہوئے تھے لیکن وہ بھی اس طرح کہ میں اپنی گیند پر گواسکر کا کیچ نہ لے سکا اور گیند میرے ہاتھ سے لگ کر وکٹوں میں جا لگی۔‘
سکندر بختتصویر کے کاپی رائٹSIKANDER BAKHT
Image captionسکندر بخت نے دلی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 69 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں جس کے نتیجے میں انڈین ٹیم صرف 126 رنز پر آؤٹ ہو گئی تھی
’یش پال شرما ایک اینڈ پر رکے ہوئے تھے لیکن میں نے دوسرے دن کھیل ختم ہونے تک سید کرمانی، کپل دیو اور کرسن گھاوری کو بھی آؤٹ کر دیا۔ دلیپ دوشی کی وکٹ میرے ہاتھ نہ آ سکی جنھیں اگلے دن آصف اقبال نے آؤٹ کیا تھا۔‘
سکندر بخت کہتے ہیں ’میری اس کارکردگی پر سابق کپتان منصورعلی خان پٹودی اور لالہ امرناتھ نے پاکستانی ٹیم کے ڈریسنگ روم کے باہر آ کر مجھے مبارکباد دی تھی جبکہ سنیل گاوسکر نے بھی آ کر مجھے کہا ’سیکو ویل بولڈ۔‘
سکندر بخت کہتے ہیں کہ نہ صرف ان کرکٹرز نے بلکہ بالی ووڈ کی شخصیات نے بھی ان کی کارکردگی کو سراہا تھا جن میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن بھی شامل تھے۔
میڈلتصویر کے کاپی رائٹSIKANDER BAKHT
Image captionوہ میڈل جو اداکار پران نے خصوصی طور پر سکندر بخت کے لیے تیار کروایا تھا
جب میں ہوٹل پہنچا تو میرے کمرے پر دستک ہوئی، دیکھا تو ہوٹل کا ایک ملازم کیک لیے کھڑا تھا جو اداکار منوج کمار نے بھیجا تھا جبکہ اداکار پران اتنے خوش ہوئے تھے کہ انھوں نے ایک میڈل خصوصی طور پر تیار کروا کر مجھے بھیجا تھا جس پر درج تھا ’ود بلیسنگ فرام پران۔‘
سکندر بخت ایک واقعہ خاص طور پر بیان کرتے ہیں کہ ٹیم کی بس ایک اخبار کے دفتر کے قریب سے گزر کر فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ جایا کرتی تھی۔
’میں نے بس کی کھڑکی میں سے دیکھا کہ دفتر کے بڑے سے بورڈ پر کپل دیو کی پہلی اننگز میں پانچ وکٹوں کی کارکردگی جگمگ کررہی تھی۔ اگلے دن میں نے آٹھ وکٹیں حاصل کیں تو مجھے خیال آیا کہ میرا نام بھی اس بورڈ پر موجود ہو گا۔ جب بس وہاں سے گزری تو میں نے بڑے اشتیاق سے کھڑکی میں سے اس بورڈ پر نظر ڈالی لیکن مجھے سخت مایوسی ہوئی کیونکہ میرا نام اور کارکردگی دونوں غائب تھے۔‘

عمران خان بمقابلہ بھارت، کراچی سنہ 1982

سنہ 1982 میں پاکستان کے دورے پر آئی انڈین ٹیم کے بارے میں منیجر مہاراجہ فتح سنگھ گائیکواڈ نے فخریہ کہا تھا کہ یہ بیٹنگ لائن گیارہویں نمبر کے کھلاڑی تک ہے جس پر انھیں وکٹ کیپر وسیم باری نے جواب دیا تھا کہ آپ نے عمران خان کو نہیں دیکھا اگر آپ کے پاس پندرہ بھی ہوئے تب بھی وہ ان سب کو آؤٹ کردیں گے۔
عمران خانتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکراچی ٹیسٹ کے تیسرے دن عمران خان کی طوفانی بولنگ کی شکل میں ایسی تیز ہوا چلی جس نے انڈین ٹیم کی بیٹنگ کو پتوں کی طرح بکھیر دیا
کراچی ٹیسٹ کے تیسرے دن عمران خان کی طوفانی بولنگ کی شکل میں ایسی تیز ہوا چلی جس نے انڈین ٹیم کی بیٹنگ کو پتوں کی طرح بکھیر دیا۔
گواسکر اور وینگسارکر 74 رنز کی شراکت قائم کر چکے تھے کہ گاوسکر عمران خان کی ان سوئنگ پر بولڈ ہوئے۔ وشواناتھ نے گیند چھوڑنے کی غلطی کی اور ایک انتہائی غیرمعمولی ان سوئنگ پر وکٹ گنوائی۔
یہ ٹیسٹ کرکٹ میں عمران خان کی دو سوویں وکٹ بھی تھی۔ مہندر امرناتھ سندیپ پاٹل اور کپل دیو کے پاس بھی عمران خان کی تیز رفتار ان سوئنگ گیندوں کا کوئی توڑ نہ تھا جنھوں نے اس سپیل میں 25 گیندوں پر 5 وکٹیں صرف 3 رنز دے کر حاصل کی تھیں۔
اس اننگز میں عمران خان نے 60 رنز کے عوض 8 اور میچ میں صرف 79 رنز دے کر 11 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

شعیب اختر بمقابلہ آسٹریلیا، کولمبو سنہ 2002

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا ٹیسٹ کولمبو اور بقیہ دو ٹیسٹ شارجہ میں کھیلے گئے تھے۔
کولمبو ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں شعیب اختر جب اپنے پانچویں اوور میں بولنگ کے لیے آئے تو آسٹریلیا کا سکور ایک وکٹ پر 74 رنز تھا۔
شعیب اخترتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکولمبو ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں شعیب اختر جب اپنے پانچویں اوور میں بولنگ کے لیے آئے تو آسٹریلیا کا سکور ایک وکٹ پر 74 رنز تھا
اس ایک اوور میں شعیب اختر نے رکی پونٹنگ اور مارک وا کو لگاتار گیندوں پر بولڈ کردیا۔ اسٹیو وا ہیٹ ٹرک گیند پر آؤٹ ہونے سے بال بال بچے لیکن وہ اگلی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔
اگلے اوور میں ایڈم گلکرسٹ نے پہلی گیند پر چوکا لگایا لیکن آخری گیند پر شعیب اختر نے انھیں بھی بولڈ کر دیا۔ اگلے اوور میں شین وارن بغیر کوئی رن بنائے بولڈ ہوئے۔
شعیب اختر نے اس سپیل میں صرف 15 گیندوں پر 5 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کرڈالی تھیں۔
ان کی شاندار بولنگ کے بعد پاکستان کو جیتنے کے لیے 316 رنز کا ہدف ملا تھا۔ ایک موقع پر پاکستان کو صرف 137رنز درکار تھے اور اس کی 7 وکٹیں باقی تھیں لیکن آخری 6 وکٹیں صرف 44 رنز کا اضافہ کرپائیں اور پاکستان کو 41 رن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں بیٹسمینوں نے شعیب اختر کی محنت پر پانی پھیر دیا۔