گرچہ چین میں کرونا وائرس پر قابو پایا جا چکا ہے اور ملک کے سب سے متاثرہ شہر ووہان میں زندگی رفتہ رفتہ اپنے معمول پر آ رہی ہے، سنسان سڑکیں، کاروباری مراکز، دفاتر اور کارخانے پھر سے آباد ہو رہے ہیں، مگر وائرس کے پلٹ آنے کا خطرہ اور خوف اب بھی موجود ہے جس پر نظر رکھنے کے لیے اب سمارٹ فون استعمال کیا جا رہا ہے۔
کرونا انفکشن کا ہدف بننے والے ہوبی صوبے اور خاص طور پر ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کے شہر اور اہم کاروباری اور صنعتی مرکز ووہان میں جب کوئی شخص گھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے سمارٹ فون اپنے ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔ سمارٹ فون اب صرف شناختی کارڈ کے طور پر ہی کام نہیں کر رہا، بلکہ فون کے مالک کی صحت کے متعلق بھی بتاتا ہے۔
چین نے حال ہی میں صحت کا ایک ایپ متعارف کرایا ہے جو کرونا وائرس کے خطرے یا امکان سے آگاہ کرتا ہے۔ آپ ہر عمارت، دفتر، کارخانے، شاپنگ مال، ریستوران، غرض ہر جگہ داخل ہونے یا ٹرین، جہاز، بس یا کسی مسافر گاڑی میں سوار ہونے کے لیے، اپنا فون سکینر کے سامنے کرتے ہیں۔
فون کی سکرین پر ایک سبز رنگ کی پٹی ابھرتی ہے جس میں ایک بار کوڈ ہے۔ سبز رنگ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کرونا وائرس سے محفوظ ہیں۔ آپ کو بخار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی علامت ہے جس کا وائرس سے تعلق ہو۔ فون پر دکھائی دینے والی بار کوڈ آپ کا شناختی نمبر ہے۔ وائرس سے بچاؤ کا لباس، دستانے اور بڑے شیشوں کی عینک پہنے ہوئے سیکیورٹی سر ہلا کر آپ کو اندر جانے کی اجازت دے دیتی ہے۔
سمارٹ فون پر صحت کے لیے تین رنگ ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر پٹی کا رنگ پیلا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ آپ کسی ایسے شخص سے مل چکے ہیں جس میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ اور ابھی آپ کی دو ہفتوں کی قرنطینہ کی مدت پوری نہیں ہوئی۔ یہ مدت آپ کو لازمی طور پر اپنے گھر یا قرنطینہ کے کسی مرکز میں گزارنی ہے۔
اگر سمارٹ فون پر سرخ رنگ ابھرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ میں کرونا وائرس کی کچھ علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں اور آپ کو اپنے مرض کی تشخیص کا انتظار ہے۔ ایسی صورت میں آپ باہر گھوم پھر نہیں سکتے، صرف اپنے ڈاکٹر کے پاس جا سکتے ہیں۔ سمارٹ فون پر پیلے اور سرخ رنگ کی پٹی کے ساتھ آپ کو کسی عوامی مقام پر داخلے کی اجازت نہیں مل سکتی۔
چین نے دو مہینوں سے زیادہ عرصے تک اپنا صنعتی شہر ووہان مکمل طور پر بند رکھ کر اور تین ہزار کے لگ بھگ انسانی جانوں کی قربانی دے کر کرونا وائرس پر قابو پایا ہے۔ اس دوران 80 ہزار سے زیادہ چینی باشندوں کو اس مرض کی پیچیدگیوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑا، جس کا ابھی تک کوئی مستند علاج موجود ہے۔ مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے چین نے دس دن کی ریکارڈ مدت میں ایک ہزار بستروں کا اسپتال کھڑا کر کے پوری دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔
چین کے حکام اپنے شہریوں کو اس مہلک وائرس سے ہر قیمت پر محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، جس کے پھیلنے کی رفتار ہر وائرس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ دسمبر میں شروع ہونے والا یہ وائرس 3 اپریل تک دنیا بھر میں 10 لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور 58 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ابدی نیند سلا چکا ہے۔ اس وائرس کی ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقلی روکنے کے لیے سمارٹ فون پر متعارف کرائی جانے والی ہیلتھ ایپ چین میں صحت مند افراد کو متاثرہ لوگوں سے بچانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
ووہان میں میڑو ریل کا جدید نظام ہے جس میں اب وائرس سے بچاؤ کے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ہر بوگی کے دروازے پر ایک سکینر لگا دیا گیا ہے۔ جب آپ بوگی میں داخل ہوتے ہیں تو سکینر آپ کے فون کا ایپ پڑھتا ہے اور آپ کا ریکارڈ ایک بڑے قومی ڈیٹا بیس میں منتقل ہو جاتا ہے۔ جس سے بعد ازاں کسی وقت اس بوگی میں سفر کرنے والے کسی مسافر میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوتی ہے تو اس کے ساتھ سفر کرنے والے تمام لوگوں کو ڈھونڈنا اور ان کا چیک اپ کرنا آسان ہو گیا ہے۔ بوگی کے اندر مسافروں کے بیٹھنے اور کھڑے ہونے کے لیے نشان لگا دیے گئے ہیں، تاکہ ان کے درمیان مناسب فاصلہ قائم رہے۔
ووہان میں ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو ہیلتھ ایپ میں رجسٹر کرائے۔ رجسٹریشن کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ ایک چھوٹا سا آن لائن فارم بھرنا ہوتا ہے اور اس کے بعد ہیلتھ ایپ آپ کے قومی شناختی نشان کے ڈیٹابیس سے منسلک ہو جاتا ہے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ اگر کوئی شخص قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرونا وائرس کے باوجود عوامی مقام پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لیے کیا سزا مقرر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین میں چھوٹے اور معمولی نوعیت کے جرائم کی سزا کا نظام بڑا مختلف ہے۔ جب کوئی ایسا شخص جس کے سمارٹ فون پر ہیلتھ ایپ کی پٹی سرخ یا پیلی ہو، کسی پبلک مقام پر اپنا فون سکینر کے سامنے کرتا ہے تو اسے نہ صرف یہ کہ داخل ہونے کی اجازت نہیں ملتی بلکہ اس کے قومی کریڈٹ سکور میں منفی نمبروں کا اندارج ہو جاتا ہے۔
جیسے جیسے کریڈٹ سکور گرتا ہے، اس پر دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کسی بس یا ٹرین، یا جہاز میں سوار نہیں ہو سکتا۔ بینک سے قرض نہیں لے سکتا، اسے کرائے پر مکان نہیں ملتا، وہ ٹیلی فون، بجلی اور گیس کا کنکشن نہیں لے سکتا، اسے ملازمت نہیں ملتی، حتیٰ کہ کوئی ہوٹل اسے کمرہ نہیں دیتا۔ وہ آن لائن رقم بھیج سکتا ہے اور نہ ہی وصول کر سکتا ہے۔ آپ تصور کیجیئے کہ ایسی زندگی گزارنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔
چین نے اپنے شہریوں کی شناخت کا دنیا کا سب سے بڑا نظام قائم کر رکھا ہے۔ ہر شہر اور قصبے میں نگرانی کے ہزاروں کیمرے نصب ہیں۔ کوئی بھی کیمرے کی آنکھ سے بچ کر نکل نہیں سکتا۔ چین اپنی سخت تر نگرانی کے اس مربوط نظام سے اب کرونا وائرس پر نظر رکھ رہا ہے۔