چشتی صاحب!
آپ کے سوال بظاہر سادہ لیکن در پردہ بہت گمبھیر ہیں۔ ہر سوال کے جواب میں ایک پورا مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ میں ان سوالوں کا اختصار سے جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
پہلا سوال : نفسیاتی طور پر صحتمند انسان کیسا ہوتا ہے؟
جواب : آج سے ایک سو سال پہلے کسی نفسیات کے طالب علم نے سگمنڈ فرائڈ سے پوچھا تھا کہ ذہنی صحتمند انسان کی دو نشانیاں بتائیں تو انہوں نے فرمایا تھا
A MENTALLY HEALTHY PERSON CAN WORK AND PLAY
ذہنی طور پر صحتمند انسان محنت اور محبت دونوں کر سکتا ہے۔
دوسرا سوال : ہم کس انسان کو نفسیاتی مریض کہہ سکتے ہیں؟
جواب : نفسیاتی مریض یا خود دکھی ہوتا ہے یا دوسروں کو دکھی کرتا ہے۔ جہاں تک تشخیص کا تعلق ہے تو ذہنی بیماروں کے تین گروہ ہیں۔
پہلا گروہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ نفسیات کی زبان میں ہم اسے PSYCHOSIS کہتے ہیں۔ اس کی مثالیں شائزوفرینیا اور بائی پولر دس آرڈر ہیں۔ ایسے مریضوں کو علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے۔
دوسرا گروہ NEUROSISکا شکار ہوتا ہے ایسے مریض اینزائٹی اور ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا علاج ادویہ اور تھراپی سے کیا جاتا ہے۔
تیسرا گروہ شخصیت کی کجی کا شکار ہوتا ہے جو PERSONALITY DISORDERکہلاتا ہے۔ ایسے انسانوں کے فیصلے جذباتی ہوتے ہیں جن کا انہیں خود بھی اور قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ ایسے مریضوں کا علاج تھراپی سے کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر 3: نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب: جدید نفسیات کی روایت میں ایک ماڈل بہت مقبول ہے جو
BIO-PSYCHO-SOCIAL MODEL
کہلاتا ہے۔ ذہنی امراض اور نفسیاتی کی بنیادی طور پر تین طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
حیاتیاتی وجوہات۔ بعض ذہنی امراض موروثی ہوتی ہیں جو والدین سے بچوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔
نفسیاتی وجوہات۔ جو لوگ حد سے زیادہ حساس شخصیت کے مالک ہوتے ہیں یا مثالیت پسند ہوتے ہیں وہ نفسیاتی مسائل کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔
سماجی وجوہات: وہ بچے جن کے خاندانوں میں غصہ نفرت تلخی پائے جاتے ہیں وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سوال نمبر 4: ڈیپریشن سے کیسے بچا جائے؟
جواب : جو لوگ اپنی ذات اور زندگی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھتے ہیں وہ اکثر اوقات مایوسی اداسی اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں حقیقت پسندانہ رویہ ہمیں ڈیپریشن سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
سوال نمبر 5:نشے کی طرف جھکاؤ کس نفسیاتی مسئلے کی وجہ سے ہوتا ہے؟
جواب : جو لوگ زندگی کے حقائق کا سامنا نہیں کر پاتے وہ نشہ کر کے بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک خیالی دنیا میں جا بستے ہیں۔ بعض نشے کی بیماری بھی موروثی ہوتی ہے جو نسل در نسل چلتی ہے۔
سوال نمبر 6۔ خود کشی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
جواب: خود کشی کے اکثر مریض ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض منشیات کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ جرمن فلسفر شوپنہار کہا کرتے تھے
WHEN HORRORS OF LIVING OUTWEIGH THE HORRORS OF DYING PEOPLE COMMIT SUICIDE
خوکشی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مریض کسی ڈاکٹر یا ماہر نفسیات سے اپنے نفسیاتی مسائل کا علاج کروائے اور چند دوستوں کا ایسا حلقہ بنائے جو مشکل وقت میں اسے سہارا اور حوصلہ دے اور اسے ناامیدی سے بچائے۔
سوال نمبر 7: کب کسی شخص کو ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے؟
جواب :ہر انسان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جیسے ہم جسمانی بیماری کا علاج کروانے کے لیے جسمانی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسی طرح نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے ہمیں کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر کوئی انسان کافی عرصے سے دکھی ہے یا اس کے ارد گرد کے لوگ اس سے دکھی ہیں تو اسے کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 8 :ذہنی بیماریوں کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب : اس کا انحصار ذہنی بیماری اور نفسیاتی مسئلے پر ہے۔ عمومی طور پر علاج کے تین حصے ہیں
پہلا حصہ وہ ادویہ ہیں جو ذہنی بیماری کی علامات کو کنٹرول کرتی ہیں۔
دوسرا حصہ۔ سائیکو تھراپی ہے جس سے مریض صحتتمند زندگی گزارنے کے راز جاننے کی کوشش کرتا ہے۔
تیسرا حصہ: ذہنی تعلیم ہے جس سے مریض اپنے مسئلے کے بارے میں جانکاری کرتا ہے اور اسے جب ضرورت ہو تو وہ علاج کرواتا ہے۔
بعض ماہرین نفسیات صرف ایک انسان کا اور بعض پورے خاندان کا علاج کرتے ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ جس طرح پورا خاندان نفسیاتی مسائل پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اسی طرح صحتمند ہونے کے لیے بھی پورے خاندان کو مل کر علاج کروانا چاہیے۔
سوال نمبر 9: نفسیاتی مسائل میں سماج کا کیا کردار ہے؟
جواب : انسانی بچہ ذہنی صحت کے بارے میں پہلے گھر سے پھر سکول سے اور پھر معاشرے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ جو بچے پرامن خاندان اور معاشرے میں پلتے بڑھتے ہیں ان کے لیے صحتمند زندگی گزارنا آسان ہوتا ہے لیکن وہ بچے جو متعصب اور جارحانہ ماحول میں پرورش پاتے ہیں ان کے لیے ذہنی طور پر صحتمند زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ کینیڈا میں کہا جاتا ہے
It takes a whole village to raise a child
سوال نمبر 10: جو ذہنی مریض پیروں فقیروں کے پاس جاتے ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟
جواب : جوں جوں جدید سائنس طب اور نفسیات کے بارے میں ہمارا علم بڑھ رہا ہے ہم یہ جان رہے ہیں کہ بہت سے مسائل جو پچھلی صدیوں میں روحانی مسائل سمجھے جاتے تھے وہ درحقیقت نفسیاتی مسائل ہیں جن کا ادویہ تھراپی اور تعلیم سے علاج ممکن ہے۔ دوسری بات ہم یہ جان رہے ہیں کہ اگر ذہنی بیماری کا شروع میں علاج کیا جائے تو صحت یابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض دفعہ جب ذہنی بیماری حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تب مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ ان حالات میں ایسے مریضوں کو ہسپتال داخل کرنا پڑتا ہے۔
آپ کے تفصیل طلب سوالات کا نہایت مختصر جواب دینے کی معذرت۔
مخلص
ڈاکٹر خالد سہیل