سندھو واسنی
بچو!
آج ہم ہماری سیکس ایجوکیشن کی کلاس ہے۔' یہ کہتے ہوئے استاد ڈسٹر اٹھاتا ہے اور
بلیک بورڈ پر تحریر کردہ لفظ 'سیکس' مٹا دیتا ہے۔ اب وہاں صرف '۔۔۔۔ ایجوکیشن'
بچتا ہے۔
وہیں ایک خاتون اور ایک
مرد کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اس کے عضو تناسل کی جگہ خالی خانہ بنا دیا گیا ہے۔
اسی قسم کا مناظر 'ایسٹ
انڈیا کامیڈی' کی ایک ویڈیو میں نظر آتے ہیں۔ ویڈیو میں انڈیا میں سیکس ایجوکیشن
کو مزاحیہ انداز میں طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کہانی یہیں ختم نہیں
ہوتی۔ اس کی مزید مثالیں ہیں۔ اور یہ ہیں 100 فیصد سچی اور حقیقی مثالیں۔ مندرجہ
ذیل کچھ مثالیں اس بات کو عیاں کرتی ہیں کہ انڈیا میں سیکس ایجوکیشن کیسی ہے۔
بہت دنوں تک میں یہی
سمجھتی تھی کہ بچہ عورت کے ناف سے پیدا ہوتا ہے۔ (نوپور رستوگی، مرادآباد ، اتر
پردیش)
جب پہلی بار مجھے پتہ
چلا کہ سیکس کیسے ہوتا ہے تو میں ڈر گئي۔ (رشیگا سنگھ، سیوان، بہار)
ہمارے سکول میں جنسی
تعلیم کے طور پر کوئی چیز نہیں تھی۔ دسویں کلاس میں 'عمل تولید' کا ایک باب تھا
لیکن اس پر کبھی کلاس نہیں ہوئی۔' (پریہ سنگھ، وارانسی، اترپردیش)
مثالوں کی فہرست لامتناہی ہے
بچے کا سوال: 'اماں!
بچے کہاں سے آتے ہیں؟'
جواب: 'بیٹا، ایک
خوبصورت سی پری آسمان سے آتی ہے اور بچے کو ماں باپ کے پاس رکھ کر چلی جاتی ہے۔'
بچے کا سوال: 'پاپا، وہ
ہیروئن حاملہ کیسے ہو گئی؟'
جواب: 'بیٹا، ہیرو نے
ہیروئن کا بوسہ لیا، اس لیے وہ حاملہ ہو گئی۔'
ہندوستانی گھروں میں اس
طرح کے مکالمے عام ہیں لیکن ان عام بات چیت کا نتیجہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اس کا
اندازہ ڈاکٹر شاردا ونود کٹی کے ایک فیس بک پوسٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
’آج میرے پاس 17 سال کی
ایک لڑکی آئی۔ وہ غریب خاندان سے تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ دوست کے ساتھ سیکس کرنے
کے بعد اس نے آئی پل (حمل روکنے والی دوا) لے لی ہے۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی اور
شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔ وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ دوبارہ وہ ایسی غلطی نہیں
کرے گی۔
میں اسے سمجھاتی رہی کہ
یہ کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہر انسان سیکس کرتا ہے۔ اگر کوئی چیز ضروری ہے تو وہ حفاظتی
انتظامات ہیں۔ گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ اسے جنسی فعل کے بارے میں پتہ نہیں
ہے۔
اسے تو یہ بھی پتہ نہیں
تھا کہ مرد کا عضو تناسل کیسا ہوتا ہے۔ پھر میں نے اسے تصویر کے ساتھ تفصیل سے
سیکس کا طریقہ بتایا تو پتہ چلا کہ اس نے سیکس کیا ہی نہیں تھا۔ اس نے اپنے دوست
کا صرف بوسہ لیا تھا۔
ہمارے یہاں سیکس
ایجوکیشن کی حالت یہ ہے کہ بوسہ لینے سے حاملہ ہونے کا خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں
تک کہ اس نے حمل روکنے کی دوا بھی کھالی۔ ذرا سوچیے کہ ہم نے اپنے بچوں کو کتنا
تنہا چھوڑ دیا ہے۔‘
ڈاکٹر
شارڈا کی پوسٹ کو سینکڑوں لوگوں نے شیئر کیا۔
سیکس لفظ سنتے ہی لوگ بے چین ہو جاتے ہیں
بی بی سی سے گفتگو کرتے
ہوئے ڈاکٹر شاردا نے کہا: 'اگر میں اپنے مریضوں سے ضرورتاً ان کی 'جنسی زندگی' کے
بارے میں پوچھتی ہوں تو وہ سیکس لفظ سنتے ہی نظریں چرانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ
شادی شدہ افراد بھی اس کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتے۔'
ڈاکٹر شاردا کا خیال ہے
کہ سکول کالجوں میں سیکس ایجوکیشن کے نام پر خانہ پری اور اسے غیر اخلاقی فعل
سمجھنا اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے بتایا کہ کس
طرح انھیں کلاس میں جب عمل تولید کے بارے میں پڑھایا گیا تو لڑکے اور لڑکیوں کو
علیحدہ کمروں میں لے جایا گیا۔ یعنی سیکس ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں لڑکے
اور لڑکیوں سے ایک ساتھ بات نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹر شاردا کہتی ہیں:
'یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ جس عمل میں دونوں برابر کے شریک ہیں اس کے بارے میں
انھیں علیحدہ تعلیم دی جاتی ہے۔'
دوسری وجہ کے متعلق
ڈاکٹر شاردا کہتی ہیں: 'میری عمر 30 سال سے زیادہ ہے اور میری ماں آج بھی مجھے
کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ میری شادی نہیں ہوئی ہے۔'
یعنی سیکس کے بارے میں
بات نہ کرنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس کے بارے میں شادی کے بعد صرف بند کمرے میں
روشنی بجھانے کے بعد ہی سوچیں۔
یہی وجہ ہے کہ سکولوں
میں زیادہ تر اساتذہ بچوں کو درست اور تفصیلی معلومات دینے میں ہچکچاتے ہیں۔
اساتذہ کو نہ تو اس حساس اور اہم مضمون کی تعلیم کی تربیت ملی ہے اور نہ ہی وہ اس
معاشرے سے باہر سے آتے ہیں۔
اس طرح وہ بھی اسے عام
لوگوں کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
جے این یو کی ریسرچ
سکالر ریشیجا سنگھ کہتی ہیں: 'مجھے سکول سے سیکس کی تعلیم ملی ہی نہیں۔ جہاں تک
مجھے یاد ہے میں نے سیکس کے بارے میں چند میگزن میں پڑھا تھا۔ اس کے بعد، شاید
آٹھویں یا نویں کلاس میں میری ایک سہیلی نے مجھے سیکس کیسے ہوتا ہے کے بارے میں
بتایا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میں اس کی باتیں سن کر بہت ڈر گئی تھی۔'
سیکس کے بارے میں معلومات سے بچے کتنے محفوظ رہیں گے؟
بچوں اور نوعمروں کے
لیے کام کرنے والی تنظیم 'پرورش' کی دیپتی کا خیال ہے کہ بچوں اور نوعمروں میں
سیکس کے متعلق بہت سے غلط تصورات ہیں۔
دیپتی 'پرورش' میں سیکس
کے تعلیمی منصوبے 'آؤ بات کریں' کی سربراہ ہیں اور ان کی ٹیم سکولوں میں جا کر
بچوں کو جنسی تعلیم دیتی ہے۔ دیپتی کا خیال ہے کہ سکول کی کتابوں میں سیکس کی جو
بھی تعلیم دستیاب ہے وہ ان کی عمر کے مطابق نہیں ہے۔
دیپتی نے کہا: 'عمل
تولید کے نظام اور حیض کے بارے میں ساتویں-آٹھویں کلاس میں بتایا جاتا ہے جبکہ اصل
میں اس عمر تک بہت سے بچے بچیاں یہ سب دیکھ چکی ہوتی ہیں۔'
وہ کہتی ہیں: 'ہم
سرکاری اور پرائیوٹ دونوں طرح کے سکولوں میں جاتے ہیں اور یقین مانیے ہر سکول میں
پڑھنے والے، معاشرے کے ہر طبقے سے آنے والے بچوں کے ذہن میں سیکس کے متعلق بے شمار
سوالات ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی حفاظت کے بارے میں کوئی علم نہیں، انھیں جنسی بیماریوں
کے بارے میں پتہ نہیں، انھیں ہم جنس پرستی کے بارے میں معلوم نہیں، انھیں یہ پتہ
نہیں کہ لڑکیوں کی طرح لڑکے بھی جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔'
بڑی عمر کے لوگوں کا
خیال ہے کہ اگر انھیں سیکس کے بارے میں درست معلومات فراہم ہو جائے تو وہ بے خوف
ہوکر اس عمل میں شامل ہو جائيں گے۔
لیکن دیپتی کا جواب ہے
کہ 'جنسی فعل میں وہ بغیر درست علم کے بھی شامل ہوں گے لیکن درست معلومات کی وجہ
سے وہ کم از کم محفوظ تو رہیں گے۔'
عظیم پریم جی یونیورسٹی
سے ایجوکیشن میں ایم اے کرنے والی نوپور رستوگی کا کہنا ہے بچوں کو پانچویں چھٹی
کلاس سے ہی سیکس کی تعلیم دینی شروع کردینی چاہیے۔
وہ بتاتی ہیں کہ آج کل
میڈیا، فلمیں اور انٹرنیٹ بچوں کی پہنچ میں بڑی آسانی سے آ جاتے ہیں اس لیے انھیں
کافی کچھ پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔
نوپور کہتی ہیں: 'بچے
ٹی وی پر کنڈوم اور مانع حمل ادویات کے اشتہارات دیکھتے ہیں، انھیں فلموں میں بوس
و کنار کرتے لوگ نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی کافی کچھ مل جاتا ہے۔ لہٰذا ان کے
ذہن میں سوال تو پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں ضروری یہ ہے کہ انھیں ان کے
سوالات کے صحیح جواب ملیں۔
بشکریہ
بی بی سی اردو