ہمیشہ سنتے تھے کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ آپ کسی بھی قدوقامت، خدوخال، یا رنگت کے مالک ہوں، یہ دیکھنے والے کی نظر طے کرے گی کہ آپ اسے بھائے یا نہیں۔ لیکن اب آہستہ آہستہ ایسا لگنے لگا ہے کہ آنکھوں نے بھی خوبصورتی کا ایک خاص پیمانہ بنا لیا ہےاوراس پیمانے کا نام ہے "پرفیکٹ باڈی" جوکوئی بھی اس پیمانے پر پورا نہ اترتا ہو، اسے خوبصورتی کے دائرے سے باہر تصورکیا جاتا ہے۔
اگرچہ ’پرفیکٹ باڈی‘ کوئی بہت حالیہ بیانیہ نہیں ہے لیکن جیسے جیسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا عام ہوا ہے ویسے ویسے ہی اس نے بھی زور پکڑا ہے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت آ رہی ہے۔
امریکن سوسائٹی آف پلاسٹک سرجنز کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2018 میں امریکہ میں 18 لاکھ کاسمیٹک سرجیکل پروسیجرز ہوئے۔ کاسمیٹک سرجیکل پروسیجرز میں مردوں کی تعداد 214,741 جب کہ خواتین کی تعداد 1,464,423 تھی۔
اوپر درج اعداد و شمار اس بات کی گواہی ہیں کہ مردوں کی نسبت عورتوں پر آئیڈیل بیوٹی کا معاشرتی دباؤ کہیں زیادہ ہے۔ یہ اعداد یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس خوبصورتی کے پیمانے میں بہت یکسانیت ہے۔ اگر صرف عورتوں کی بات کی جائے تو ان کو ایک خاص قسم کی جسامت اور خدوخال چاہیں جو معاشرے نے ان کے لیے متعین کیے ہیں۔ جیسے کہ پتلی کمر، لمبی پتلی ٹانگیں، تیکھی ناک، موٹی آنکھیں، موٹے ہونٹ، چمک داربال اور بالوں کے بغیر نازک، پتلا، لمبا اور چمکیلا بدن۔
یہ نہ حاصل ہو سکنے والا ’آئیڈیل خوبصورتی‘ کا معیار عورتوں اور نئی نسل کی بچیوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رہا ہے۔ ان کا خود سے اعتماد چھن رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک خوبصورت چیز کے طور پر دیکھنے لگی ہیں کیونکہ معاشرہ ان کو اسی طرح سے فریم کر رہا ہے۔ جہاں انہیں ایک پرفیکٹ بیوی، بیٹی، ماں، بہن بننے کا پریشر برداشت کرنا پڑتا ہے وہاں یہ اضافی پریشر ان کی زندگیوں کو اوربھی مشکل بنا رہا ہے۔
ڈوو، گلوبل بیوٹی اینڈ کانفیڈنس رپورٹ کے مطابق 13 ممالک میں 10,500 خواتین کے انٹرویوز کیے گئے جن کا کہنا تھا کہ اپنے جسموں کے حوالے سے ان کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔ اسی طرح کے ایک اورگرلزایٹیٹوڈ سروے کے مطابق لڑکیوں میں بداعتمادی، غیریقینی، غصہ، ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمیں ہر وقت میڈیا، فلم، ڈرامہ، گیمز اور ٹی وی اشتہارات کے ذریعے ایسی خواتین ماڈلز اور ان کے امیجز دکھائے جاتے ہیں، جیسی خواتین ہم روزمرہ زندگی میں اپنے اردگرد نہیں دیکھتےاوران اشتہارات کے ذریعے خواتین کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ اگر آپ خود کو اس خاص سانچے میں ڈھال لیں گی تو آپ کی زندگی کو چار چاند لگ جائیں گے۔۔ آپ کو آپ کی خوبصورتی سے متاثر شدہ ایک جیون ساتھی مل جائے گا۔ کامیابی آپ کے قدم چومے گی اور لوگ آپ کی پزیرائی کریں گے۔ آپ اس سراب کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں جس سے آپ کے ہاتھ تو کچھ نہیں لگتا ہاں مگر قدرت نے آپ کو جو باقی صلاحیتیں دے رکھی ہیں، ان کے استعمال کا وقت بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ بات بہت سطحی سی لگے لیکن میری ناقص رائے میں ایک دن کے 24 گھنٹوں میں سے اگر زیادہ وقت صرف اپنی لکس کے بارے میں سوچتے ہوئے نکل جائے تو باقی کچھ کرنے کے لیے کتنا وقت بچے گا اس کا حساب آپ خود ہی لگا لیجیے۔
ہمارے جیسے معاشرے جہاں عورتوں کو سیاسی، معاشی، معاشرتی لحاظ سے اس حد تک پیچھے دھکیل دیا گیا ہے کہ ان کو برابری کی سطح تک آنے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ ہم اپنی زندگی کا قیمتی وقت، انرجی اور پیسہ خود کو دوسروں کے مطابق بنانے کے لیے کیوں خرچ کریں۔ ہمیں اپنے آپ کو اس سماجی پریشر سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے جو معیار اور حدود و قیود متعین کرتے ہیں ان سے باہر نکلنا آسان کام نہیں لیکن اگر وہ نہ معاشرے کو فائدہ دے رہے ہوں نہ آپ کی ذات کو۔
ہمیں اپنی چھوٹی بچیوں کو یہ اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بہت مکمل اور خوبصورت ہیں۔ قدرت نے انہیں جو صلاحیتیں دی ہیں، صرف ان کو ہی سنوارنے اور نکھارنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہی ان کی پہچان بنیں گی۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔